کربلا میں ہر برس عاشور اور اربعین پر مسیحیوں کے کئی قافلے آتے ہیں۔ ہاتھوں مں صلیب تھامے، عجز و انکساری کے ساتھ روضہ امام حسینؑ کے سامنے کھڑے ہوکر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے والے یہ مسیحی کبھی قطار میں کھڑے ہوکر ماتم کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم عیسیؑ ابنِ مریمؑ کے ماننے والے، حسینؑ کے غم میں اپنے آنسووں کے ذرئعے تعزیت پیش کرنے آئے ہیں۔ میں ان مسیحیوں کو جب جب دیکھتا ہوں، مجھے کربلا کے وہب کلبیؑ کی یاد آتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسیحی کربلا میں تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد دلانے آئے ہیں کہ کربلا کے ایک شہید کا نام وہب بن عبداللہ کلبی بھی تھا، جو مسیحی تھا اور روز عاشور سے چند روز قبل مسلمان ہوگیا تھا۔ البتہ لوگ اب بھی اسے "وہب النصرانی" کہہ کر یاد کرتے ہیں۔
وہ میدان جنگ میں مخصوص مسیحی جنگی لباس میں ملبوس لڑنے گیا تھا۔ مختار نامہ کے نام سے بنائی جانے والی ڈاکو مینٹری میں وہب کلبی اور شمر ملعون کا مکالمے کا منظر دکھایا گیا ہے، جس میں وہب مخصوص مسیحی جنگی لباس پہنے ہوئے ہے۔ غالبا یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے شمر نے اسے نصرانی کہہ کر مخاطب کیا۔ جس کا جواب وہب کلبی ع نے یہ کہہ کردیا کہ میں مولا حسین ع کے سامنے سر تسلیم خم کرکے، ان کے فدائی اور جانثار کی حیثیت سے میدان میں آیا ہوں۔
یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ڈاکٹر عمار نقشوانی نے ایک مجلس میں وہب کلبی ع، ان کی زوجہ اور والدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے مسیحی ہونے کا ہی ذکر کیا ہے، اسی طرح عاشورہ محرم پر نشر ہونے والی چند ٹی وی رپورٹس بھی وہب کلبی کا تعارف بطور مسیحی شہید کربلا کروایا گیا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے مجالس میں اکثر وہب کلبی ع اور ان کی والدہ و زوجہ کا روز عاشور سے قبل اسلام قبول کرلینے کا تذکرہ سنا۔
مسیحیوں کا ذکر ہوا ہے تو اپنے احساس کا تذکرہ بھی کردوں۔ مجھے عیسی ابن مریمؑ کے ماننے والے مسیحیوں کو دیکھ کر بار بار حسینؑ ابنِ فاطمہؑ کا خیال آتا ہے۔ مجھے آج تک اس احساس کی وجہ معلوم نہ ہوسکی کہ آخر میرا دل یہ کیوں کہتا ہے کہ عیسی ابن مریمؑ سے والہانہ محبت کرنے والے مسیحی، حسینؑ ابن فاطمہؑ سے بھی محبت کرتے ہونگے؟ بار بار یہ خیال دل میں کیوں آتا ہے کہ انہی مسیحیوں کی بڑی تعداد مھدی ابن فاطمہؑ سے محبت کرے گی؟ شاید مسیحیوں کے امام حسینؑ کے بارے میں جذبات دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا۔ بالخصوص عراق کے وہ مسیحی جنہوں نے اپنے بازوں پر بیک وقت عیسی ابنِ مریمؑ اور امام حسینؑ کا نام کنندہ کروا رکھا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسیحی ہیں لیکن ہم امام حسینؑ نے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ کچھ ایسے مسیحی بھی ہیں جو روزِ عاشور قمہ کا ماتم کرتے ہیں۔
وہب کلبی کے والد نے کسی زمانے میں کوفہ میں امام علیؑ سے یہ کہہ کر دعا کروائی تھی کہ میں مسیحی ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ اللہ کے ولی، اُس کے خاص بندے ہیں، وہ آپ کی دعا ضرور سنے گا، آپ میرے اور میری زوجہ کیلئے دعا کردیجئے کہ ہماری اولاد بخیر و عافیت دنیا میں آسکے، ہم بہت پریشان ہیں۔ وہب بن عبداللہ کلبیؑ، اسی مسیحی کے بیٹے تھے جس کو امام علیؑ نے دعا دی تھی۔
