واہ ڑے واجہ
" اور میرا ڈبل پتی کمام ( قوام) والا۔" شبیر نے اپنے پان سے متعلق آگاہ کیا۔
" واہ ڑے جوان کا بچہ، تم ڈبل پتی والا پان کھائیں گا۔ لاؤ ہاتھ ملاؤ" اور پان والے نے اپنا کتھے اور چونے سے لتھڑا ہوا ہاتھ شبیر کی طرف بڑھا دیا۔
آج کسی بات پر شبیر یاد آیا۔ شبیر ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا۔ ایک شام پریکٹس کے بعد ہم ان کچے مکانوں اور ٹین اور پلائی ووڈ کی بنی جھگیوں کی طرف جا نکلے جہاں پان ملتا تھا۔کسی نے آج سے بیس تیس پہلے کا دوبئی نہیں دیکھا وہ یقین ہی نہیں کرسکتا کہ القصیص کا وہ علاقہ جہاں آج خوبصورت فلیٹس بنے ہوئے ہیں یہاں کبھی جھگیاں اور مزدوروں کے کیمپ بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ پان یہاں غیر قانونی طور پر فروخت ہوتے تھے۔
القصیص کی علاوہ بور سعید جو پورٹ سعید کے نام سے مشہور تھا، یہاں بھی بلوچ اور مکرانی پان بیچتے نظر آتے۔
اور پان کی یاد مجھے اپنے بچپن میں لے گئی اور جان محمد یا جانو واجہ یاد آیا۔
ٹینری روڈ بہار کالونی جو اگر شہر کے رخ سے آرہی ہو تو لیاری ندی سے کچھ پہلے یہاں کوئلہ گودام ہوا کرتا تھا۔ میرے ابا یہاں کام کرتے تھے۔ اس سے کچھ آگے ایک ہوٹل کے ساتھ پان کا کھوکھا ہوا کرتا تھا۔ جانو اسی کھوکھے پر بیٹھتا تھا۔ وہ ہوٹل بھی شاید اس کے والد کا ہی تھا۔ میرے ابا اسی سے پان لیتے تھے اور جانو کو بتانا نہیں پڑتا تھا کہ کیسا پان بنانا ہے۔
اسی ٹینری روڈ پر جہاں سڑک ختم ہوجاتی ہے اور لیاری ندی کی منڈیر شروع ہوتی ہے، یہیں دائیں جانب گورنمنٹ بوائز اسکول بہارکالوںی میں جب مجھے ابو چاچا کے بھانجے کے ساتھ داخل کیا گیا تو جانو واجہ نے مجھے اپںے حلقہ حفاظت میں لے لیا۔ جانو مجھ سے شاید تین چار سال یا دو تین سال بڑا تھا لیکن اسی سال اسکول میں داخل کیا گیا تھا۔ اور یہ صرف اس واقفیت کی بدولت تھا جو میرے ابا اور جان محمد کے درمیان تھی۔
اور یہ شیدی یا مکرانی ایسے ہی جاں لٹانے والے ہوتے ہیں۔ جسے اپنا کہہ دیا پھر اس کا ساتھ قبر تک نبھائیں گے۔
ہفت زبان کا لفظ میرے ابا کے لئے بہت چھوٹا ہے۔ کراچی کی وہ کون سی زبان تھی جو وہ نہیں بول سکتے تھے۔ ہماری مادری زبان کے علاوہ انہیں انگریزی پر زبردست عبور تھا۔ فارسی بخوبی بول سکتے تھے، عربی کی شبدھ بدھ عام لوگوں سے زیادہ تھی۔ کوئلہ گودام کے مزدوروں سے جب وہ مکرانی اور بلوچی میں بات کرتے تو ابا کے گھنگریالے سخت بالوں کی وجہ سے امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ ان میں مکرانی کون ہے اور غیر مکرانی کون۔ ابا اسی روانی سے گجراتی، میمنی ، کچھی ، مراٹھی اور پشتو بول سکتے تھے۔ اور اردو کسی اہل زبان کی سی فصاحت کے ساتھ بولتے۔
میوہ شاہ میں جہاں ہماری کوکنی برادری کے قبرستان کا نگراں " بہادر" ہوا کرتا تھا۔ بہادر اور اس کے گھر والے ابا سے مکرانی میں بات کرتے اور انہی کی وجہ سے میری دادی اور چچی کی قبر کا خاص خیال رکھتے۔
بہار کالونی جہاں ہم رہتے تھے، وہاں کوئلہ گودام کے عقب میں مکرانیوں یا جنہیں شیدی بھی کہتے ہیں ، کی آبادی تھی۔ اس کے علاوہ بہار کالونی سے جڑے، رانگی واڑہ، چاکی واڑہ، بغدادی، موسٰی لین، آگرہ تاج کالوںی، گلبائی اور ماری پور ؤغیرہ وہ جگہیں تھیں جہاں میں اپنے بچپن میں دوستوں کے آوارہ گردی کرتا ہوا نکل جاتا تھا ۔
