ریاست پاکستان آج جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ قیام پاکستان سے پہلےبھی مختلف انتظامی بندوبست کے تحت ہزاروں سالوں سے موجود رہے ہیں۔ یہاں کی بیشتر آبادی اپنے آباؤاجداد کے زمانے سے قرنوں سے یہاں کے قدیمی باشندے ہیں۔ اگست 1947 میں ان علاقوں پر مشتمل پاکستان کے نام سے ایک اورانتظامی بندوبست وجود میں آیا۔ ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کے نام پر پہلے کوئی ملک تخلیق کیا گیا اور پھر لوگوں کو اس میں لا بسایا گیا ہے۔ چناں چہ یہاں کے رہنے والے کسی فرد کو اگر ریاست پاکستان کے موجودہ ریاستی بندوبست سے اختلاف تھا یا ہے یا وہ یہاں کا غالب مذھب نہیں رکھتا، اس بنا اسے کہنا کہ وہ غدار تھا یا ہے یا پاکستان چھوڑ کر چلا جائے محض نادانی کی بات ہے۔ یہ زمین یہاں بسنے والوں کے پرکھوں کی زمین ہے، اس پر ان کا آبائی حق ہے، یہاں رہنے کا حق کوئی نیا ریاستی بندوبست ان سے چھین نہیں سکتا۔ ہر فرد کو یہ حق بھی ہے کہ وہ اس ریاستی بندوبست کے بارے میں اپنی راے رکھے خواہ وہ راےغالب اکثریت یا مقتدرہ کی راے سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ کل اگران علاقوں پر مشتمل کوئی اور ریاستی بندوبست وجود پذیر ہو جائے، اس کےجغرافیے میں تبدیلی ہو جائے، جیسے کہ اس سے پہلے 1971 میں ہوئی تھی، تب بھی یہاں کے باشندوں سے یہاں رہنے کا حق چھینا نہیں جا سکتا اور نہ کسی اور بندوبست میں جا کر ان کی شناخت گم ہو جائے گی۔ اسی بنا پر ملکی یا ریاستی شناخت کے ساتھ مقامی شناخت بھی ایک حقیقت ہے بلکہ زیادہ گہری،فطری اور ابدی حقیقت ہے۔
پاکستان چند صوبوں پر مشتمل ایک وفاق ہے۔ اس کے صوبوں نے تقسیم ہند کے دوران میں اپنی مرضی سے ایک ریاستی بندوبست میں رہنا قبول کیا تھا۔اس وفاقی بندوبست میں یہ حق آپ سے آپ شامل ہے کہ وہ اس سے اگرعلیحدہ ہونا چاہیں تو علیحدہ بھی ہو سکتے ہیں۔چناں چہ کسی علیحدگی کے خیال اور تحریک کو غداری کہنا بالکل بے بنیاد بات ہے، سوائے یہ کہ وہ تحریک کسی خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہو اور اپنے مقاصد مسلح جدوجہد یا دہشت گردی وغیرہ سے حاصل کرنا چاہے جب کہ قانونی طورپر انھیں اپنا مطالبہ پیش کرنے کی اجازت بھی میسر ہو۔
آئین پاکستان میں غداری کی تعریف میں وفاق سے علیحدگی کا مطالبہ شامل نہیں ہے،البتہ آئین کی خلاف ورزی، طاقت کے استعمال سے اس کی تنسیخ یا معطلی کو غداری میں شمار کیا گیاہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اب تک جوغدار پیدا ہوئے ہیں وہ کون ہیں، طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان غداروں نے اپنی اس غداری کے باوجود خود کو حب الوطنی کی اسنادبھی خود ہی جاری کیں، اورعدلیہ اس جرم میں ان کی معاون رہی۔
وفاقِ پاکستان کا کوئی حصہ اس سےعلیحدگی چاہتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ اس علاقہ کے لوگوں کو کرنا ہوتاہے اور ان کا یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ان کا فیصلہ معلوم کرنے کا آسان طریقہ ریفرنڈم ہے۔ اگر کسی حصے کے عوام کی اکثریت علیحدگی کے حق میں ووٹ دے تو مرکزی حکومت یا کسی بھی ریاستی ادارے کو ملک کی سالمیت جیسے مفروضات کی بنا پر اس کو جبرا روک رکھنے کی کوئی آئینی گنجایش نہیں ہے۔ اور اگر اس حصے کے عوام کی اکثریت علیحدگی نہیں چاہتے تو ایسا چاہنے والے اقلیتی گروہوں کو اس کے باوجود بھی اپنا یہ خیال رکھنے اور اس کئ ترویج و اشاعت کا آئینی حق حاصل رہتا ہے۔ انھیں بھی غدار کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح فرد اور ریاست میں اس بنا پرکوئی لڑائی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا۔
