وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے ۔
کل میں ایک مبصر کا ڈونلڈ ٹرمپ اور جان میکیین کا موازنہ پڑھ رہا تھا ۔ دراصل وہ میکیین کی یاداشتُ ‘restless wave ‘ سے اقتباسات quote کر رہا تھا، موازنے کے لیے ۔ دونوں ریپبلیکن کے ایک بڑے نام ہیں ۔ دونوں maverick ہیں ۔ دونوں کا لب و لہجہ بہت تلخ ہے اور دونوں دشمنوں کا پیچھا کتوں کی طرح کرتے ہیں ۔ میکیین بھی صدر کے لیے ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے نامزد ہوئے تھے لیکن جارج بُش سے وہ نامزدگی ہار گئے تھے ۔ میکیین ویتنام کی جنگ میں جنگی قیدی بھی رہے ۔ ٹرمپ جب صدر بنے تو اُنہوں نے میکیین سے دوستی کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے کیونکہ میکیین بہت زیادہ رجعت پسند ہیں اور کچھ معاملات میں تو ان کے لیے compromise ناممکن ہے ۔ مبصر کے نزدیک وہ معاملہ جس پر میکیین دوستی نہ کر سکا وہ تھا ریاست سے وفا داری کا۔ ٹرمپ دشمن کو پچھاڑنے کے چکر میں ریاست کی بھی پرواہ نہیں کرتا میکیین وہاں اسے اپنے ایمان کی حد تک لے جا کر وفا دار ی کرتا ہے ۔ اسی لیے ٹرمپ سے اُس کا شدید اختلاف ہے ۔ میکیین آجکل بہت علیل ہے ۔ بلکہ پچھلے دنوں کچھ تبلیغیوں نے یہ مشہور کیا کے میکیین مسلمان ہو گیا ہے ۔ ویسے غالب کے اس شعر کے مطابق تو واقعہ ہی وہ اس رُتبہ پر پورا اترتا ہے ۔ جیسے ہم اکثر پاکستانی یورپ اور امریکہ آ کر ان کی اصول پسندیاں دیکھ کر یہ کہتے ہیں کہ اصل میں تو یہ قومیں نبی کے طریقوں کے مطابق چلیں ۔
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو ۔
آئیے اپنے ہم وطنوں کی طرف ، جو مسلمان بھی ہیں بلکہ اسلام کے نام پر بنی ریاست کا حصہ اور اس میں رہ بھی رہے ہیں ۔
مملکت اسلامیہ کے سیاست دان اور بیوریوکریٹ ماشا ء اللہ سوائے ریاست کے ساتھ وفادار ی کے ہر کام میں پیش پیش رہے بلکہ ریکارڈ توڑ دیے ۔ پاک فوج کی ریاست کے ساتھ وفاداری کو بھی چیلنج کیا ۔ شہیدوں کی قربانیوں کو پامال کرنے کی کوشش کی ۔ مال و دولت کے ریکارڈ قائم کیے ۔ ریاست کو جب چاہا ، جس بھاؤ چاہا ، جہاں چاہا ، سر عام بیچا ۔ اس طرح تو کوئ رنڈی بھی اپنا سودا نہیں کرتی ۔
نواز شریف اور اس کے موجودہ بیو ریوکریٹز نے تو تمام اگلے پیچھے ریکارڈ ہے توڑ دیے۔ نیب میں کیس چل رہے ہیں ، دیہاڑیاں پھر بھی بند نہیں ہو رہیں ، جیسے ٹسوری نے متحدہ میں پسُوڑی ڈالی تھی اور مفتاح نے مُفتا لگایا ہوا ہے ۔ کمال کی ڈھٹائی ، بے شرمی اور کمینگی ۔
رمضان میں ہی پاکستان بنا تھا اور اب بھی رمضان ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ہو نے جا رہا ہے ۔ پہلے بھی فیصلہ باہر کی قوتوں نے کیا تھا ، کیا ابھی بھی ایسا ہونے جا رہا ہے ۔ لڑائ اور معاملہ در اصل حصوں کا ہے ۔ نیا الیکشن فیصلہ کرے گا کے اب کون اس دوکانداری اور لُوٹ مار کا حق رکھے گا اور کس کے حواری باقی ماندہ لُوٹ مار کا حصہ بنیں گے ۔
ہم میں کسی نے ریاستِ پاکستان سے وفاداری نہیں کی ۔ سب نے حصہ بمطابق جُسہ وصول کیا ۔ بلکل میں سچ کہ رہا ہوں ، ووٹر سے لے کر عام آدمی تک ۔ پانچ سو کے نوٹ پر ہم جلوس میں شامل ہو گئے ۔ ایک ہزار کے پر جلسہ میں ۔ پانچ ہزار پر ووٹ بیچ دیا اور ایک لاکھ پر خود کش بمبار بن گئے ۔
اب خیر سے کچھ اتنا بچا بھی نہیں ہے کھونے کے لیے ، آنے والا وقت بتائے گا کہ جو ہم مکمل تباہی کی طرف گامزن ہیں کیا اُس سے بچ جائیں گے یا نہیں؟
آئیں اس رمضان کو تہواری رمضان کی بجائے اصل ایمانی رمضان کے طور پر گزاریں اور اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیے ۔ بہت ہو گیا فراڈ اپنے سے ، اپنی ماں دھرتی سے ۔ کچھ آنے والی نسلوں پر رحم کھا جائیں ۔ اُن کے لیے بھی کچھ چھوڑ جائیں ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