وادی کمراٹ
ہزاروں خدشات اور وسوسے تھے جو میرے دل کو مضطرب کیے جاتے تھے۔بہت سے دوست تھے جو صادق آباد اور رحیم یارخان سے میرے ساتھی بننے کو تیار ہوئے لیکن ہر ایک کو کسی نہ کسی مجبوری نے آن گھیرا۔میں اکیلا رہ گیا لیکن کمراٹ تو جانا ہی تھا۔سو چل پڑا۔
راول پنڈی سے مردان، وہاں سے تیمر گرہ اور شرینگل سے ہوتا ہوا تھل کوہستان پہنچ گیا۔باب کمراٹ شروع ہوتے ہی حسین نظارے آپ کے دل و دماغ کو تروتازہ کر دیتے ہیں۔باب کمراٹ سے کمراٹ ویلی تقریباً پچاس کلومیٹر کی مسافت پر ہے اور راستہ نہایت اتھل پتھل ہے۔بندہ، بندے کا پتر بن جاتا ہے۔تھل تک صرف ہائی ایس وین یا جیپیں ہی جاتی ہیں۔میں جس وین میں بیٹھا تھا اس میں سب کے سب شدید پختون تھے اور مجھے بار بار دیکھتے تھے۔کیوں کہ میں شدید پختونوں میں شامل نہیں تھا۔تھل میں ہوٹل گرین ہلز میں رات گزاری اور صبح دس بجے کمراٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔تھل سے سات،آٹھ کلومیٹر کے بعد کمراٹ کی حسین وادیاں شروع ہوتی ہیں۔وہاں جگہ جگہ آپ کو رات رہنے کے لیے ہوٹل مل جائیں گے لیکن اگر آپ نے کالا چشمہ سے آگے جانا ہے تو اپنا ٹینٹ اور کھانے پینے کا سامان آپ کو ساتھ لے کر جانا پڑے گا۔
تو میں کمراٹ میں تھا،جہاں رات کو کائنات بولتی ہے،سرگوشیاں کرتی ہے اور کمراٹ کو روشن کرتی ہے۔رات نو بجے میں اپنے ٹینٹ سے نکلا اور پہاڑوں میں گم ہو گیا۔دریائے پنجکوڑہ میرے ساتھ تھا۔اس کا شور کائنات میں گونجتا تھا۔اس کے اوپر پہاڑ کھڑے تھے جو اسے رات کی تاریکی میں گھورتے تھے۔میں اکیلا تھا یا پھر کائنات تھی،پہاڑ تھے اور پھر دریائے پنجکوڑہ کا شور تھا اور ان سب کی سرگوشیاں تھیں۔میں نے اپنے اندر کی سماعت تیز کی مجھے کمراٹ کے پہاڑوں کی سرگوشی سنائی دی۔
" اے صحرا گرد! تم تو صحرا کی گرد چھاننے والے ہو ہمارے پاس کیوں آئے ہو۔"
جواب میں٬ میں نے سرگوشی کی۔ " تمہاری بلندیاں مجھے بھا گئی ہیں۔تمہارا حسن دیکھنے کی غرض سے بائیس گھنٹے کا طویل سفر کر کے آیا ہوں۔"
پہاڑ جھوم اٹھے اور دریائے پنجکوڑہ کا شور بڑھ گیا۔کائنات مزید روشن ہو گئی اور میرے اندر سرشاری کی کیفیت دوڑ گئی۔آسمان نے بادلوں کو پہاڑوں پر جھکا دیا اور بارش کی بوندیں گرنے لگیں کمراٹ مزید خوب صورت ہو گیا۔
کمراٹ میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں کے موسم کا پتا نہیں چلتا۔ایک دم سے بارش اور اگلے لمحات میں ہلکی دھوپ، وہاں ٹھنڈ تھی۔رات کمبل میں گزاری۔صبح ناشتے کے بعد میں پھر اکیلا ہی آگے چلا گیا۔جہاں چراگاہیں تھیں۔جانور چرتے تھے اور دریا اور چشموں کا ٹھنڈا پانی پیتے تھے۔واپسی پر کمراٹ آبشار دیکھی جو اوپر سے آتی تھی۔جس کا پانی یخ بستہ تھا اور صاف و شفاف تھا۔ کمراٹ،زمین پر جنت ہے۔وہاں کا سفر ایک بار تو لازمی ہے۔
تھل سے واپسی پر آپ کو شام کے وقت سواری ملے گی۔وہاں سے شام کو دو وینز مردان جاتی ہیں۔اس کے علاوہ آپ کو اسپیشل سواری کروانا پڑے گی۔جو آپ کو دیر یا باب کمراٹ تک چھوڑ آئیں گی لیکن وہ خاصی مہنگی پڑے گی۔اپنی سواری ہو تو بہت بہتر ہے۔فیملیز کو لے کر جاسکتے ہیں وہاں کوئی ڈر یا خوف نہیں۔کمراٹ گھومنے کے لیے کم از کم تین دن لازمی ہونے چاہییں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“