(Last Updated On: )
وحید الٰہ آبادی کی غزل گوئی مہر فاطمہ کا رسرچ ورک ہیں ۔جسے عذرا بک ٹریڈرس ،دہلی نے 2019میں شائع کیا ہے ۔اس کتاب کو شائع کرنے کے لیے قومی کونسل برائے فروغ اردو کی طرف سے مالی تعاون بھی دیا گیا ہے ۔وحید الٰہ آبادی کی شخصیت اور ان کے کارنامے پر مہر فاطمہ کا یہ ناقابل فراموش کارنامہ ہے انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ ایک گمنام شاعر کو زندہ کرنے کا کام کیا ہے۔اس کتاب میں کل چار باب ہیں ۔اوّل وحید الٰہ آبادی حیات و شخصیت ،دوم وحید الٰہ آبادی کی غزلوں کا موضوعاتی مطالعہ، سوم وحید الٰہ آبادی کی غزلوں کا فنی مطالعہ آخر میں انتخاب کلام وحید الٰہ آبادی بھی شامل ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہیں کہ مہر فاطمہ نے کس عرق ریزی سے اس گمنام شاعر کو منظر عام پر لاکر کھڑا کیا ہے۔اس کتاب سے فراہم معلومات کے مطابق وحید الہ آبادی انیسویں صدی کی اردو شعری روایت کا ایک اہم نام تھے لیکن بدقسمتی سے اس شخصیت کواردو کی شعری دنیا میں بھلا دیا گیا۔ موجودہ دورمیںصورت حال یہ ہے کہ بہت کم تعدادمیںوہ لوگ ہیںجووحیدکے نام سے واقف ہیں اوران میں بھی زیادہ ترلوگوںکی واقفیت صرف اس حدتک ہے کہ وحید الہ آبادی اکبرالہ آبادی کے استادتھے۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وحیدکی حادثاتی موت نے انہیںبہت نقصان پہنچایااورآج تک ان کادیوان شائع نہ ہوسکا۔شایدیہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ وہ گمنام ہوتے گئے۔آج المیہ یہ ہے کہ تذکروںیاتاریخ کی کتابوںمیںان کانام تک صحیح صورت میں درج نہیںہے۔’مثلا مرأۃ الشعرا، رہنمائے تاریخ اردو، خم خانۂ جاوید‘میں ان کا نام ’منشی غلام حسین وحید‘لکھاگیاہے۔ ’اردوغزل کے پچاس سال،علی گڑھ میگزین اکبرنمبر، تاریخ ادب اردواوربیاض سخن‘ میں’غلام حسین وحید‘تحریرہے۔ نثاراحمدفاروقی نے مولوی وحیدالدین احمدخاںوحید لکھاہے۔’مشاطہ سخن‘ اور’مشیدحریت‘ میں’میروحید‘لکھاہواہے۔بقیہ تذکروںمیں’وحیدالدین احمد‘ ملتا ہے۔ حالانکہ حقیقت ان سب سے مختلف ہے۔وحید الٰہ آبادی وقت کے پنوں میں ایسا کھو گئے کہ ان کی شخصیت اور نام پر دھول کی ایک پرت چڑھ گئی جسے صاف کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی ۔
وحید کی دھندلا چکی شخصیت پر صرف ان کے نام ہی نہیں بلکہ ان کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بھی ماہرین قلم میں اختلاف نظر آتا ہے۔’مثلا ’انتخاب وحید‘‘کے مقدمہ میںعلی حسنین زیبانے ان کی عمرتریسٹھ سال بتائی ہے۔اگر یہ بات درست مان لی جائے تو اس لحاظ سے ان کاسنہ پیدائش۱۸۲۹ قرارپاتاہے۔جبکہ اسی مقدمے کے صفحہ ۱۵ پر وحید کے بھانجے اورشاگرد محمد ابونصرکا بیان نقل ہے، جس کے مطابق وحیدالہ آبادی کی عمران کے انتقال کے وقت (۱۸۹۲) ستر سال تھی۔نہال احمدکڑ وی نے وحیدکی عمرساٹھ سال سے متجاوزبتائی ہے۔