یہ گزرے زمانے کا استبدادی مزاج تھا کہ ایک بادشاہ کے زیر نگیں ملک کا کوئی حصہ اس سے علیحدگی چاہتا تو اسے بغاوت قرار دے کر بادشاہ اس پر فوجیں لے کر چڑھ دوڑتااور بغاوت کو دبانے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی میں دنیا بدل گئی جب نوآبادیاتی قوتوں نےقومی ریاستوں کے قیام کا بین الااقوامی فیصلہ کیا، جس کے تحت کوئی ریاست کسی دوسری ریاست یا ریاست کے کسی حصے کو جبرا اپنے قبضے میں نہیں رکھ سکتی۔ انھوں نے اس کے لیے ریاستی آئین کا تصور دیا جسے تسلیم کرنا ریاست کے شہریوں اور یونٹوں کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ ریاست و حکومت میں آنے والی اس پیش رفت کو بلا اختلاف دنیا بھر میں تسلیم کر لیا گیا۔ چناں چہ اب کسی ریاست کو یا ریاست کے کسی حصے کو جبرا اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی کوئی قانونی گنجایش موجود نہیں ہے۔
وفاق کو قائم رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس میں شامل تمام یونٹ اپنی رضا سے اس میں شامل رہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے تمام حصوں میں ایسی کوئی شکایت پیدا نہ ہو کہ وہ وفاق کی بجائے علیحدہ ہونے کو ترجیح دیں۔ ملک کے وسائل کی تقسیم میں، انصاف برتا جائے اور بنیادی حقوق اور ترقی کے مواقع یکساں مہیا کیے جائیں۔ ریاست پاکستان میں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پرانا استبدادی دور ابھی گزرا نہیں اور ہم تاریخ کے گزشتہ دور میں ہی مقید رہ گئے ہیں۔ ملک عزیز میں موجودہ ریاستی بندوبست سے اختلاف کو غداری اور علیحدگی کے پر امن مطالبے بلکہ ذکر تک کو بھی بغاوت قرار دے کر دشنام اور آزار سےیا بزور بازو فرو کرنا ملک کی سالمیت کے نام پر جائزسمجھا جاتا ہے۔ بنگال کی علیحدگی کی تحریک کے خلاف بلا ضرورت فوج کشی کی گئی تھی جس کے نتیجے میں عظیم انسانی المیے نے جنم لیا، اور پاکستان کی ذلت آمیز شکست الگ ہمارے ماتھے کا کلنک بنا۔اس ناکامی کے باوجود بھی دور رفتہ کا استبدادی نظریہ اور مزاج نہیں بدلا۔ اب بھی ملک میں جہاں سے علیحدگی کی بات سنائی دیتی ہے فورا غداری کا فتوی جڑ دیا جاتا ہے ، لوگوں کو ماورائے عدالت سزائیں دی جاتی ہیں، انھیں قتل تک کر دیا جاتا ہے۔
علیحدگی کا مطالبہ استحصال کے احساس کے تحت پیدا ہوتا ہے۔ اپنی مرضی سے کسی بندوبست کا حصہ ہونے کے احساس کی بجائے اگر غلامی اورمجبوری کا احساس پیدا ہوجائے تو انسان کا جذبہ حریت بیدار ہو جاتا ہے، جو پھر کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ صدیوں کی انسانی تاریخ یہی ہے۔ مگر طاقت ور نہ تو حقوق دینے پر رضامند ہوتا ہے اور نہ جذبہ حریت کو راہ دینے پر۔ نتیجہ گولی اور سینے کی لڑائی ٹھرتا ہے۔
ان مسائل کا حل آسان ہے اور وہ یہ کہ ریاست کے ذمہ دار سیاست دان ہوں، ان معاملات کو حل کرنے کا پورا اختیار ان کے پاس ہو۔فوجی سربراہان ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی سماجی و سیاسی صلاحیت نہیں رکھتے۔ایسے مسائل میں شامل مختلف سماجی عوام کو سمجھنے کی صلاحیت سیاست دانوں میں ہی ہو سکتی ہے۔ سیاست دان اس بات کو یقینی بنائیں کہ ریاست میں اختیارات کی تقسیم تمام صوبوں کے لیے یکسان اصولوں پر مبنی ہو، ملکی وسائل سے ہر صوبے کو اس کا حصہ انصاف کے اصولوں کے مطابق ملے۔ احساس محرومی پیدا نہ ہو۔علیحدگی پسندوں کے مطالبات سمجھیں جائیں اور معقول مطالبات پورے کیے جائیں۔ اس کےبعد عموما علیحدگی کے خیالات پیدا نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی گروہ مقامی قومیت یا کسی اور بنا پر علیحدگی کا مطالبہ کرے تو اسے اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ ریاست کا عمل اگر مثبت ہوگا تو علیحدگی پسندوں کی بات عوام نہیں سنیں گے، عوام کو نظریاتی نعروں کی بجائے ہمیشہ حقیقی اورمعروضی حقائق متاثر کرتے ہیں۔ جبری زبان بندی سے معاملہ البتہ مظلومیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور مظلومیت خود ایک اخلاقی جواز بن جاتی ہے خواہ درحقیقت وہ کسی درست بنیاد پر قائم ہو یا نہ ہو۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...