وحدت الوجود
وحدت الوجود ایک صوفیانہ اصطلاع ہے جو کے مسلمانوں میں عہد ذوال سے بہت مقبول ہوئی ۔ وحدت الوجود کے بارے میں سب سے پہلے رسالہ قشریہ میں ذکر ملتا ہے اور اس کو باقیدہ طور پر جس نے پیش کیا وہ شیخ اکبر محی الدین نے ابن عربی تھے ۔ ابن عربی جو کے حاتم طائی کے خاندان سے تھے اور اندلس ۵۶۰ھ میں پیدا ہوئے اور بعد میں وطن کو چھوڑ کر مشرق چلے آئے جہاں مختلف جگہوں کی سیاحت کی اور آخر میں دمشق میں چلے آئے جہاں انہوں نے ۶۳۸ھ میں وفات پائی ۔
وحدت الوجود کا مطلب یہ کہ اصل وجود صرف خدا ہے اور اس کے سوا کوئی وجود نہیں ۔ کائنات صرف خدا کی ذات کا عین ہے ۔ یعنی خدا اور کائنات ایک ہے ۔ یہ کائنات خدا کی ذات کا ظہور سے پزیر ہوئی ہے ۔ یہ کائنات خدا کی ذات کا ظہور ہے ۔ یہ خدا سے پیدا ہوئی اور اسی کی طرف لوٹ جائے گی ۔ اس نظریہ کے تحت کائنات اور خدا ایک ہیں ۔ خدا سے الگ کائنات کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ خدا سے کائنات کا معنی کا تعلق دونوں کو ایک دوسرے کا حصہ اور لازمی جزو بنادیتا ہے ۔ ابن عربی کے ایک مرید مولانا عبدالرحمن جامی نذدیک عالم ظہور سے پہلے آءٰین حق تھا اور ظہور کے بعد حق عین عالم ہے ۔ لوائح جامی کے تحت عارف کی نظر میں کائنات کا ہر زرہ اپنی وحدت کی بنا پر اللہ تعالی کی وحدت کی گواہی دیتا ہے ۔ عالم کی سیکڑوں اشیاء میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو اپنی شکل و صورت پر ذات و حق کی غمناز نہ ہو ۔
شیخ محی الدین نے ابن عربی اس کے بعد مولانا رومی اور دوسرے صوفیا اور صوفی شعراء نے اس نظریہ کو کلام میں اس کو پیش کیا ۔ اس کے ایک طرف تو یہ معنی لیے جاتے ہیں کہ عشق حقیقی میں خود کو اتنا کم کردو کہ تمہا ری ہستی فنا ہوجائے اور یہی صوفیا کی معراج رہی ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق توحید یہ نہیں ہے کہ خدا واحد ہے ۔ بلکہ توحید یہ ہے کہ اس کے سوا کائنات میں کوئی دوسرا وجود نہیں ہے اور تمام مخلوق اسی کی ذات کا حصہ ہے اور مخلوق کی اس کی ذات علحیدہ کرکے مت دیکھو ۔
وحدت الوجود کا افلاطونی تصور ہے ۔ جس میں تصور مطلق سے دنیائے امثال وجود میں آئی ہے اور وہ اپنی تکمیل کے لیے پھر اس طرف چل دے گی اور خدا کی طرف لوٹ کر دراصل باللہ ہونے میں ان کی تکمیل ہے ۔ کیوں کہ وحدت الوجود میں ہم خدا کے جزو کی حثیت سے معروف اور اسی کی ذات میں چلیں جائیں گے ۔ وحدت الوجود کو ابن عربی سے بہت پہلے بابلی ، مصری ، فنیقی ، رومی ، یونانی ، یہودی اور عیسائیوں میں اس کا کا ذکر ملتا ہے تثلث جہاں بھی وجود میں آئی وہ وحدت الوجود کا پرچار ہے ۔ ان مذہب میں تمام دیوتا ایک ہی ہستی کا مختلف روپ ہیں اور یہی افلاطون کا نظریہ تھا ۔ عیسائیوں کا تثلث بھی ایک ہی وجود کی شکلیں ہیں ۔ لیکن جس مذہب نے سب سے زیادہ اس کا پرچار کیا وہ ہندو مذہب یا ہند میں پیدا ہونے والے مذہب جن کی ایک ہی مقصد یعنی مکتی حاصل کرنا ۔ عہد وسطی میں ہندو مت میں مختلف تحریکوں نے جنم لیا ، جن کا رجحان توحید یا ایک خالق کی عبادت پر تھا اور ان کے بارے میں گمان ہے کہ ان پر مسلمانوں کا اثر ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے جب سے ویدک مذہب ہندو مت میں تبدیل ہوا برصغیر میں بہت سے مذہبوں اور فرقوں میں جنم لیا اور ان تمام پنتھ (فرقوں) کا مقصد مکتی حاصل کر اور آواگون سے نجات حاصل کرنا ۔ آواگون یعنی بار بار جنم لینے سے چھٹکارہ اور مکتی یعنی نجات حاصل کرنا ۔ اس عقیدے کے مطابق ہمیں جس ہستی نے پیدا کیا ہے ، ہم اس کی ذات کا ہی حصہ ہیں اور اسی کی ذات میں جذب ہونا مکتی ہے ۔ یہی نظریہ وحدت الوجود ہے جس کو مسلمان صوفیا نے اختیار کیا ہے ۔ وحدت الود کے نظریہ نے تمام دیوتا ایک ہی ہستی کا مختلف روپ کی شکل میں عقیدے نے جنم لیا اور تری مورتی یعنی شیو ، وشنو اور برہما کی ایک ہستی کا عقیدہ سامنے آیا ۔ یہاں تک اس عقیدے نے اتنی وسعت اختیار کی کہ دور جدید میں قدیم قوموں کے دیوتاؤں کو بھی ان دیوتاؤں کا روپ بتایا گیا ۔
ہندو مذہب میں ٖفلسفہ ممیاسہ کے مطابق روح و مادہ اور اور کل کائنات اس کی ذات کی پرتو ہیں ، تمام چیزیں اسی سے نکلی ہیں اور آخر کار اس میں فنا ہوجائیں گیں ۔ جس طرح سمندر کا پانی بادل کی شکل میں ہوا پر اڑتا ہے اور زمین پر برس کر دریا میں شامل ہوجاتا ہے اسی طرح دنیا کی ہر ایک چیز برہم (خدا) سے ظہور پذیر ہوئی اور اسی میں غائب ہوجائے گی اور صرف پیدا کرنے والے کی ذات باقی رہ جائے گی اور کوئی چیز باقی نہ رہے گی ۔ جس طرح چنگاری آگ کا جزو ہے اسی طرح روح پیدا کرنے والے کا جزو ہے جو ایک جسم سے نکل کر دوسرے جسم میں داخل ہوجاتی ہے ۔ آہستہ آہستہ علم اور نیکی کی طرح ترقی کرتی ہے ۔ جب اس کا علم اور علمل درجہ کمال پہنچ جاتا ہے پیدا کرنے والے کی مقرب ہوجاتی ہے ۔ روح اور مادہ پیدا کرنے والے کی دو مختلف صورتیں سنہ عیسوی سے قبل پتنجلی نے ظاہر کی تھی کہ جس چیز سے کل کائنات کا ظہور ہوا اس کا نام برہم ہے وہ اسباب فراہم کرتا ہے ۔ روح محض اس عبادت کرنے پر مادہ سے نجات پاتی ہے اور اس میں فنا ہوجاتی ہے ۔
وحدت الوجود اور وحدت شہوات کے کے بارے میں مختلف ہائے نظر آتے ہیں ۔ کچھ اسے عین اسلام قرار دیتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اسے غیر اسلامی تصور کرتے ہیں ۔ ابن عربی کے مطابق وجود مدرک تو خدا اور کائنات معنی کہہ کر کائنات اور خدا کی ہستی کے درمیان ایک رشتہ قائم کیا ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کی ہستی اور وجود اصل ہے ۔ یعنی دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ۔ کیوں کہ جب وجود مدرک نہ تو معنی کا بھی تصور کہاں کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ۔ خدا قابل ادراک نہیں ہے ہم خدا کو اتنا ہی جاسکے ہیں کہ جتنا اس نے اپنے صحیفوں اور پیغمبروں اور رسولوں کئے ذریعہ ہم پر ظاہر کیا ہے ۔ حضرت مجدو الف ثانی نے ابن عربی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خدا اور عبد کبھی ایک نہیں ہوسکتے ہیں انہوں نے کائنات کو وجود بنانے کے بجائے ظل ، سایہ اور مشہود بنادیا ۔ مگر یہ بھی وحدت الوجود ہی ہے ۔ کیوں کہ اس میں کائنات کو وجود مدرک کہتے ہیں اور ابن عربی بھی اسے وجود مدرک کہتے ہیں ۔ مولانا رومی اس نظریہ کے بارے میں پروفیسر نکلسن کا کہنا ہے وہ کائنات کو خدا کی عین کہتے ہوئے دونوں عینوں کو الگ الگ وحدتیں بیان کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ نظریہ یونانیوں کے وحدت الوجودی سے ذرا الگ ہوجاتے ہین اور اس کو شوپن ہار مہذب الحاد کہا ہے ۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر فضائے وجود میں ایک تو ہی ہے تو پھر حق کدھر ہے ۔ اگر چشم شہود میں ہر طرف وہی ایک وجود جلوہ گر ہے تو میری اور تیری ہستی کی حقیقت کیا ہے ۔ ابن عربی نے اسے اس طرح سے پیش کیا ہے کہ اس کے کئی معنی جنم لیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے خیالات کو پیش کرنے جان بوجھ کر الجھنیں پیش کیں ۔ وہ ایک طرف ختم نبوت کے بھی قائل ہیں اور تسلسل نبوت کا بھی ۔ جواز دیتے ہیں ۔ وہ ولایت کو نبوت پر بھی فائق دیتے ہیں اور نبوت کے ولایت سے کئی درجہ کے موید ہیں ۔ گویا اس میں سے اپنی پسند کا تصور برآمد کیا جاسکتا ہے اور ان کی تحریریں کوئی واضح حتمی اور قطعی تصور پیش نہیں کرتیں ہیں ۔
اس نظریہ کے مطابق عالم میں ذات حق ہے کیوں کہ وجود ان میں حقیقی ایک ہی ہے اس لیے کسی بھی موجود مثلا چاند سورج بت کی پرستش کو غلط نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ یہ چاندپر سورج یا بت کی پرستش نہیں اس حق کی پرستش ہے جو ان موجودات کے پردے میں عین بن کر موجود ہے ۔ ویدانتوں کا یہی مسلک ہے اور ہندوؤں کی اکثریت اسی پر پیرا ہے ۔ اس نظریہ کو مان لینے کے بعد کفر اور اسلام کی تفریق ضتم ہوجاتی ہے ۔ ابن عربی کا کہنا ہے کہ ’’عارفین جو حقیقت نفس الامری سے واقف ہیں ان صور کی عبادت انکار ظاہر کریں گے ۔ کیوں کہ ان کے مرتبہ علم و معرفت کا تقاضا ہے کہ حکم رسول کی تابعداری کریں ۔ وہ رسول پر ایمان لائے ہیں اسی وجہ سے ان کو مومنین کہا گیا ہے ۔ اس کے باوجود وہ خوب سمجھتے ہیں کہ ان نادانوں نے دراصل صور دعیان کی پوجا نہیں کی بلکہ اللہ ہی کی عبادت کی ہے ۔ ان بتوں کے ضمن میں اور یہ سلطان تجلی کا تقاضہ ہے ۔ عرفان تجلیات کو اضنام کے اندر سے دیکھتے ہیں اور نادان جس تجلیان کا علم نہیں ہے انکار کرتا ہے ۔ نبی و رسول اور ان کے وارث حال جو عارف ہیں نادانوں سے اس حقیقت کو چھپاتے ہیں’’ ۔ گویا ابن عربی نے باطنیت کی تعلیم دی ہے ۔
اس طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں ’’ہارون علیہ السلام نے ہر چند گوسالہ پرستوں کو زبان سے منع فرمایا مگر قہر و غلبہ و فعل سے اس لیے منع نہ کرسکے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے کیا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا ایک تماشہ تھا جو وجود خارجی میں ظاہر ہوا کہ گوسالہ زائل و باطل ہونے والی عبادت ہورہی تھی اور بوجنے والے نادانی ہی سے سہی مگر معبود سمجھ کر پوج رہے تھے ۔ آخر باقی باقی رہے گا اور فانی فنا ہوکر رہے گا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بہ نسب ہارون کے حقیقت نفس الامیری سے زیادہ واقف تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے کہ گوسالہ پرستوں حقیقت میں کسی کی پرستش کی ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا حکم ازلی ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ خدا جس شے کا حکم دیتا ہے وہ کرکے رہتا ہے ۔ ۔ صورتوں کو بقا و دوام کب ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے جلا دینے میں جلدی کی ورنہ گوسالہ کی صورت تو جانے والی تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام پر غیرت نے غلبہ پایا اس لیے اسے جلادیا ، پھر اس کی راکھ دریا میں بہادی اور سامری سے فرمایا ’’انظر الی الھک’’ اپنے معبود کو دیکھ کر یہ متنبہ کرنے کے لیے فرمایا ، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جلوہ گاہ الوہیت میں سے ایک جلوہ گا ہے ’’۔
ابن عربی نے ایک دوسری جگہ کہا ’’آدمی دوسروں کے اعتقادی معبود کی مذمت کرتا ہے ۔ اگر منصف مزاج ہوتا تو مذمت نہ کرتا مگر معبود خاص کا عابد ہمیشہ جاہل رہتا ہے ۔ وہ دوسروں پر اعتراض کرتا ہے اپنے کے عقیدے کے خلاف ہونے سے ۔ اگر وہ جنید کے اس قول کو سمجھتا ’’لون الماء لون اناھہ’’ پانی کا رنگ برتن کے رنگ کے مطابق ہوتا ہے’’۔ ہے تو معتقد کے معبود خیالی کو تسلیم کرلینا اور ہر صورت کو حق جاننا’’۔
ابن عربی نے بنی اسرائیل کی گوسالہ کی جو توجیہ پیش کی وہ کفر اور زندقہ کے علاوہ کیا ہے ۔ جس کی بنا پر بنی اسرائیل ہر اللہ کا عضاب نازل ہوا ۔ اس کا مطلب بت پرستی کی جو مذمت کی گئی ہے وہ صرف دیکھاوے کی ہے ۔ ابن عربی کے اس خیالات نے صوفیہ کے بڑء طبقہ میں کعبہ و بت خانہ کی عدم تفریق کا رجحان مقبول رہا ہے ۔ اس لیے حضرت مجدو الف ثانی نے کہا کہ ہمیں قران کی آیات یقین کے لیے چاہیے نہ کہ فصوص ۔ ان کے علاوہ ابن تمییہ نے بھی ابن عربی کے تصورات کو مسترد کر دیا ہے ۔ اقبال نے اپنے خطبات میں ایک طرف تو وحدت الوجود کو کفر اور ذلات اور زندقہ کہا ہے اور اقبال نے حضرت مجدو الف ثانی کی پیروی میں اپنے تصور خودی میں اس کا شعور اور ابلاغ پایا جاتا ہے ، مگر انہوں نے وحدت الشہود کے نظریہ میں خدا کو اصل رکاوٹ اور کائنات کو اس کی تخلیق کے بجائے شہود یا ظل یا سایہ بنادیا تو وہ پھر افلاطونی ظلیت کی دلدل میں پھنس گئے جو ابن عربی کے تصور کی ہی بازگشت ہے کہ خدا وجود مدرک ہے اور کائنات معنی ۔ ابن تمییہ نے اپنی کتاب العبودیت میں ابن عربی کو ملحدین میں شمار کیا ہے ۔ حمید الدین فراہی نے ابن عربی کو حقیقت دین سے بے خبر بتایا ہے ۔
ابن عربی نے وحدت الوجود کے حق میں جہاں عقلی اور نقلی دلائل دیئے ہیں وہاں باطن یعنی کشف کو بھی پیش کیا ہے ۔ مگر اس بارے حضرت مجدو الف ثانی کا کہنا نے ہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ وجودی صوفیہ کا سکر ہے اور مشاہد حق کا ادنیٰ سا مقام ہے اور اگر سالک اس مقام سے آگے نہیں بڑھا تو وہ فریب دید کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ مقام دراصل سالک کی غیر معمولی محویت و استغراق کا پیدا کردہ ہوتا ہے ۔ اس سے بھی آگے مقامات سلوک ہیں ، جن سے گزرے بغیر سالک حقیقت الحقائق اور موجودات عالم کے درمیان ربط کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکتی ہے ۔ تصوف کی روح تصور فنا ہے اور اسی کا نام مشاہدہ حق ہے ۔ اس کے مختلف درجہ ہیں ۔ اس مشاہدے کا تعلق تمام تر انسان کے باطن سے ہے اور اس میں قلب کو مرکزی حثیت حاصل ہے اور ان کے مشاہدے میں انسانی حواس اور عقل کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
صوفیہ مشاہدہ حق کی تائید قران کریم سے نہیں ہوتی ہے ۔ قران میں تو کثرت سے عقل و غور فکر کی بات کرتا ہے ۔ اس طرح قران باطنی مشاہد کی بات نہیں بلکہ تخلق انسان میں اللہ تعالی کی قدرت و حکمت کے آثار کے مشاہدہ کی بات کرتا ہے ۔ صوفیہ کہتے ہیں عقل و فکر کے ذریعہ معرفت ممکن نہیں اس لیے کہ عقل حادث و مخلوق ہے اس لیے مخلوق کی رہنما نہیں بن سکتی ہے ۔ یعنی صوفیہ کی دلیل قران کی کسی آیت پر ہے بلکہ ایک فلسفیانہ اصول پر ہے ۔ قران میں تو عقل و فکر کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے اس میں ان لوگوں کے لیے معرفت کی نشانیاں ہیں جو عقل و فکر سے کام لیتے ہیں ۔ قران میں توان لوگوں کو صاحب عقل کہا گیا ہے ۔ جو آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں ۔ حقیقت میں صوفیہ کا باطنی غور و فکر کا تعلق حقیقت سے نہیں بلکہ عالم حیرت سے جہاں عقل کی رسائی نہیں ہے ۔ یہ باطنی مشاہدہ کسی ترک دنیا کے کے لیے مثال تو ہوسکتا ہے لیکن عملی طور پر تو یہ انسان کو عقل و فکر سے دور کردتی ہے اور وہ عملی دنیا میں ناکام رہتا ہے ۔ مجدو الف ثانی نے اس لیے صوفیہ کے اقوال کو حجت کے طور پر پیش کرنے پر سخت تنقید کی ہے ۔ مختصر یہ کہ نظریہ وحدت الوجود قران کی روح کے منافی ہے ۔
وحدت الوجود کے نظریہ کے مطابق ہر کائنات کی شے میں حق کا ظہور ہوتا ہے لیکن کچھ خاص انسانوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے ۔ ہندوؤں میں اوتاروں کا عقیدہ اسی خیال کا مظہر ہے ۔ ابن عربی لکھتے ہیں ’’تجلی اعظم شان الوہیت ہے جس کے مظاہر انسان ہائے جزئی ہیں ۔ انسان ہائے جزئی میں بھی بعض مظہر ناقص ہیں ہر زمانے میں صرف ایک ہی مظہر نام ہوتا ہے جس کو غوث یا قطب زمان کہتے’’۔ حاجی سید وارث کا قول ہے کہ ’’ہم میں تم میں چھپ کر اس نے سب کو دھوکے میں ڈال دیا ہے ۔ اس کی وضاحت ان کے مرید خاص شیخ فضل حسین وارثی نے کی کہ ’’ یہ امر مسلم ہے کہ انسان کی ذات میں جیسا ظہور خداوندی ہے ایسا کسی شے میں نہیں ہے ۔ اس وجہ سے وہ اشرف المخلوقات ہے ۔ حضرت ابولحسن خرقانی نے کہا جب خدا کو عالم میں اپنی صفات کا ظاہر کرنا مظور ہوا تو عالم ظہور میں لایا اور جب اپنا ظہور مظور ہوتا تو آدم کی تخلیق فرمائی ۔
بعض شعرا نے کھل کر اپنے اشعار میں اس عقیدے کا اظہار کیا ہے ۔
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہوکر
منظور تھا ظہور سے حضرت کے بندے بھی تو دیکھ لیں خدا کی صورت