ان دونوںبیانوںکے مطالعہ سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ وحیدکیعمرساٹھ سے زیادہ اورسترسال یااس سے کچھ کم رہی ہوگی۔چونکہ ابونصر ان کے بھانجے تھے اورشاگردبھی رہے،اس کے علاوہ حادثاتی موت کے بعدوحیدکی لاش آتش زدہ کمرے سے نکالنے والوںمیںبھی پیش پیش تھے،اس لحاظ سے ابونصرکابیان زیادہ معتبرمانا جا سکتا ہے۔اس دلیل کی روشنی میں وحیدکی عمر۶۹سال ہوئی ۔جس کے مطابق ان کاسنہ پیدائش۱۸۲۱یا۱۸۲۲قرارپاتاہے۔وحیدالہ آبادی کے والدکانام امیرالدین عرف امراللہ تھا۔جو بہت پڑھے لکھے تھے حتی کہ ان کے والدعبدالقادرفاروقی اپنے وقت کے علما میںشمارکئے جاتے تھے۔مولوی امراللہ نے کڑے میںہی دینی ومذہبی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعدوکالت کاامتحان دیااورالہ آبادمیںوکالت کرنے لگے۔اس پیشے میں انھوں نے بہت شہرت حاصل کیں۔خصوصالکھنؤ، کانپور، فتح پور،بنارس، اعظم گڑھ اور اس کے قرب وجوارمیںان کی وکالت کے خوب چرچے تھے۔امراللہ کواوائل عمری سے ہی شعروسخن سے خاصی دلچسپی تھی۔انھوں نے ’’شاغل ‘‘تخلص بھی اختیار کیا تھااورغلام ہمدانی مصحفیؔ سے اصلاح لیتے تھے۔اس زمانے کے تذکروںکے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ شاغل باقاعدگی سے شعرکہتے اورمشاعروںمیںحصہ لیتے وہ طرحی غزل کہنے کابھی شوق رکھتے تھے۔اس کے علاوہ ’چراغ محفل فصاحت‘ اور’سخن شعر‘امیںشاغل کادرج ذیل شعرملتاہے،ملاحظہ فرمائیں:
بے قراری سے مری آہ وہ آگاہ نہیں
جس کا میں چاہنے والا ہوں اسے چاہ نہیں
شاغل کی اسی غزل کاایک اورشعر’شوکت نادری‘ میںبھی دیکھنے کوملتاہے۔بہر حال وحید الہٰ آبادی نے کلاسیکی اردو شاعری کا وہی زمانہ پایا تھا جس زمانے میں اردو غزل کے شہرۂ آفاق نام یعنی غالب ،ذوق اور مومن وغیرہ اپنی غیرمعمولی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ دہلی میں کر رہے تھے۔ اسی عہد میں الہٰ آباد میں رہ کر اپنی شاعری سے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرنے کا کام وحید الہٰ آبادی نے اس خوبی سے انجام دیاکہ اس دور کے ممتاز اساتذہ میں شمار ہو نے لگے۔ مگر افسوس یہ عظیم شاعر وقت کے پنوں میں کہیں بھلا دیا گیا۔لیکن ان کی شاعرانہ بصیرت علم و فن سے واقف شخصیات نے وقتا فوقتا ان کا تذکرہ کیا اور ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف بھی کیا ۔اردو کے مختلف ماہر قلم اور ان کی شاعرانہ عظمت کے قائل لوگوں نے ان کی شخصیت اور شاعری پر اپنا اظہار خیال پیش کرنے والوں میں کئی اہم نام شامل ہیں جن میں فراق گورکھپوری کا نام قابل ذکر ہے ،لکھتے ہیں:
’’میںخود وحیدالہ آبادی کو خلوص قلب کے ساتھ اپنا استادمانتا ہوں، ان کاکلام انسانیت،پاکیزہ وجدان اورروحانیت سے لبریزہے۔ وہ ہمیں صرف شاعری نہیںسکھاتے بلکہ تہذیب شاعری کاسبق بھی دیتے ہیں۔ ‘‘ ۱؎