جانو کے علاوہ بھی میں نے اسکول میں ایک دو مکرانی دوست بنا رکھے تھے، اسکول سے واپسی میں کبھی ہم لڑکوں میں لڑائی ہوجاتی تو گھونسوں اور لاتوں کے ساتھ تختی کا ہتھیار بھی استعمال کرتے، لیکن ہمارے شیدی دوست یہ کام اپنے لوہے جیسے بنے ہوئے سر سے لیتے۔ مخالف کی ناک پر ایسی تاک کر ٹکر مارتے کہ اسے دن میں تارے نظر آجاتے۔ یہ شیدی دوست میری ڈھال بنے رہتے اور کوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہ کرتا۔
بہار کالوںی کی جامع مسجد کے ساتھ فٹبال کا میدان ہوا کرتا تھا۔ نجانے اب وہ وہاں ہے یا نہیں، مجھے بہار کالونی چھوڑے ہوئے پچاس سے زیادہ سال ہوگئے۔ اس میدان میں شہر کی بہترین ٹیموں کی میچ ہوتے، ہمارے محلے کی کلب " الیون اسٹار" کے علاوہ، کلری جیمخانہ، ینگ بلوچ، بغدادی وغیرہ کی ٹیمیں ہوتیں جن میں نوے فیصد مکرانی کھلاڑی ہوتے۔ اور یہیں سے میں نے رواداری کا پہلا سبق سیکھاجسے انگریزی میں ' اسپورٹسمین اسپرٹ، کہتے ہیں۔ مقابلہ چاہے کتنا بھی سخت ہو، میدان میں چاہے کیسی بھی گرم گفتاری ہورہی ہو، میچ کے بعد مجھے ان کھلاڑیوں کا مخالف ٹیم سے گلے ملنا بہت بھاتا۔
ہمارا گھر دوسری منزل پر تھا اور آس پاس کے سارے مکان ایک منزلہ تھے جنکی اکثر چھتیں آپس میں ملی ہوتیں۔ ہماری پچھلی گلی میں ایک غبارہ بنانے کا کارخانہ ہوا کرتا تھا جس کی چھت پر مکرانی کاری گر لکڑی کے سانچوں میں غبارے سکھانے لاتے اور یہیں سے غبارے اتار کر پیکٹوں اور تھیلیوں میں بھرتے۔ ہم اپنی کھڑکی سے للچائی ہوئی نظروں سے یہ غبارے بنتے دیکھتے رہتے۔
میری ماں نے ایک دن بہت سارے پاپڑ تل کر ایک برتن میں رکھے اور مجھ سے کہا کہ ان مزدوروں کو بلا کر دے دوں۔ کارخانے کی چھت کچھ دور تھی ۔ میں نے آواز لگائی تو مزدوروں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں نے ایک پاپڑ نکال کر دکھایا تو ان کے کچھ بات سمجھ آئی، ایک مزدور چھتوں اور چھجوں سے ہوتا ہوا ہماری کھڑکی تک آیا اور برتن لے گیا،
امی پاپڑ بہت مزیدار بناتی تھیں۔ دراصل یہ ہمارے عسرت کے دن تھے اور پاپڑ بھی ہمارا زریعہ معاش تھے۔ امی پاپڑ بنا کر آس پاس کے گھروں میں بیچتی تھیں۔
کچھ دیر بعد کھڑکی پر دستک ہوئی۔ سامنے وہی مکرانی مزدور برتن لئے کھڑا تھا ساتھ ہی اس نے غباروں سے بھری ایک تھیلی بھی کھڑکی کے اندر اچھال دی۔ یہ ہمارے کئی مہینوں کے لئے کافی تھی۔ اور ان شیدیوں کا یہ روپ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ کسی کا احسان نہیں بھولتے۔
یہ اپنے محسنوں کے لئے جان دینے اور جان لینے والے لوگ ہیں اور ان کی اسی سادگی اور جاں نثاری کا غیروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
وہ مکرانی اور شیدی جنہیں کراچی کے متمول طبقے، سرمایہ داروں، سیاستدانوں نے کبھی اہمیت نہ دی، ذوالفقار علی بھٹو نے جب انہیں سینے سے لگایا تو اس کی اس چاہت کو ان لیاری والوں نےایسا نبھایا کہ اس کی پارٹی آج شاید لاڑکانہ اور گڑھی خدا بخش سے ہار جائے، لیاری سے کبھی نہیں ہار سکتی۔ بھٹو کے بعد اس کی پارٹی نے لیاری کو کیا دیا اور لیاری کے ساتھ کیا کیا، یہ لیاری والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن بھٹو سے رشتہ وفا نبھانا ان کی مجبوری ہے کہ ان کا خمیر ہی وفاداری اور جانثاری سے اٹھا ہے۔ یہ بلوچ خود کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن اپنے محسنوں کو نہیں۔
