امانت خان کی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ چخ چخ اب روزمرہ کا معمول بن چکی تھی‘{ اور اُس دن تو میں بھی اپنے اس دوست کے گھر موجود تھا۔
نذیر شاہ کا گھرانہ یوں لگتا تھا امانت خان کا آئیڈیل بن گیا تھا۔ بات سے بات نکلتی تھی اور جیسے ہی نکلتی تھی‘ امانت خان‘ نذیر شاہ کے گھرانے کی تعریف شروع کر دیتا تھا۔ معلوم نہیں کئی پشتوں کا احساس کمتری تھا یا کوئی اور وجہ تھی!
اُس دن میں اُس کے گھر‘ لائونج میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور بھابھی کے ہاتھ کے بنے ہوئے گرم گرم خستہ پکوڑے کھا رہا تھا۔ اچانک کہنے لگا: ’’یار وہ سُنا تُم نے! نذیر شاہ صاحب کی بیگم کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں‘ اب فُل پروفیسر بن کر یونیورسٹی میں تعینات ہو گئی ہیں! کیا لائق فائق خاتون ہے! چند دن پہلے ایک سیمینار میں شرکت کرنے سنگاپور گئی ہوئی تھیں‘‘۔ میں نے دیکھا کہ مسکراتی ہوئی بھابھی کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ انہوں نے براہِ راست مجھے مخاطب کیا: ’’عجیب دوغلی شخصیت کا مالک ہے آپ کا یہ دوست بھی! کئی برسوں سے منتیں کر رہی ہوں کہ ملازمت کرنے دو۔ ایم بی اے کر کے گھر بیٹھی ہوں مگر اس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ خاندان میں خواتین کے ملازمت کرنے کا رواج نہیں! دوسری طرف نذیر شاہ کی بیگم کی تعریف میں رطب اللسان ہے!‘‘
شکایت میں وزن تھا! میں نے امانت خان سے کہا: ’’اگر تُم کسی دوسرے کی بیگم کے کیریئر سے متاثر ہو‘ تو اپنے گھر میں بھی اسی اصول کا اطلاق کرو! بھابھی کو ملازمت کرنے کی اجازت دو‘‘۔
اب شکنیں اُس کے ماتھے پر آ چکی تھیں: ’’یار! تُم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ ہم خاندانی لوگ ہیں! ہماری کچھ روایات ہیں‘ بیگم ملازمت کریں گی تو رشتہ دار طعنے دیں گے کہ عورت کی کمائی کھا رہے ہیں۔ عجیب مرد ہیں! ‘‘۔
بات آئی گئی ہو گئی‘ مگر میں سوچتا رہا کہ دوسروں کی عورتوں سے متاثر ہونے والے امانت خان کی اپنی بیٹی بی اے میں کالج بھر میں اوّل آئی تھی‘ مگر ایم اے کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت نہ ملی!
یہ ہے وہ رویّہ جو ہم من حیث القوم اپنائے ہوئے ہیں! صادق خان لندن کا میئر منتخب ہوا تو ہمارے معاشرے کی منافقت ہمارے چہروں پر پوری طرح سیاہی پھیر گئی! کتنے بے شرم‘ بے حس اور دیدہ دلیر ہیں ہم لوگ۔ چوک پر کھڑی ہوئی گاڑیوں کے شیشوں پر دستک دے کر بھیک مانگنے والے مُشٹنڈوں سے بھی زیادہ بے شرم اور بے حس! خوش یوں ہو رہے ہیں جیسے طارق بن زیاد نے ایک اور ہسپانیہ فتح کر لیا ہے۔ جیسے یورپ پر عالم اسلام کا غلبہ ہو گیا ہے۔ جیسے لندن کی میئرشپ ہمارے قبضے میں آ گئی ہے! میڈیا سے لے کر نجی محفلوں تک ایک ہی چرچا ہے کہ بس ڈرائیور کا بیٹا کہاں سے چلا اورکہاں جا پہنچا! ہم میں سے کچھ اچھل اچھل کر قہقہے لگا رہے ہیں کہ اس نے ایک یہودی کو شکست دے دی! جیسے یہ اسلام اور یہودیت کے درمیان بپا ہونے والا معرکہ تھا۔ جیسے یہ ایک بھرپور مذہبی جنگ تھی جس میں ایک طرف پاکستان اور عرب دنیا تھی اور دوسری طرف اسرائیل تھا! مگر افسوس! صد افسوس! ہم امانت خان کی طرح ہیں! نذیر شاہ کی بیگم کی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں اور اپنے گھر میں جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس کے بالکل اُلٹ ہے!