اسی طرح وحیدالہ آبادی کی شخصیت سے متعلق امدادامام اثر نے نہایت تفصیل سے گفتگوکیں۔جس سے ان کی شاعری ، نجی زندگی،علم و فن اور ان کی شخصیت پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے ،وہ لکھتے ہیں:
اس عاجزنے اپنے زمانے میںبھی ایک سے ایک غزل گوشاعر کو دیکھا ہے کہ جن کی زیارت ثواب سے خالی نہ تھی۔ یہ ہمارے مولوی وحید الہ آبادی تھے۔ شاعر کے لئے جتنی صفتیں درکار ہیں ان کی ذات بابرکات میں موجود تھیں۔ حضرت کو نہ لباس سے شوق تھا نہ کھانے سے ذوق دونوں سے نہایت بے پروا اور آزاد تھے۔ جہاں نیند آئیسورہے۔ جہاں جی چاہا چلے گئے۔ دنیا میں کیا ہوتا ہے اس سے ان کو کوئی بحث نہ تھی ۔ جن لوگوں سے احتراز مناسب سمجھا بے ربطی رکھی کسی کی برائی میں بھی زبان نہ کھولی اگر کسی نے برا کہا تو اس کو جواب نہ دیا۔ شکایت ، غیبت، گلہ وغیرہ کی فرصت انہیں افکار شاعری سے نہ تھی۔ سالہاسال ملاقات میں اس عاجزنے انہیں کسی کو بدکہتے نہ سنا جس کا ذکر آگیا اس کو اچھا اچھا ہی کہا ہر طرح کے حسد سے ان کا سینہ پاک تھا حتیٰ کہ شاعرانہ حسد بھی ان کے دل میں نہ تھا۔ قناعت سیر چشمی،عجز ،صبر وتحمل، صدق وصفا میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے۔ قلب اس قدر سوز وگداز سے بھرا پایا تھا کہ ان کی صحبت میں طبیعت کو بے چینی پیدا ہوتی تھی۔ ۲؎
اسی طرح وحید الہ آبادی کے بھانجے ابو نصر نے ایک واقعہ بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وحید الٰہ آبادی صرف ایک سنجیدہ انسان ہی نہیں تھے بلکہ خوش مزاج انسان بھی تھے ۔ان کے بھانجے کے اس بیان سے وحید الٰہ آبادی کی برجستگی اور شوخی وظرافت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے،اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
ایک مرتبہ وحید الہ آبادی کو لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک بیگم صاحبہ کے یہاں مشاعرہ ہونے والا تھا چونکہ آپ کو عجلت تھی، اس لئے شرکت مشاعرہ ناممکن تھی۔ مگر ایک دوست کے مجبور کرنے پر بیگم صاحبہ کے دولت خانے پر گئے۔ ان کے دوست نے بیگم صاحبہ سے عرض کیا کہ یہ شاعر جو میرے ہمراہ ہیں دیہات کے رہنے والے ہیں، چونکہ جلد واپس جانے والے ہیں مشاعرے میں شرکت نہیں کرسکتے۔ ان کا کلام سن لیا جائے ۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا مجھ کو کلام سننے کی فرصت نہیں ہے ان کو مصرع طرح دیا جائے کہ ضم کریں ۔ میں ان کے کلام کا اندازہ کرلوں گی۔ مصرع طرح سنایا گیا:
دور سے آئے ہیں مشتاق تماشا ہوکر
اتفاقاً اس مشاعرے میں دو چار لوگ ان کے شناسا نکلے۔ سب چلا اٹھے کہ یہ تو مولوی وحید ہیں۔ اس شور پر کل اہل جلسہ کی نظریں ان کی طرف اٹھ گئیں۔ بیگم صاحبہ نے چلمن ہٹا کر ان کو دیکھنا چاہا توان کی نظر وحید پر پڑی انہوںنے فوراً چلمن ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر مولوی وحید نے برجستہ مصرعہ ضم کیا۔
ہم سے پردہ نہ کرو شاہد رعنا ہوکر
