ڈاکٹر فصیح الدین خان گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ نظریں ان کی سامنے سڑک پر تھیں لیکن اندر کی آنکھیں کہیں اور‘ ایک فلم دیکھ رہی تھیں۔ فلیش بیک! اور جو کچھ وہ دیکھ رہے تھے‘ بتاتے جا رہے تھے۔ بہار سے تھے۔ پٹرولیم انڈسٹری کے مضمون میں پی ایچ ڈی علی گڑھ یونیورسٹی سے کی۔ پوچھا کہ بہار اور علی گڑھ کے درمیان بہت سے شہر ہیں اور کئی یونیورسٹیاں‘ پی ایچ ڈی تو نزدیک سے بھی کی جا سکتی تھی۔ کہنے لگے علی گڑھ یونیورسٹی کی شان اور مقام ہی اور ہے۔ اپنے والد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آواز میں عجیب سا تغیر آیا‘ جیسے بہتے دریا میں پانی کی رفتار گھٹ جائے۔ ’’بابری مسجد کے انہدام کی خبر والد صاحب نے سنی تو دل کا دورہ پڑا اور جانبر نہ ہو سکے‘‘۔
نہیں معلوم اُس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کیا کہا اور میں نے کیا سنا۔ حیرت سے عجب کیفیت تھی۔ اتنا شدید صدمہ کہ جان ہار گئے؟ اور یہ یقینی بات ہے کہ صدمے سے جاں بحق صرف ڈاکٹر فصیح الدین خان کے والد تو نہیں ہوئے ہوں گے۔ مسجد کے انہدام کی خبر نے بھارت کے طول و عرض میں نہ جانے کتنے مسلمانوں کی جان لے لی ہوگی!
مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم اہلِ پاکستان‘ بھارتی مسلمانوں کے شب و روز سے آشنا ہی کب ہیں! حافظ شیرازی نے کہا تھا ؎
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنیں حائل
کجا دانند حالِ ما سبک سارانِ ساحل ہا
کچھ وہ ہیں جو اندھیری رات میں بھنور کا سامنا کر رہے ہیں اس حال میں کہ موجیں آسمان تک اٹھ رہی ہیں۔ اور کچھ ساحل پر بیٹھے نرم آسودہ ریت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نرم آسودہ ریت کے بھی کیا کہنے! خود پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں‘ پارلیمنٹ کی عطا کردہ بے تحاشا مراعات سے قابلِ رشک زندگی گزار رہے ہیں‘ گھر والے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ پھر وضاحت ہو رہی ہے کہ بھائی! کرائے کا مکان ہے۔ کوئی پوچھے کہ ’’مڈل کلاس‘‘ لیڈر شپ پانچ ہزار ڈالر ماہوار کرایہ کیسے پورا کر رہی ہے جب کہ تین ہزار ڈالر ماہانہ تو وہاں معقول تنخواہ سمجھی جاتی ہے۔ کبھی ساحل کی یہ نرم ریشمی ریت پورٹ اینڈ شپنگ (بندرگاہوں اور جہاز رانی) کی وزارت کا روپ دھارتی ہے! وزارت لینی ہے تو پورٹ اینڈ شپنگ ہی کی لینی ہے! انوکھے لاڈلے کی کیا بات ہے! اب اس سے آدھا ہیوسٹن نہ سہی‘ ایک چوتھائی ہیوسٹن تو خریدا ہی جا سکتا ہے! رہا یہ سوال کہ کتنے گیس سٹیشن ہیں‘ تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں! ’’مڈل کلاس‘‘ کی یہ قیادت جس سبک خرامی کا بیرون ملک مظاہرہ کرتی ہے‘ وہ تو اپر کلاس کے لیے بھی آسان نہیں! سو سے زیادہ روپوں کا ایک امریکی ڈالر! اور یہ سبک خرامیاں! اور خاندانوں کا سالہا سال تک وہاں قیام اور جیسے ہی کسی نے نام لیا تو اگلے لمحے ملک سے غائب اور اچھل کر‘ وہاں‘ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار‘ ایک اور ساحل کی نرم ریشمی ریت پر قلابازیاں! سبحان اللہ! سبحان اللہ! سیاست ہو تو ایسی! ’’مڈل کلاس‘‘ قیادت کے نام پر وہ وہ کچھ ہوا کہ اب آئندہ کوئی بہروپیا‘ کوئی فراڈیا‘ کسی بس میں کھڑے ہو کر ’’مڈل کلاس‘‘ جعلی دوائی کی یہ شیشی نہیں بیچ سکے گا!
