کہتے ہیں کہ سیاست اچھی چیز نہیں ہے۔ ٹھیک کہتے ہیں لیکن یہ ان کے خیالات ہیں جو سیاست میں نہیں ہوتے۔اگر وہ سیاست میں شامل ہو جائیں تو ہو سکتا ہے ان کے خیالات بھی بدل جائیں۔کچھ سیاستدان تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو سیاستدان کم اور سیاہ۔ست دان زیادہ لگتے ہیں۔میرا ایک دوست کہنے لگا کہ " میں سیاستدان بننا چاہتا ہوں۔"
میں نے پوچھا!"سیاستدان بن کر کیا کرو گے۔"
کہنے لگا!عوام کی خدمت کروں گا۔"
میں نے کہا!"خیال رکھنا برا وقت آنے پر عوام بھی بہت اچھی خدمت کرتی ہے۔سر کے جو چار بال ہیں اس سے بھی جاؤ گے۔"
سیاستدانوں میں ایک ہی چیز بری ہے کہ ان میں کوئی چیز اچھی نہیں۔کہتے ہیں کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ٹھیک کہتے ہیں۔ لیکن ایک پورا تالاب سیاستدان کے سیاہ کو صاف نہیں کرسکتا۔سیاہ۔ست ایک ایسی چیز ہے کہ جو کرتا ہے وہ نجات پا جاتا ہے۔جو بھگتتا ہے وہ بھی نجات پانا چاہتا ہے، سیاستدانوں سے۔
سیاست اور منافقت میں ایک ہی فرق ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
جو انسان سیاست میں جاتا ہے وہ انسان نہیں رہتا،کیونکہ دوسرے سیاستدان اسے انسان رہنے ہی نہیں دیتے۔سیاست میں سب جائز ہے۔ بس جائز نہیں تو جائز کام جائز نہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست میں بہت پیسہ ہے۔ہاں نا ٹھیک کہتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ کبھی کبھی "پاجامہ لیکس" بھی ہو جاتا ہے۔
سیاستدان جب لڑتے ہیں تو مچھلی بھی شرما جاتی ہوگی کہ اتنا شور شرابہ تو مچھلی منڈی میں نہیں ہوتا جتنا پارلیمنٹ والے اودھم مچاتے ہیں۔سیاستدانوں اور عام عوام میں ایک قدر مشترک ہے۔ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ عوام بے وقوف ہے اور عوام بھی اپنے بارے میں یہی سوچتی ہے۔
سیاستدانوں میں "لوٹے" بہت پسند کیے جاتے ہیں۔سب سے زیادہ وہ لوٹا اچھا ہوتا ہے جو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دے۔ہر پارٹی میں ایک،دو مسخرے سیاستدان لازمی ہوتے ہیں۔جن کے پاس نہیں ہوتے وہ دوسری پارٹی سے یا تو ہائر کرلیتے ہیں یا پھر ہائی جیک۔
سیاست اچھی ہوسکتی ہے شرط یہ ہے کہ سیاستدان نہ ہوں۔میرا ایک دوست کہنے لگا "مجھے سیاستدان بہت اچھے لگتے ہیں." بعد میں پتا چلا کہ وہ "لوٹوں" کی بات کررہا ہے۔کچھ سیاستدان شادی سے دور بھاگتے ہیں۔شاید وہ یہ سمجھتے ہوں کہ شادی کے بعد ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ حالانکہ شادی کے بعد ہی تو سیاست شروع ہوتی ہے۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ "جو سیاست میں آنا چاہتا ہے،اسے چاہیے کہ پہلے شادی کر لے۔"لیکن اگر دیکھا جائے تو سیاست تو بیوی کرتی ہے۔مرد تو بس اس کی چاپلوسی کرتا ہے۔شاید یہی سیاست ہو۔
ہم اچھے انسان بن سکتے ہیں اگر سیاستدان نہ بنیں۔انہیں تو گالیاں بھی قوالیوں کی طرح لگتی ہیں۔سیاستدان نہ صرف ذہنی طور پر سیاسی ہوتا ہے بلکہ اس کا قول و فعل بھی سیاسی ہوتا ہے۔ایک سیاسیتدان اپنی پانچویں معشوقہ سے کہہ رہا تھا کہ " جانو میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ لاؤں گا" محترمہ چھوٹتے ہی بولیں۔" تمہارا کیا پتا بعد میں ووٹ مانگنے آجاؤ۔" سیاستدان تورشتہ بھی ایسے مانگتے ہیں جیسے ووٹ مانگ رہے ہوں۔ووٹ مانگنا گویا بھیک مانگنا ہوا۔
ڈاکٹر یونس بٹ صاحب اپنی کتاب "خندہ زن" میں لکھتے ہیں:- " سیاستدانوں کے کام مسائل حل کرنا نہیں بلکہ ان کی ترتیب بدلنا ہوتا ہے۔ویسے بھی اگر مسائل حل ہو گئے تو پھر سیاستدان کیا کریں گے۔"
سیاستدان بولتے بہت اچھا ہیں۔وہ اور زیادہ اچھے لگ سکتے ہیں اگر چپ رہیں۔کچھ سیاستدان ایسے ہوتے ہیں جو چپ بھی ہوں تو لگتا ہے بول رہے ہیں اور بول رہے ہوں تو لگتا ہے احسان کررہے ہیں۔سیاستدان تو بول کر وہ بات نہیں سمجھا پاتے جو چپ رہ کر خود سمجھ جاتے ہیں۔
بہرحال سیاست میں جانا ایسے ہے جیسے دوزخ میں جانا اور سیاست سے باہر آنا ایسے ہے جیسے بندہ جنت سے باہر آ گیا ہو۔سیاست باہر والوں کو بری اور اندر والوں کو جنت جیسی لگتی ہے۔