بہت پہلے شب خون کے کسی شمارے میں حکیم منظور کی ایک غزل کے دو اشعار پڑھے تھے یہ اشعار انکے مشہور مطبوعہ کتابوں میں نظر سے نہیں گزرے ۔ یہ اشعار میرے لئے لذتِ کام و دہن اور ذوق سلیم کی غذا ہیں اچھے شعر کی نشانی ہے وہ ایک سچی قلبی واردت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور اس کا قاری پڑھتے وقت عین اسی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے جس سے شعر کا خالق دوچار ہوا تھا۔
یہاں خوشبو کو علامتی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور بطور احسن۔۔
شعر
خوشبو کا کوئی گھر ہے نہ کوئی گھرانہ ہے
اس کا سخی مزاج کہ پیغمبرانہ ہے
یہاں مزکورہ بالا شعر میں ۔
خوشیو کے مزاج کو سخی اور پیغمبرانہ کہنا واقعی شعریت سے بھرپور ہے۔ اسی غزل کا ایک اور شعر
ثابت ہیں بس اسی سے سمندر کی وسعتیں
وہ ایک قطرہ جس کی ادا باغیانہ ہے۔
شعر و شاعری کے متعلق اشپینگلر کہتا ہے:
ہر معاشرہ اپنی مخصوص اوضاع پیدا کرتا ہے جنہیں صرف اس معاشرے کے اندر رہ کے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس لئے شعر تو پوری تہزیب کی پیدا کردہ چیز ہے ۔ شاعری ضروری نہیں اپنی تہزیب میں پائی جانی والی سب اقدار اور صداقتوں کی موکد نماییندہ ہو بعض دفعہ شاعر اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے اور وہ تخلیقیت کو بروئے کار لا کر نئی اقدار بھی تخلیق کرتا ہے کیونکہ وہ حقیقت کا متلاشی ہوتاہے نہ کہ مقلدِ محض۔ بہر حال روایت سے انکار کی صورت میں بھی وہ اپنی روایت اور تہذیب سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ۔ اسکا انکار بھی کسی روایت پر مبنی ہوتا ہے۔
ایک اور شعر
افتابوں کا ںڑھاپا برفزاروں کی خوشی
سبز پتوں کے لئے ازار جاں لکھا گیا
یہاں آفتاب روشن خیال بزرگوں کی علامت۔ ہے
برفزار زمانے کی سرد مہری
اور سبز پتے نئی نسل کی علامت ہے
نئی غزل میں بہت سی مغربی تحریکوں کے زیر اثر تجربے کئے گئے ہیں لیکن شاعری میں کسی خیال یا پیغام کا ہونا ضروی ہے اور کسی بھی طور اس حقیقت سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا ہے۔ شاعری نہ تو مونالیزا کی پیٹنٹڈ تصویر ہے اور نہ ہی تان سین کی موسیقی۔۔۔۔ شاعری تو الفاظ کی تنظیم و ترتیب سے بنایا گیاایک قلعہ موہوم یعنی imaginary castle ہے۔
بقول محمد حسیں عسکری:
ادب پارے میں مجبوراً مادی ہیت کا انحصار معنوی معنوی ہئیت پر ہوگا لیکن معنی کا تصور اقدار کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا معنی کی تربیت کے لئے صرف حسن اور بد صورتی کے معیاروں سے کام نہیں چلے گا۔ اس میں نیکی ور بدی سچ اور جھوٹ کے تصورات کا دخل لازمی ہوگا تو جس چیز سے بچ کر بھاگے تھے اس سے پھر دوچار یونا پڑا فنکار چاہے یا نہ چاہے اخاقیات کا جّوا اس کی گردن پر رکھا ضرور رہے گا۔"
شعری مجموعہ ناتمام سے منتخب اشعار:
کوئی پیام اب نہ کوئی پیمبر ہی آئے گا
وہ شب ہے اسمان سے پتھر ہی ائے گا
تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی
تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی
اس سے کیا پوچھتے ہم اپنے معانی منظور
پھول کھلتے نہیں دیکھے کسی بنجر میں کبھی
مجھ سےدو گز پر سدا اونچا رہے گا آسماں
کیا ضرورت ہے کہ بے جا قد کو میں اونچا کروں
اس آفتاب سے اس دن مصالحت ہوگی
میں اپنے رنگ میں جب اس کو ڈوبتا دیکھوں
شعر آسمان سے منتخب شعر
اک میں ہی نہیں سنگ کی یورش کا سزاوار
ہم مشرب و ہم درس ہے اک شاخ شجر بھی
لہو لمس چنار سے منتخب اشعار
اب کے میرا کعبۃ دل دشمنوں کی زد پہ ہے
پھر مدد کرنا ابابیلوں کے لشکر بھجینا
گرجتے بھاگتے دریا سے کیا غرض ہم کو
ابلتے بولتے چشموں کی قربتیں لکھنا
خبر کہ اندھی ہے دینا بشارتیں اپنی
سڑک کہ شیشہ ہےپتھر مسافتیں لکھنا
خوشبو کا نام نیا سے منتخب اشعار
بے ثمر ہوکر سبھی نظروں میں حرف شب ہوا
ہاں مگر بوڑھا شجر میرے لئے مکتب ہوا
سخن برف زار سے منتخب اشعار
مدت ہوئی کہ سیب اور اخروٹ کی جگہ
پکتی ہیں پیڑ پیڑ یہاں سازشیں کئی
حکیم منظور