واہ واہ گزران فقیراں دا
………………………………………………….
فیس بک جہاں بیس بیس سال سے بچھڑے دوستوں کو ملا دیتا ہے وہیں ایسی خوبصورت شخصیات سے بھی ملا دیتا ہے جن کے ساتھ شاید عام زندگی میں ملاقات نہ ہو پائے ..
نسیم ابڑو جی کا تعلق سندھ دھرتی سے ہے. بائیں بازو کی سیاست کی طرف راغب ان کو ان کے والد محترم نے کیا جو پاکستان کیمونسٹ پارٹی کے ایم رکن تھے . یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تمام جمہوری جدوجہد پہ ان کی گہری نظر ہے .. اس جدوجہد میں قافلے کے ساتھ قاتلوں نے تو جو کیا سو کیا مگر جو اپنوں کے ہاتهوں سے زخم لگے نسیم جی کی ان ہاتهوں پہ بهی نظر ہے ، بقول فراز
جتنے زخم تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتهوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
نسیم ابڑو جی کی دوسری زندگی سندھی اور اردو ادب ہے اور یہی دونو وجوہات ہماری دوستی کا سبب ہیں ..
یہ جب شاہ جو رسالو پڑھتی ہیں تو اس میں اتنا ڈوب جاتی ہیں کی اس کی گہرائی سے معانی کے نئے نئے موتی نکال کر لاتی ہے کہ میرے جیسا آدمی جو سندھی زبان نہ سیکھنے کی وجہ سے شاہ جو رسالو کے کنارے پہ پیاساکھڑا ہے وہ بھی شاہ جو رسالو کے ایک دو گھونٹ پی ہی لیتا ہے ۔۔ .
نسیم جی سچل سرمست کا کلام بھی اسی انداز میں جهوم کر پڑھتی ہیں جس انداز میں وہ لکھا گیا ہے..
اردو کے کلاسیک شعرا کی شاعری پہ یہ گھنٹوں بات کر سکتی ہیں . غالب اور سودا نسیم ابڑو جی کے پسندیدہ شعرا ہیں
نسیم ابڑو جی صنم ماروی سندھ دھرتی کی ایک فقیرنی ہے اس نے بلہے شاہ کی ایک کافی
واہ واہ گزران فقیراں دا
کو ایک درویشانہ انگ میں گایا ہے ، میں یہ کافی آج آپکی سالگرہ پہ آپ کی نظر کرتا ہوں ۔۔
نسیم ابڑو جی آپ کو اور آپ کی ساری فیملی کو آپ کے جنم دن کی بات بہت بہت مبارک ہو
……………………………….
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“