پہلا نکتہ لے لیجئے! بس ڈرائیور کا بیٹا میئر بن گیا اور وہ بھی لندن کا! لندن ایک اعتبار سے دنیا کے شہروں میں سرفہرست ہے‘ کیونکہ لندن اُس وقت بھی لندن تھا جب نیو یارک اور واشنگٹن ابھی نیو یارک اور واشنگٹن نہیں بنے تھے! یہ بھی یاد رہے کہ روایت یہ رہی ہے کہ لندن کا میئر بننے والا سیاستدان ملک کا وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے! اور وزیر اعظم بننے سے پہلے پارٹی کا سربراہ بھی بنتا ہے! یہ موقع اپنے گریبان میں جھانکنے کا تھا نہ کہ نذیر شاہ صاحب کی بیگم کی تعریف کرنے کا! کیا ہمارے ہاں بس ڈرائیور کا بیٹا کسی بڑے شہر کا میئر اور پھر پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟ کیا کہا؟ پارٹی کا سربراہ؟؟ جہاں سالہا سال تک گِھس گِھس کر سترے بہترے ہو جانے والے سیاستدان پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتے، وہاں بس ڈرائیور کا بیٹا کیسے بنے گا؟ بے نظیر بھٹو والد کی جانشین بنیں۔ پھر وہ
رخصت ہوئیں تو ان کے میاں اور میاں کی بہن نے پارٹی پر قبضہ کر لیا۔ اب صاحبزادہ چیئرمین ہے۔ صادق خان کی جیت کی خوشی میں اچھلنا کودنا ہمیں تب زیب دیتا جب ایسی روایت ہمارے ہاں بھی ہوتی! بلاول بھٹو‘ کل کا لڑکا‘ پارٹی کا سربراہ بنا ہے اس لیے کہ یہ سربراہی وراثت میں ملی ہے۔ اعتزاز احسن سے لے کر رضا ربانی تک اور کائرہ صاحب سے لے کر شیری رحمن تک سب دست بستہ کھڑے ہیں۔ سورج مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے مگر حافظ حسین احمد‘ چوہدری نثار علی خان‘ مشاہد حسین یا خواجہ آصف اپنی پارٹی کی قیادت نہیں سنبھال سکتے۔ اس صورت حال پر ہمیں کوئی پریشانی یا تاسف بھی نہیں! مگر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں بس ڈرائیور میئر بن جائیں اور وزیر اعظم بھی!
دوسرا نکتہ لیجئے! اہل لندن کی خوش بختی ہے کہ وہاں سیاسی جماعتیں عقائد اور مسالک کی بنیاد پر وجود میں نہیں آسکتیں۔ وہاں میئر کا انتخاب مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑا گیا۔ اللہ کے بندو! صادق خان لیبر پارٹی کا ورکر تھا! اسی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر منتخب ہوا۔ اس لیے نہیں کہ وہ مسلمان تھا یا جنوبی ایشیا سے تھا! ایسا ہوتا تو اُسے یہودی‘ عیسائی‘ ہندو‘ سکھ اور پارسی ووٹ نہ دیتے!
جس بساطِ سیاست پر پروفیسر ساجد میر قیامت تک جے یو آئی کے رکن نہیں بن سکتے اور مولانا سمیع الحق جے یو پی کے سربراہ بننے کے اہل نہیں‘ اُس ملک کے مکین صادق خان کی فتح کو مسلمانوں کی فتح سمجھ کر بھنگڑے ڈالیں تو تعجب ہی کیا جا سکتا ہے! کل کو صادق خان وزیر اعظم بن گیا تو بھنگڑے کے ساتھ شہنائیاں بھی بجیں گی مگر ان حضرات سے اگر یہ پوچھا جائے کہ آپ کے ہاں کوئی ہندو‘ کوئی سکھ‘ کوئی پارسی‘ کوئی مسیحی ملک کا وزیر اعظم یا صوبے کا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنتا تو گلے کی رگیں سرخ ہو جائیں گی‘ منہ سے جھاگ بہنے لگے گا‘ نظریہ پاکستان آڑے آ جائے گا! جھوٹ، وعدہ خلافی اور ہر شعبے میں ہر سطح پر بددیانتی سے نظریہ پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آتی! قرارداد مقاصد آئین کی کتاب کا حصہ ہے تو عملی زندگی میں اسلام کی ضرورت ہی کیا ہے!
جو سسٹم ہمارے ہاں رائج ہے‘ ہم اُس پر مطمئن ہیں اور خوش بھی! سات ماہ بعد وزیر اعظم کو خیال آیا کہ ایک کابینہ بھی ہے! پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی تشریف آوری کے بارے میں یوں اندازے لگائے جاتے ہیں اور یوں تاریخیں طے ہوتی اور بدلتی ہیں جیسے امریکی صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا ہو! آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم کی میٹنگ ہو تو اس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ موجود ہیں اس لیے کہ بھائی ہیں۔ کراچی میں آرمی ایکشن ہو رہا ہے‘ کے پی میں ضرب عضب برپا ہے مگر ان صوبوں کے سربراہ ایسے اجلاس کے نزدیک بھی نہیں پھٹک سکتے۔ ملک کے اُفق پر بلاول اور مریم نواز کے نام ابھرتے ہوئے ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں مگر تعریف ہم صادق خان کی کر رہے ہیں کہ بس ڈرائیور کا بیٹا ہے اور مسلمان ہے! اور امریکہ کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں کہ غلاموں کا بیٹا اوباما صدر بن گیا! واہ رے منافقت! پاکستان نہ ہوتا تو تُو کہاں سر چھپاتی؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“