مشرق کاسوئٹزرلینڈسوات،سنسکرت/یونانی نام سواستو، تین خطوں جنوبی، وسطی اورچین کاسنگم ھے۔ یہ وادی ھمیشہ تنازعات اورقبضہ گروپوں کامرکزرھی۔
یہاں سکھ،ہندومسلم،بدھ،نسلوں سےآبادتھے۔سوات کےبھکشوجادوکی طرف مائل تھے۔تبت کےاب تک کے14دلائی لامہ میں سےدوسرےدلائی لامہ کی پیدائش سوات کی ھے۔
یہ وادی اینٹی میکسس دوم کے ڈائوڈوٹس کے اراکوشیا کے اپالوڈوٹس جیسے بادشاہوں کے بھی حوالے رھی۔یونانیوں کے بعد چندرگپت موریہ،اشوک کا راج رھا۔ اسکندر اعظم نے اسے بطور گزرگاہ استعمال کیا۔اشوک کےبدھ مت ھونےسےیہاں بدھ ازم پھیلا۔ گزرتےوقت میں خان آف دیر،جندول،آلہ ڈنڈ،وادی پرقابض رھے۔
سب سےمشہوریوسف زئی قبیلہ ھے۔مزیدشاخیں رانی زئی،خان
خیل،کوزسلیرئی(اباخیل،موسی خیل)بابوزئی اوربرسلیزئی(عزی خیل/جنکی خیل)ھیں۔
1849میں سیدوباباکےانتقال کےبعدانگریزوں کی پیش قدمی نےیہاں کےباسیوں کوخوفزدہ کردیا۔1897میں لنڈاتورباباکی قیادت میں انگریزکیخلاف آزادی کی ناکام تحریک چلی۔
برطانیہ نےنواب سنڈاکئی باباکی مددسےشامیزی، سیبوجنی،نیکپی جیسی اقوام کوشکست دی۔سوات کی تشکیل نواس5رکنی کمیٹی سےھوئی جسکےہیڈسنڈاکئی باباتھے۔سوات کی بنیادمیاں عبدالودودنےرکھی یہ کہناغلط ھے
50تک یہ خطہ طوائف الملوکی کاشکاررھا47میں یہاں کےحاکم دل سےنئی مملکت اورمسلم لیگ کےساتھ تھے
سوات کےاب کےانتظامی ڈھانچےکاخالق عبدالجبارشاہ ھے۔
1972کی مردم شماری کیمطابق سوات کی آبادی 9 لاکھ 36 ہزار ھے۔
اب تک یہ وادی ترقیاتی کام، تعلیم، ہسپتال، اسکولز،پلوں،سڑکوں کےحوالےسےحکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کاشکارھےجوکبھی بادشاہوں کا،اقتدارکامرکزتھا۔