یہ نظریہ انسان کو کفر و زندقہ کی طرف لے جاتا ہے اور کیا کیا نازیبا کلمات کہلواتا ہے ۔ بعض صوفیہ کے نذیک شریعت کی پابندی اہل سلوک کے لیے ضروری ہے ۔ لیکن جب وہ منزل پر پہنچ جائیں تو ایک غیر ضروری چیز ہے ۔ ابو سعید اپنے مریدوں حج سے منع کرتے تھے کہ وہ محض ایک پتھر کا گھر ہے ۔ ایک دفعہ ان کے مرید وجد اور رقص میں مصروف تھے کہ اذان کی آواز آئی مگر انہوں نے درویشوں کو رقص جاری رکھنے کے لیے کہا کہ یہی تمہاری تماز ہے ۔
اس نظریہ کے مطابق جب کائنات کی ہر شہ اس کی ذات کا حصہ ہے تو وہ بھی معبود کی حثیت اختیار کرلیتی ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں شرک عام ہوگیا ہے ۔ خواہ شرک اولیا پرستی یعنی مزار اور مقابر کی صورت میں ہو یا کسی دوسری شکل میں ۔ یہی صورت ہندوؤں کے اوتاروں اور ہماری یہاں پیروں اور سیدوں کی ہے اور یہ نظریہ جب ترقی کرلیتا ہے تو لاثانی سرکار جیسی شخصیں وجود میں آجاتی ہیں جو اپنی پوجا کرواتی ہیں ۔
وحدت الوجود کے فلسفہ کے مطابق ہر شے جس میں انسان بھی شامل ہے حق کا ظہور ہوتا ہے اور کچھ خاص انسانوں میں اس ظہور کامل طور پر ہوتا ہے ۔ ہندوؤں میں اوتار کا عقیدہ اسی خیال پر مبنی ہے اور ان میں وہ تمام دیوتاؤں جن کی وہ پوجا کرتے ہیں مظہر حق ہیں ۔ اس نظریہ کے مطابق کسی کی عبادت شرک نہ رہی ۔ اسی وحدت الوجود کی بدولت قبر پرستی وجود میں آگئی ہے ۔ میں ہندوؤں کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ ہندوؤں نے مختلف دیوتاؤں ایک ہی ذات کا مظہر مانا ہے اس طرح وحدت الوجود یا توحید کی طرف ان کا رجحان ہے ۔ مسلمان صوفیا نے وحدت الوجود کی بدولت بت پرستی پر ہندوؤں کی مود الزام نہیں ٹہرایا ۔ بلکہ یہ کہہ کر اس کی تحسین کی کہ یہ حق عبادت کی ایک شکل ہے ۔ جیسا کہ نظام الدین اولیا نے کہ ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے ۔ یہاں تک مرزا مظہر جاناں نے بت پرستی اور تصور شیخ کو مماثل بتایا ہے ۔
مسلم تصوف ہندی تصوف سے ویدانیت کے بہت سے اصول اخذ کئے ان میں حبس دم ، تصور شیخ اور خانقاہی نظام وغیرہ ۔ مسلمان صوفیا نے برصغیر میں بہت سے تصورات جن میں تصور شیخ بدھ مت سے آیا ہے ۔ تسبح ہندو یا بدمت سے مسلمانوں میں آئی ہے ۔ گیروے رنگ کا لباس آج بھی صوفیا استعمال کرتے ہیں یہ یوگیوں کا لباس ہے ۔ اسلام سے پہلے بدھ کے بکھشوؤں کے لیے کثرت سے دھار پائے جاتے تھے اور شیخ شہاب الدین نے اس کی پیروی میں خانقاہی نظام تربیب دیا اور اس قواعد و ضوابط مرتب کئے اور انہوں نے اہل صفہ کے ساتھ خانقاہ میں مشابہت پیش کرنے کی کوشش کی ۔ جس کے نتیجے میں برصغیر میں صوفیا کی بے شمار خانقاہیں وجود میں آگئیں اور ان خانقاہوں کی مجالسوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اور ہندو دو نوں ہی شریک ہوتے ۔ اس طرح ایسے فرقے وجود میں آگئے جن کے پیروؤں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے ۔
