جہازی سائز کی پجارو ہوٹل کے سامنے رکی۔ ہوٹل کے منیجر نے خود آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ ہوٹل پانچ ستارہ نہیں‘ سیون سٹار تھا! منیجر وڈیرے کو ادب و احترام سے ریستوران میں لایا اور بٹھا کر‘ ویٹر کو بلا کر واپس اپنی سیٹ پر گیا۔ وڈیرے نے ویٹر سے پوچھا‘ کھانے میں کیا ہے۔ ویٹر نے ایک لمبی فہرست سنائی۔ تقریباً سارے ہی کھانوں کے نام اس نے انگریزی میں بتائے۔ ولایتی کھانے تھے۔ آخر میں سائیں کو بھنڈی کا لفظ سنائی دیا۔ یہ واحد ڈش تھی جو اس کی سمجھ میں آئی۔ چنانچہ اس نے بھنڈی کا آرڈر دے دیا!
پاکستانی عوام کی مثال اسی ان پڑھ وڈیرے کی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ہر شعبے میں پیچھے ہے۔ معیشت‘ جمہوریت‘ لا اینڈ آرڈر‘ تعلیم‘ ڈیموکریسی‘ الیکشن کمیشن کے اختیارات‘ درآمدات و برآمدات‘ آئی ٹی‘ ریورس برین ڈرین (یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ تارکینِ وطن کی بیرونِ ملک سے واپسی) مگر یہ وہ شعبے ہیں جو عوام کی بھاری اکثریت کی سمجھ سے باہر ہیں۔ انہیں اعداد و شمار کی خبر ہے نہ ان شعبوں کی نزاکتوں‘ باریکیوں اور پیچیدگیوں کی۔ کرکٹ واحد شعبہ ہے جس میں بھاری اکثریت کو دلچسپی ہے اور وہ اس کی جزئیات تک سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس بھنڈی کو قوم اچھی طرح سمجھتی ہے۔ چنانچہ پاکستان ہارتا ہے تو پوری قوم ماتم کناں ہو جاتی ہے۔ ورنہ کرپشن اور نااہلی ہر شعبے میں‘ بلا کسی تخصیص اور بلا کسی استثنا‘ بدرجۂ اتم موجود ہے اور روز افزوں ہے مگر عوام کی توجہ سے اور اس کے نتیجہ میں عوام کی نظروں سے اوجھل ہے!
آخر کس برتے پر لوگ کرکٹ میں کامیابی کی توقع کرتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمہ گیر زوال میں کوئی ایک شعبہ زوال سے پاک ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کا گھر کھنڈر بنا ہوا ہو‘ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو‘ بچے در در دھکے کھا رہے ہوں‘ بیوی لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ کر شام کے لیے آٹا خریدے اور وہ خود قیمتی ملبوس زیب تن کیے‘ چمکتی لمبی کار میں گھوم رہا ہو؟ جو باقی سارے سیکٹروں میں کرپشن اور زوال کو‘ درخورِ اعتنا نہ سمجھ کر‘ صرف سپورٹس میں اعلیٰ کارکردگی کا مطالبہ کرتے ہیں وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ بوہڑ کے درخت کو گملے میں اگانا چاہتے ہیں۔
دنیا کے جو ممالک سپورٹس میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں‘ اللہ کے بندو! زندگی کے باقی میدانوں میں بھی تو ان کی کامرانیاں اور ظفریابیاں دیکھو۔ کامیابیوں کا ایک سائبان ہے جو ان کے سروں پر تنا ہوا ہے۔ اس سائبان میں کہیں کوئی سوراخ نہیں‘ اس سائبان کا کوئی کونہ گرا ہوا نہیں‘ اس سائبان کے نیچے‘ سہارا دینے والے ستون چوکس ہیں اور سیدھے! صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مثال لیجیے۔ موسم گرما کی اولمپک کھیلوں میں اب تک امریکہ 2400 میڈل حاصل کر چکا ہے جن میں 976 سونے کے اور 758 چاندی کے ہیں۔ سرمائی اولمپک مقابلوں میں اب تک اس نے 281 میڈل حاصل کیے ہیں جن میں سے 96 سونے کے اور 102 چاندی کے ہیں۔ موسم گرما کے اولمپک مقابلوں میں امریکہ سونے کے تمغوں اور تمغوں کی مجموعی تعداد میں دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے اور سرمائی مقابلوں میں صرف ناروے سے پیچھے ہے۔ گزشتہ صدی کے وسط سے لے کر 1980ء تک اس کا مقابلہ زیادہ تر سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ برفانی کھیلوں میں وہ ناروے اور مشرقی جرمنی کا حریف تھا اور اب چین کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ کارکردگی اس لیے ممکن ہوئی کہ پارلیمنٹ سے لے کر امریکی صدر تک سارے ادارے اس ضمن میں چوکس ہیں۔ کانگرس نے ’’یونائیٹڈ سٹیٹس اولمپک کمیٹی‘‘ تشکیل دی ہوئی ہے جو اولمپک کھیلوں میں امریکی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیتی رہتی ہے۔ کئی اور پہلو بھی براہ راست کانگرس کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت‘ کھلاڑیوں میں منشیات کی روک تھام اور میڈیا کا کھیلوں میں کردار۔ یہ وہ پہلو ہیں جو ہر وقت کانگرس کی نظر میں رہتے ہیں۔ امریکی صدر کو کھیلوں کی صورتِ حال سے باخبر رکھنے کے لیے ایک ’’پریذیڈنٹ کونسل فار فزیکل فِٹ نس‘‘ رات دن مصروفِ کار ہے جو وزیر صحت کی وساطت سے امریکی عوام کی صحت اور جسمانی صحت کے متعلق مسلسل رپورٹ کرتی رہتی ہے۔