دور سے آئے ہیں مشتاق تماشا ہوکر
یہ سننا تھا کہ بیگم صاحبہ نے بے محابا پردہ الٹ دیا اور کلام سننے کی مشتاق ہوئیں۔ کلام سن کربے حد مسرور ہوئیں۔ لکھنؤ میںبھی آپ کی شہرت ہوئی۔ ۳؎
اس واقعہ سے ان کی شخصیت میں پوشیدخوش مزاجی ،شوخی وظرافت کا اندازہ ہونے کے ساتھ یہ بھی بخوبی پتہ چلتا ہے کہ اپنے زمانے میں وہ کتنیمعروف شخصیت تھے ۔ان کی شہرت کا بھر پوراندازہ ہونے کے ساتھ ان کی برجستگی اور قادر الکلامی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وحید الہ آبادی نے اپنی زندگی شعر و شاعری میں وقف کر دی تھی نتیجتا انھوں نے اپنی فنی بصیرت و بشارت سے رفتہ رفتہ شعر وشاعری میں استاد کا مقام حاصل کرلیا۔وہ صحیح معنی میں شاعر کہلانے کے مستحق تھے ،ان کے دل میں عام و خاص کے مسائل کے حل کی فکر،گرد و پیش کی زندگی پر گہری نظر ہونے کے ساتھ ساتھ شوخی و ظرافت اور فطرت سے گہری انسیت بھی تھی۔فطرت سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ کبھی کبھی دریاکے کنارے جاکرشعر کہتے تھے، جہاںاکثر احباب کا مجمع ہوتا اور پھر محفل سجتی فی البدیہہ شعر کہنے کا مقابلہ ہوتا، مشاعرے ہوتے۔ شعراء میں آپسی نوک جھونک ہوتی اور جب کبھی کوئی تنازعہ ہوتاتو وحید ثالث مقرر ہوتے اور اس گتھی کوبڑے پیار سے سلجھاتے اور مسئلے کا حل نکالتے ۔ اس طرح کی محفلوں اور تربیت سے وحید کے تلامذہ کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیا ۔ یہاں تک کہ جہاں وحید ہوتے شاگردوں کی ٹولی بھی ساتھ ہوتی اور پھر شعر و شاعری کا سلسلہ چل پڑتااکثر دریا کے کنارے جمع ہوکر شعر و شاعری کے علوم و فنون پرگھنٹوں تبادلۂ خیال ہوتا۔وحید الٰہ آبادی مشاعروں میں بھی خاصی مقبولیت رکھتے تھے ان کا نرالا انداز بیان بہت جلد مقبول عام ہوا۔
اس کتاب میں بیان وحید کی غزل گوئی کے فنی اوصاف کے بارے میں بھی نئی جانکاریاں ملتی ہیں ۔اب تک کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مہرفاطمہ سے قبل وحید الٰہ آبادی کے بارے میں اتنی تفصیل اردو ادب میں کہیں اور پڑھنے کو نہیں ملتی ۔ وقت کے پنوں میں گم ہو چکے اس شاعر کو مہر فاطمہ نے اپنی تحقیق کے ذریعہ منظر عام پر لانے کا قابل ستائش کام کیا ہیں ۔اس کتاب میں وحید کی زندگی کے نت نئے گوشوں کو چھیڑا گیا ہیں۔ جن کا تفصیلی مطالعہ اس مختصرمطالعہ میں ممکن نہیں ۔وحید کے فنی زندگی کے ان نکات کو جاننے کے لیے مہر فاطمہ کی یہ کتاب یقینا اہم ذریعہ ہے جسے ہر طالب علم کو پڑھنا چاہیے ۔ان کی کتاب یقینا ادب کے سرمایہ میں ایک نیا اضافہ ہے ،جسے امید ہے ادبی حلقوں میں وہ مقام دیا جائیگا جس کی یہ مستحق ہے۔میں مہر فاطمہ کو اس عمدہ تحقیقی کام کو مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔
حواشی:
(1) سیداکبرحسین اکبر الہ آبادی(المتوفی:9ستمبر1921)
(2) منشی محمدجاںخاںحیرت خلف بایزیدخاںالہ آبادی
(3) خورشید