اور ان عوامی ’’خدام‘‘ کے مقابلے میں بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار!! ؎
در و دیوار ویراں‘ شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دورِ زماں! دیکھا نہ جائے
تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم اہلِ پاکستان‘ بھارتی مسلمانوں کے احوال سے بے خبر تو ہیں ہی‘ سنگدلی کا مظاہرہ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے! کچھ عرصہ پہلے جب مہاراشٹر میں بڑے گوشت پر پابندی لگانے کے فوراً بعد تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا پانچ فیصد کوٹہ‘ جو ایک مدت سے چلا آ رہا تھا‘ ختم کردیا گیا تو اس کالم نگار نے اس کا تذکرہ ایک کالم میں کیا۔ اس پر کچھ قارئین کا ردعمل عجیب اور افسوسناک تھا! کہ ہم نے کیا بھارتی مسلمانوں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ درست ارشاد فرمایا! بھارتی مسلمانوں کا ٹھیکہ آپ لیں گے بھی کیوں؟ کہ اس میں تو کمائی ہی نہیں ہے! ٹھیکہ تو آپ نے افغانستان کا لیا تھا کہ اوجڑی کیمپ کے راستے ڈالروں کا رُخ دریا کی طرح آپ کی طرف ہو گیا تھا! چیچنیا سے لے کر فلسطین و عراق کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بہانے والوں نے بھارتی مسلمانوں کا شاید ہی کبھی ذکر کیا ہو۔ میڈیا بھی بے نیاز ہے۔ گلف کے اخبارات نے پاکستان اور بھارت کے حالات کے لیے الگ الگ صفحات مختص کر رکھے ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں روزنامہ ’’دنیا‘‘ غالباً واحد اخبار ہے جس میں بھارت کے صحافیوں کے کالم باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں اور یوں قارئین وہاں کے حالات کی سن گن پاتے رہتے ہیں۔
مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارتی ’’سیکولرازم‘‘ دن دونی رات چوگنی ’’ترقی‘‘ کر رہا ہے۔ تازہ ترین مثال وہ ہنگامہ ہے جو وشوا ہندو پریشد نے بھارت کے نائب صدر حامد انصاری کے صرف اتنا کہنے پر برپا کیا ہے کہ مسلمانوں کو پس ماندگی سے نکالنے کے لیے بھارتی ریاست کو مثبت اقدامات کرنے چاہئیں۔ وشوا ہندو پریشد ایک انتہا پسند تنظیم ہے جو 1964ء میں ہندوتوا کے فروغ کے لیے بنائی گئی۔ اصل میں یہ آر ایس ایس ہی کا سماجی چہرہ ہے۔ بڑے بڑے ’’مسائل‘‘ جن کے ’’حل‘‘ کے لیے یہ تنظیم کام کر رہی ہے اور کرتی رہی ہے‘ گائے کا گوشت‘ بابری مسجد اور ہندوئوں کا قبولِ اسلام جیسے ’’مسائل‘‘ ہیں! چند دن پیشتر یوگا کا دن منانے کے لیے دہلی میں بڑے پیمانے پر ایک سرکاری تقریب ہوئی جس میں وزیراعظم مودی مہمان خصوصی تھے۔ وشوا ہندو پریشد نے نائب صدر حامد انصاری پر الزام لگا دیا کہ وہ جان بوجھ کر ’’یوگا دشمنی‘‘ میں تقریب سے غیر حاضر رہے۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ جس تقریب میں بھارتی وزیراعظم نے جانا ہو‘ پروٹوکول کے حساب سے بھارتی صدر اور نائب صدر کو اس میں دعوت ہی نہیں دی جاتی!
مگر تازہ ترین ہنگامہ جو بھارت میں اٹھا ہے‘ اس میں پاکستان کے لیے درسِ عبرت ہے‘ خاص طور پر پاکستانی آبادی کے اُس کثیر حصے کے لیے جس کا پاکستانی پرچم سے محبت کا کوئی تعلق نہیں اور قائداعظم جس کے لیے محض ایک اجنبی شخصیت ہیں‘ جنہیں وہ ’’جناح‘‘ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں! الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یو پی کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ یوم آزادی (15اگست) اور یومِ جمہوریہ (26جنوری) پر ریاست کے تمام اسلامی مدارس پر بھارت کا قومی پرچم لہرایا جائے! اس سے بھی زیادہ عبرت آموز خبر یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے تمام بھارتی مسلمانوں سے کہا ہے کہ یوم آزادی پر اپنے گھروں پر قومی پرچم لہرائیں۔ دارالعلوم دیوبند کے پریس سیکرٹری مولانا اشرف عثمانی نے ایک روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ بھارت میں تمام مدارس ترنگا لہراتے ہیں اور یہ غلط ہے کہ مدارس یوم آزادی نہیں مناتے۔ مدرسہ کے رہنما مولانا ارشد قاسمی نے پریس کو بتایا کہ تمام مدارس سے اپیل کی گئی ہے کہ (چھتوں پر) ترنگا لہرائیں اور طلبہ کو جدوجہدِ آزادی کی تاریخ سے روشناس کریں!
پاکستان میں مدارس یومِ آزادی نہیں مناتے۔ پاکستان کیسے وجود میں آیا؟ جدوجہد آزادی کن مراحل سے گزری‘ قائداعظم نے کس طرح کانگرس اور برطانوی حکومت دونوں کا مقابلہ کیا؟ مدارس کے طلبہ کو اس میں سے کچھ بھی بتایا جاتا ہے نہ پڑھایا جاتا ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے‘ ہمارے مدارس میں چودہ اگست کی تعطیل بھی نہیں ہوتی۔
کیا دلچسپ صورتِ حال ہے! پاکستان کی گود میں پھلنے پھولنے والے مدارس قائداعظم کو ’’جناح صاحب‘‘ کہتے ہیں۔ پاکستان کے پرچم یا یوم آزادی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں! یہی مدارس اگر بھارت میں ہوتے تو یوم آزادی پر تعطیل بھی مناتے‘ چھتوں پر ترنگا بھی لہراتے اور آزادی کی تاریخ بھی پڑھاتے!
واہ! پاکستان! تیری بھی کیا قسمت ہے! تو وہ تھالی ہے کہ جو تجھ سے کھاتا ہے تجھی میں چھید کرتا ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