اب اس قوم کی کارکردگی علم و ادب اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ملاحظہ کیجیے۔ اب تک مختلف علمی‘ ادبی اور سائنسی میدانوں میں آسٹریلیا نے 13 نوبل انعامات جیتے ہیں۔ آسٹریا نے 21‘ کینیڈا نے 23‘ فرانس نے 67‘ جرمنی نے 102 اور برطانیہ نے 115 حاصل کیے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے امریکہ نے کتنے انعامات جیتے ہوں گے؟ ڈیڑھ سو؟ یا دو سو؟ نہیں! یہ تعداد 353 ہے۔ 98 سائنس دانوں نے میڈیسن میں‘ 88 نے طبیعات میں اور 54 نے اقتصادیات میں نوبل انعام جیتے۔ ادب‘ کیمسٹری اور امن اس کے علاوہ ہیں۔ اب ایجادات کی طرف آیئے۔ ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے والی ایجادات کی اکثریت امریکہ کی ایجاد کردہ ہے۔ ریفریجریٹر‘ ٹرام‘ ٹیلی گراف‘ ڈِش واشر‘ ویکیوم کلینر‘ مائکرو ویو اوون‘ فوٹوکاپی‘ ایئرکنڈیشنر‘ ٹریکٹر‘ ٹریفک سگنل‘ ان ایجادات میں سے چند ہیں۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں جن سے کوئی ایجاد برپا نہ ہو سکی‘ جن کی یونیورسٹیوں میں داخلے کی تاریخ سے لے کر امتحان کی تاریخ تک کچھ بھی یقینی نہیں‘ جن کے تعلیمی ادارے سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں‘ جن کے سرکاری سکولوں کی اکثریت دیواروں‘ چھتوں‘ ٹاٹوں‘ اساتذہ اور پینے کے پانی سے محروم ہے‘ جن کے کالجوں میں اساتذہ ہفتوں کلاس روم کا رُخ نہیں کرتے اور تنخواہیں لیے جاتے ہیں‘ جن کے کمرہ ہائے امتحان میں بوٹی مافیا کا راج ہے‘ جن کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کو ایک سیکشن افسر ہانک کر پولنگ ڈیوٹی پر لے جاتا ہے‘ وہ نوحہ خوانی کرتے بھی ہیں
تو صرف کرکٹ کی ہار پر! ٹریفک دنیا میں بدترین سطح پر ہے‘ غیر ملکی لاکھوں کی تعداد میں بغیر کسی پاسپورٹ اور ویزے کے دندناتے پھر رہے ہیں اور امیگریشن سے لے کر پولیس تک سب ’’بے خبر‘‘ ہیں‘ درآمدات آسمان کو چھو رہی ہیں۔ برآمدات پاتال سے لگی ہیں۔ کارخانہ دار بنگلہ دیش‘ ویت نام‘ سری لنکا اور ملائیشیا بھاگ گئے۔ دارالحکومت ڈاکوں کے حوالے سے سارے شہروں میں اول نمبر پر ہے‘ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کے عسکری بازوئوں پر رولنگ دے چکی جس کا نوٹس کوئی نہیں لے سکتا۔ پورا ملک لاقانونیت اور انارکی کا شکار ہے اور درد صرف کرکٹ کے لیے دل میں اٹھ رہا ہے واہ! کیا ترجیحات ہیں اس قوم کی!!
آپ 2015ء میں شہنشاہیت کا عروج ملاحظہ فرمایئے۔ وزیراعظم بیک جنبشِ قلم‘ ایک غیر سفارت کار کو‘ جو کامرس اینڈ ٹریڈ سروس سے تعلق رکھتا ہے اور پہلے سے ہی کئی سال سفارتی تعیناتی سے اپنا ’’حصہ‘‘ وصول کر چکا ہے‘ کینیڈا جیسے اہم ملک میں ہائی کمشنر مقرر کر دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک ریٹائرڈ سفیر کو امریکہ جیسے اہم ملک میں دو سال کی توسیع دی جاتی ہے‘ پوری وزارتِ خارجہ انگشت بدنداں ہے اور سر بہ گریباں! کام کرنے والے افسر بددل ہو رہے ہیں اور بدظن۔ وزیر خارجہ کا وجود ہی نہیں! میڈیا دہائی دے رہا ہے۔ مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی! دوسرے ملکوں میں ایسا ہو تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہو جائے اور حکمران جماعت کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ یہاں پارلیمنٹ معجون کھا کر سوئی ہوئی ہے۔ جاگتی بھی ہے تو صرف اس وقت جب ایک ایک ووٹ کے لیے کروڑوں کی بولی لگتی ہے!
افسوس! اس قوم کو صرف کرکٹ کا افسوس ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“