مجھے ان شیدیوں، یا مکرانیوں یا بلوچوں کی تاریخ کا علم نہیں، نہ مجھے یہ پتہ ہے کہ بلوچی اور شیدی یا مکرانی میں کیا فرق اور کیا مشترک ہے۔ مجھے تو لیاری چھوڑے ہوئے بھی نصف صدی سے زیادہ ہوگیا۔ لیکن ان جفاکش، وفادار، محنتی، جری اور محبت کرنے والوں کی یاد آج بھی دل کے نہاں خانوں میں کہیں چھپی ہوئی ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ کراچی کے ان قدیم باسیوں نے کبھی یہ شکایت کی ہو کہ غیروں نے آکر کیوں کر ان کے شہر پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک گوشے میں ہی محصور رکھا جب کہ جنہیں انہوں نے پناہ دی ،دولت اور فراغت ملتے ہی انہوں نے شہر کے متمول اور خوشحال علاقوں کی راہ لی۔ آج شاید ہی کوئی ہو جو لیاری سے اپنے تعلق کو فخر سے بتا سکے، ان کے لئے تو یہ شرمندگی کی بات تھی کہ وہ اس پس ماندہ علاقے میں رہتے تھے۔ آج جو اپنے آپ کو سر اکڑا کر سوسائٹی، ڈیفینس، ناظم آباد، گلشن اقبال وغیرہ کے رہائشی بتاتے ہیں ان کی اکثریت کے لئے پہلا پڑاؤ کراچی میں یہ ہی تھا کہ یہ کراچی کی قدیم ترین بستی تھی جہاں مہاجر آکر بسے تھے۔
سیاستدانوں کو بھی لیاری صرف قربانیاں اور ووٹ لینے کے لئے ہی یاد آتا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ یہاں کس قدر شہری سہولتیں، معیاری تعلیم اور صحت کے کس قدر مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ مجھے تو اتنا یاد ہے کہ فٹبال میں تراب علی، عمر، غفور ، اللہ بخش اور علی نواز اور باکسنگ میں حسین بخش ، کمبرانی جیسے کھلاڑی پیدا کرنے والے لیاری کے نوجوان غیر قانونی کاموں۔ُمنشیات اور گینگ وار جیسی سرگرمیوں کی طرف اگر راغب ہوئے تو اس میں کس کی کوتاہی تھی،
یہ باصلاحیت، جری، جفاکش، دلدار اور جانثار مکرانی کراچی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ مائی کلاچی بھی شاید انہیں مکرانیوں میں سے تھیں جن کے نام پر اس عروس البلاد کا نام رکھا گیا۔ لیکن ہم نے انہیں ایک جانب کیا ہوا ہے۔ شہر کو سب نے اپنے اپنے حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ایک حصے پر اردو بولنے والے اپنا حق جتاتے ہیں، تو دوسری جانب پشتونوں کے علاقے ہیں اور ایک طرف ان بلوچوں اور مکرانیوں کے علاقے ہیں۔ اور ایک اور دنیا ڈیفینس جیسے علاقوں کی ہے جن کی اپنی دنیا ہے جنہیں شہر سے کوئی غرض نہیں کہ انہیں اپنے علاقوں میں آرام بہت ہے۔
یہ خلیج اور یہ دراڑیں بڑھتی ہی جارہی ہیں کہ آج سب سے زیادہ کوئی سودا بکتا ہے تو وہ نفرت کا سودا ہے۔محبت کی جنس اب ناپید ہوچکی ہے۔ یہی نفرت ہے جو ٹرمپ جیسے مخبوط الحواس شخص کو امریکہ کا صدر بناتی ہے اور مودی جیسے متعصب کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم بناتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی شاید ہی کوئی دلوں کو جوڑنے کی بات کرتا ہو۔
ہم ان سے دور ہورہے ہیں جو شاید اس شہر کی سب سے زندہ دل قوم ہے۔ میں نے ان مکرانیوں کو مال ڈھوتے ہوئے اور کسی بڑے اور مشقت والے کام کے اختتام پر رقص کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میرے دوستوں کو وہ دن یاد ہونگے جب سنیماؤں کا تصور ان مکرانیوں کے بغیر محال تھا جہاں یہ گیٹ کیپر ہوتے اور ٹکٹ کی قطار کو قابو میں رکھتے۔
میرے کان اب اس لہلہاتی آواز اور مخصوص لہجے میں، چی ڑے واجہ، واہ ڑے، چی گوشی ڑے سننے کے لئے ترس گئے ہیں کہ اب میرے شیدی مکرانی بھائی مجھ سے اچھی اردو بولتے ہیں اور میرے دوست اختر بلوچ، رمضان بلوچ، عبدالغفور کھتری،شبیر احمد ارمان اور مصور علی مجھ سے کہیں اچھی اور با محاورہ اردو لکھتے ہیں۔
آئیں ان محبت کرنے والے، جاں لٹانے والے، سونے جیسے دل والے بھائیوں کو سینے سے لگائیں جنہوں نے آج سے ستر سال قبل ہمیں دونوں ہاتھ پھیلا کر گلے لگایا تھا ۔ اب محبت لوٹانے کا وقت آگیا ہے۔ اور محبت کا بدلہ صرف محبت ہی تو ہے
ہل جزاالاحسان اِلّا الا حسان۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