مٹی کی کئی ننھی منی چیزیں بنائی جاتی تھیں ۔ جن میں مٹی سیٹیاں جو پرندوں خاص کر مرغیوں کی شکل کی ہیں ۔ اس کے علاوہ مٹی کے گول جھنجنے جن میں مٹی کی باریک گولیاں ڈالی جاتی تھیں ۔ مٹی کے بنے ہوئے گول اور چوکور پانسے ۔ مٹی کے جھانوے ، مٹی کے ننھے پنجرے جن میں جھینگر رکھے جاتے ہوں گے اور مٹی کے چوہے دان بھی ملے ہیں ۔ اس طرح کے ننھے منے برتن بھی ہیں ، مٹی کی چوڑیاں ، گنگن ، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ ہیں ۔ جن پر روغن چڑھایا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ بازو بند ، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بنائی جاتی تھیں ۔ بعض جگہ سے نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمہ دانیاں بھی ملیں ہیں ۔ کانسی اور تانبے سرمچو بھی ملے ہیں ۔جو ساڑھے چار انچ سے پانچ انچ تک لمبے ہیں ۔ تانبے کے پیالے ، پیالیاں اور تھالیاں عام تھیں ۔
پختہ مٹی کی بہت سی کھلونا گڑیاں اور دوسرے کھلونے ملے ہیں ۔ مٹی کے بنے رتھ اور چھکڑے ہیں ۔ مٹی کی بنی پرندوں کی شکل کی سیٹیاں ہیں جو آج بھی پھونک ماریں تو بجتی ہیں ۔ دو اینٹوں پر ایسے پانسے بنے ہیں جن سے پانسہ پھینک کر کھلینے والا کوئی کھیل کھیلا جاتا ہوگا ۔ پانسوں جو نشانات لگے ہیں ان کا طریقہ موجودہ طریقہ کار سے مختلف ہے ۔ موجودہ پانسے پر کوئی سی دو مخالف سمتوں کا مجموعہ سات بنتا ہے ۔ یعنی ایک کے مخالف چھ ہیں ، دو کے مخالف پانچ ، تین کے مخالف چار اور پانچ کے مخالف چھ ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ لوگ ان کھیلوں پر جوا کھیلتے تھے یا نہیں ۔
لباس
لباس تو کوئی نہیں ملا ہے نہ مورتیوں سے ہی لباس کی تفصیلات پر روشنی پڑتی ہے ۔ صرف اتنا لگتا ہے کہ مرد چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھتے تھے ۔ کچھ لوگ مونچھیں منڈاتے تھے اور مرد کشیدہ چادریں اوڑھتے تھے یا چوغہ پہنتے تھے ۔ جس میں دایاں بازو ننگا رہتا تھا ۔ عورتیں مختصر دھوتی یا تہمد باندھتی تھیں ۔ امیر عورتیں اس کے اوپر کمر بند باندھتی تھیں ۔ جو چوڑی پٹی کا ہوتا تھا ۔
اوزان اور پیمانے
موہنجودڑو میں وزن اور پیمائش کا ایک صحت کے ساتھ طے شدہ نظام تھا ، جو علاقے کے طول و عرض میں رائج تھا ۔
باٹ مختلف اقسام کے پتھروں سے تراشے جاتے تھے ۔ جن میں ناقص عقیق ، چونا پتھر ، سلپہ پتھر ، سفید عقیق ، ورقی پتھر اور سنگ سیاہ وغیرہ شامل ہیں ۔ ان میں سے بعض سوراخ دار ہوتے تھے اور بہت سارے چھوٹے بڑے باٹوں کا ایک سیٹ تار میں پرویا ہوتا تھا ۔ نہایت چھوٹے باٹ بھی تھے ۔ جو سناروں کے کام آتے تھے ۔
عموماً ترازو کی ڈنڈی اور دونوں پلڑے لکڑے ہوتے تھے ۔ جو دھاگے سے بندھے ہوتے تھے ۔ یہی وجہ ہے ترازو کی زیادہ باقیات نہیں ملیں ۔ بعض صورتوں میں ڈنڈی تانبے اور اس کے علاوہ پختہ مٹی کے بنے ہوتے تھے ۔ ان میں سے کچھ نمونے محفوظ ملے ہیں ۔
موہنجودڑو کے معیاری اوزان کا نظام قدیم دنیا کے کسی دوسرے نظام سے نہیں ملتا جلتا ہے ۔ ان اوزان کا اندرونی تناسب اس طرح ہے ۔
1 ، 2 ، 4 ، 8 ، 16 ، 32 ، 64 ، 160 ، 200 ، 320 ، 640
ان میں وہ وزن جس کو 16 کہا گیا ہے بنیادی اکائی کا درجہ رکھتا تھا ۔ اس کا وزن 13.64 گرام تھا ۔ موجودہ تولہ ۶۶ء۱۱ گرام کا ہے ۔ اسے ہم پکا تولہ کہہ سکتے ہیں ۔ یہ بنیادی وزن یعنی پکا تولہ جب اوپر کو جاتا تھا تو اعشاری ترتیب سے بڑھتا تھا ۔ جب نیچے جاتا تھا تو 2 سے تقسیم ہوتے ہوئے چلتا تھا ۔ سولہ کا یہ نظام پاکستان میں اعشاوی نظام سے پہلے رائج تھا ۔
اوزان کی طرح نہایت پیمائش کا ایک صحت کے ساتھ طے شدہ نظام تھا ۔ موہنجودڑو سے گھونگے سے بنایا گیا ایک پیمانہ ملا ہے جو ذرا سا ٹوٹا ہوا ہے ۔ اس پر برابری کے نشانات لگے ہیں ۔ ہر حصہ11.32 انچ یا 33 سینٹی میٹر کے برابر ہے ۔
موہجودڑو سے ملنے والا گھونگے کا پیمانہ جو بنیادی اکائی 11.32 کے برابر دیکھاتا ہے ۔ اس میں ہر اکائی کے بعد ایک دائرے کا نشان بنایا گیا ہے ۔ اس بنیادی اکائی کی ضمنی تقسیم بھی کی گئی ہے ۔ جو کہ پانچ حصوں ( سوتروں ) میں ہے ۔ ہر حصے کو الگ کرنے کے لئے کھڑی لکیر لگائی گئی ہے ۔ اس طرح پانچ سوتر کی پور اور دس پور کا ایک پاؤں ہوتا ہوگا ۔ مختلف عمارتوں کی پیمائش کرکے رکھا گیا تو اس میں دو پیمائش نظر آئیں ۔ ایک کے مطابق بیس انچ کا ہاتھ ہوتا ملتا ہے ) 20.03 انچ سے لے کر 20.08 انچ تک ( دوسری پیمائش کے مطابق اس کی صحیح پیمائش 13 انچ سے لے کر 13.2 انچ تک ۔ تمام عمارتوں کی لمبائی چوڑائی سختی سے دو میں سے کسی ایک پیمانے پر اترتی ہے ۔ مثلاً اشنان گھر کا تلاب اسی پاؤں کے حساب سے 36 235 21 پاؤں ہے ۔ جب کہ یہ پاؤں 13.1 انچ کا ہے ۔
کچھ بھی ہو ان اوزان پیمائش کی تفصیل اور صحت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں جیومیٹری کا علم کافی ترقی کرچکا تھا اور اس کی تعلیم کا کوئی نہ کوئی سلسلہ تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