اس فلسفہ کی بدولت اسلام ایک تبلیغی مذہب نہیں رہا ۔ کیوں کہ اس فلسفہ کے مطابق ہر شخص خدا کا پرتو ہے اور اسی کی ذات کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابل احترام ہوگیا ۔ تذکرہ غوثیہ میں ہے حضرت غوث علی شاہ قلندر کے والد نے انہیں مختلف لوگوں سے بیت کروائی جن میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی تھے ۔ برصغیر کثرت سے ایسے فرقہ وجود میں آگئے جن کے پیرو ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ۔ داراشکوہ نے اپنی کتاب مجمع بحرین لکھی ۔ اس رسالہ میں تصوف اور یوگ کے خیالات اور افکار میں تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے لیکن اس کا فلسفہ یہ تھا کہ تمام چیزیں اس کی مظہر ہیں اور تمام چیزوں کا خالق ہے ازلی اور ابدی اس کی ذات ہے اور وہی ہر شے میں جلوہ گرہے ، مرزا قتیل کا کہنا ہے ہندوؤں کا مذہب چونکہ تصوف کے تابعد ہے ۔ اس لیے ہر صورت کو وہ خدا کا مظہر سمجھتے ہیں ۔ وہ ذات جو تمام قیود سے آزاد ہے بے شبہ وہی نمونہ ہے اور انسانی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ ہندوستان میں سولویں صدی میں تصوف کے سولہ سلسلے تھے اور ان کا ذکر ابوالفضل نے کیا ہے ان میں آٹھ سلسلے ایسے تھے جو کہ یہودیوں ہندوؤں اور عیسائیوں کو بھی داخل کرتے تھے ۔ ان میں شطاری سلسلہ نے اپنی عبادات اور ریاضات میں نفس کشی کو داخل کیا اس کے پیرو جوگیوں کی طرح جنگل اور غاروں میں رہتے تھے اور ان کی طرح غذا اور ریاضت کرتے تھے ۔
برصغیر میں اسلام پہلانے کے سلسلے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں مسلمانوں صوفیا نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ حقیقت میں یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ جس علاقہ میں آج پاکستان واقع ہے وہاں تو اسلام ان صوفیا کی آمد سے پہلے عربوں کے دور میں پھیل چکا تھا ۔ البتہ کشمیر اور پنجاب کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن اس علاقہ میں اسلام کی تبلیغ میں ان صوفیا کا کوئی ہاتھ نظر آتا ہے ۔ کشمیر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں اسلام جن صوفیا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے انہوں نے اسلام پھیلایا اس میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ بلکہ یہاں اسلام کاشغر سے ریجن شاہ آیا تھا اور اس نے اسلام پھیلایا یہاں تک اس کے بعد جو فرمان روا ہوئے وہ سب کے مقامی تھے اور انہوں نے اسلام اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا تھا ۔ بعد کے دور میا8 ان کی بڑی بڑی خانقاہیں وجود میں آگئیں اور ان صوفیا اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور ان کے مصارف کے نام انہیں بڑی بڑی جائیدادیں دی گئیں اور صوفیا اسلام کی تبلغ کے بجائے ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنے لگے ۔ بات یہاں تک نہ رہی بلکہ محنت کے توکل کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئیں ، کیوں کہ برصغیر میں محنت کش کمتر سمجھے جاتے تھے ۔ صوفیا نے شریعت کو چھوڑ کر عشق عقیقی ذات میں فنا کی بات کرنے لگیں ۔ عبادات کو پشت پست ڈالدیا گیا اور عشق حقیقی کے نام سے سماع اور اس طرح کی محفلیں ہونے لگیں ۔ ہندوؤں کی طرح اس کی ذات کو جذب ہونے کو ہی اپنی معراج سمجھا جانے لگا ۔ مسلمان اور ہندوؤں کے خیالات میں فرق صرف یہ رہا کہ مسلمان آواگون یا تناسخ کو نہیں مانتے تھے مگر اس کی ذات میں جذب ہونا اپنی معراج تسلیم کرتے تھے ۔ یہ اس لیے انسانوں اور مزاروں سے مانگنے کی بدت چلی ۔ کیوں کہ تمام کائنات اس کی ذات کی حصہ ہیں اس لیے یہ ان کے نذدیک مخلوق غیر نہیں رہی ۔ وہ شریعت کے بجائے باطن اور عشق کو اہمیت دی جانے لگی ۔ ان کے خیال میں یہ یہ عشق کے ہوتے ہوئے شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے ۔
مولانا رومی نے اسی طرف اشارہ کیا اور کہا
جملہ معشوق است عاشق پردہ زندہ معشوق است عاشق مردہ
یعنی جس اصل معشوق (خالق) اور (عاشق) تو ایک پردہ (جس میں اس کے نور کا ظہور ہے اور جس وجہ سے کائنات کا وجود ہے) عاشق (کائنات) تو مردہ ہے زندہ صرف (خالق) ہے (مراد یہ ہے کائنات نور خداوندی کے ظہور کی وجہ سے ہے ورنہ مردہ ہے ۔)
اس فلسفہ کی ترقی کے نتیجہ میں مسلمانوں میں عقل اور جہد کو ذوال آگیا اور ان کے بجائے دعاؤں اور تصوف کو اہمیت حاصل ہوئی ۔ یہاں تک لوگ قسمت اور تقدیر کو اہمت دیتے ہوئے ہر کام توکل پر چھوڑ دیا کہ اس کو منظور ہوا تو ہوجائے گا ۔ تصوف کی اصطلاحات اور ظاہر و باطن کی تفریق کی گئی جس کے مطابق باطن سے آگاہ ہونے کے بعد ظاہر کی اہمیت نہیں رہی ۔ سلسلوں کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا کہ یہ سلسلے حضور صلی اللہ علیہ وصلم ملتے ہیں اور باطن کی تعلیم آپ نے دی ہے ۔ تصوف کے چودہ سلسلوں کے بارے دعویٰ کیا گیا کہ ان کی اجازت اور تعلیم حضرت علی سے حسن بصری کو دی اور ایک سلسلے نقشبندیہ کی حضرت ابو بکر سے حاصل کی ہے ۔ اس روایت کی غیر مقولیت کا اندازہ اس سے لگالیں کہ حضرت علی ۴۰ ہجری کو شہید ہوئے اور حسن بصری کا انتقال ۱۱۰ ہجری ہوا ۔ حضرت علی ی شہادت کے وقت اگر حسن بصری پیدا بھی ہوگئے ہوں تو آپ بچے ہوں گے اور حضرت ابوبکر صدیق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ تاہم صوفیہ روایات کو مانتے ہیں ۔
قران اور اسلام کی اصل تعلیم توحید ہے اور اس کے مطابق ہر شے خدا سے منزہ ہے ، وہ صمد ہے ، نہ اس کو کسی نے جنم دیا ہے اور نہ اس سے کسی نے جنم لیا ہے اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ۔ وہ یکتا اور یگانہ ہے ، بے مثل ، رب ہے ، رحیم اور رحمن ہے ، ہر شے سے ورا الورء ہے ۔ کائنات زمان و مکان ہر چیز اس سے پیدا کردہ ہے ۔ یہی اسلام اور قران کا مقصود و مطلوب ہے ۔ وحدت الوجود شرک کی ایک قسم ہے اور شرک بہت بڑا گناہ ہے جس کی معافی نہیں باقی سب گناہ معاف ہوسکتے ہیں ۔ حقیقت میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم قرانی توحید سے ان کا فکری اور و عملی انحراف ہے اور مسلمانوں میں ذلت و غلامی اس کی بڑی وجہ ہے ۔ اس راہ کا پہلا اور نہایت اہم قدم وحدت الوجود کے غیر اسلامی نظریہ کی تردید اور تنسیخ ہے ۔ جس نے مسلمانوں میں مقابر اور اولیا پرستی کے بیج بوئے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قرانی توحید سے مسلمانوں کو صحیح طرح آگا کیا جائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