وہب کلبی کے اپنے زوجہ اور والدہ کے ہمراہ کربلا پہنچنے کے بارے میں مجالس میں مختلف روایتیں سنی ہیں۔ کچھ کے مطابق وہ اپنے ماں اور زوجہ کے ہمراہ، شادی کے بعد واپس کوفہ جارہے تھے کہ راستے میں ایک لشکر اور بہت سے خیموں کو دیکھا اور تفصیل معلوم ہونے پر امام حسینؑ کے لشکر میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب وہب نے لشکر سے تفصیل معلوم کرنے کے بعد اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ یہاں علی ابن ابی طالبؑ کے بیٹے حسینؑ، اُن کے خاندان اور اُن کے انصار کو گھیر لیا گیا ہے، تو وہب کی والدہ نے اُنہیں یاد دلایا تھا کہ یہ اُنہی علیؑ کے بیٹے ہیں جن سے تمہارے والد نے دعا کی درخواست کی تھی۔
کچھ روایات کے مطابق وہ کوفہ میں تھے اور وہیں خبر ملی تھی کہ حکومت کا لشکر، فاطمہ بنت محمدؑ کے بیٹے سے جنگ کیلئے روانہ ہورہا ہے۔ لہذا اپنی والدہ اور زوجہ سے مشورے کے بعد یہ تینوں کربلا روانہ ہوگئے تھے۔ البتہ ایک بات ان تمام روایتوں میں مشترک ہے کہ وہب کی شادی کو بس 19 دن گزرے تھے اور اُن کی عمر 17 سے 21 سال کے درمیان تھی۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ امام حسینؑ کس قدر کریم ہیں۔ اُنہوں نے برسوں آلِ محمدؐ کی خدمت کرنے والے جون بن حویؑ کو بھی یہی مشورہ دیا کہ آپ نے بہت خدمت کرلی، اب آرام کیجئے۔ جونؑ کے بڑھاپے کا خیال رکھا اور وہبؑ سے بھی یہی کہا کہ تمہاری ابھی شادی ہوئی ہے، اپنی زندگی کی فکر کرو۔ کرامت کی انتہا دیکھیے کہ شب عاشور خیمے کا چراغ بجھا کر اعلان کردیا کہ جو جانا چاہتا ہے، چلا جائے، اُس کی جنت کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ تاکہ آنے والے زمانوں میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ علیؑ کے بیٹے نے (نعوذ باللہ) کسی کو مجبور کیا۔ لیکن سلام ہے اُن پاک و مطھر روحوں کو کہ ادھر چراغ دوبارہ روشن ہوا، اور ادھر اُن کے دل میں ارمان کہ سب سے پہلے اذنِ جہاد اُسے ملے۔
وہب کلبیؑ کربلا کے دوسرے شہید ہیں۔ بہت جوانمردی سے لڑے تھے۔ شہادت کے بعد اُن کی زوجہ میدان جنگ کی طرف بڑھی تھیں اور وہب کی لاش پر پہنچ کر بے اختیار یہ کہتے ہوئے اُن کے چہرے سے خون صاف کرنا شروع کیا تھا کہ تمہیں جنت مبارک ہو۔ اس موقع پر شمر ملعون نے اپنے غلام کو وہب کی زوجہ کو بھی قتل کردینے حکم دیا تھا لہذا وہب کے ہمراہ اُن کی زوجہ بھی شہید ہوگئی تھیں جنہیں کربلا کی پہلی خاتون شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
لشکر یزید نے وہب کلبیؑ کا سر قلم کرکے اُن کی والدہ کو بھجوا دیا تھا، جسے اُںہوں نے واپس لشکر یزید کی جانب پھینکتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری قوم راہِ خدا میں قربان کی گئی چیز واپس نہیں لیا کرتی۔ وہب کلبیؑ کی والدہ بھی شہدائے کربلا میں شامل ہیں۔ اس خاندان نے، امام علیؑ کی دعا کا بدلہ، کربلا میں اُن کے بیٹے حسینؑ کی نصرت کرکے چکا دیا۔
۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ جب وہب کلبی نے اپنی والدہ کو میدان کربلا میں خانوادہ رسالتؑ کو چاروں جانب سے گھیرے جانے کی اطلاع دی ہوگی تو وہب کی والدہ نے یہ سوال تو پوچھا ہوگا کہ کیا کسی غیر مسلم کے لشکر نے فاطمہؑ کے بیٹے کو گھر رکھا ہے؟ جس پر وہبؑ نے جواب دیا ہوگا کہ نہیں!
"اُنہیں مسلمانوں نے گھیر رکھا ہے"
۔
ایک رات میں باطل سے حق کا سفر کرنے والا حُر بن یزید الریاحیؑ، 70 سالہ جون بن حویؑ اور 17 سالہ وہب کلبیؑ۔ یہ کردار رہتی دنیا تک، اُن "مسلمانوں" اور اُن کی نسلوں کو گھیرے رکھینگے جنہوں نے 61 ھجری میں خانوادہ رسالتؐ کو گھیرا تھا۔
کربلا کے وہب کلبیؑ جیسے کردار ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ آج بھی امام حسینؑ، ہر مذہب و مکتب سے تعلق رکھنے والے انسان کے دل میں کیوں بستے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ کچھ "مسلمان" آج بھی امام حسینؑ سے بغض رکھتے ہیں