وادی سندھ کی تہذیب
ساتواں مضمون
نظام حکومت
موہنجوداڑو میں کل نو رہائشی پرتیں نکالی گئیں ۔ ان میں کئی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے ۔ لیکن ان متفرق ادوار کی مادی ثقافت میں زرا فرق نہیں ملتا ۔ نہ زبان بدلی ہے نہ رسم و الخط ۔ ایک ایسی زمین پر جس میں زبان نے متعدد شکلیں اختیار کی ہیں اور رسم الخط بار بار یکسر تبدیل ہوا ہے اس میں ایک ہی رسم الخط کا تسلسل اس کے ٹہراؤ کا بڑ ثبوت ہے ۔ ایک طرف تو ان کے عکاد اور سومیر سے تعلقات تھے ۔ دوسری طرف تیرہ سو سال تک انہوں نے عکاد اور سومیر سے بدلتے ہوئے صنعتی طریقوں سے کچھ نہیں سیکھا ۔ اس مطلب ہے کہ ٹہراؤ کی وجوہات اندرونی اور بہت مضبوط تھیں اور بیرونی اثرات کمزور تھے ۔ معلوم ہوتا ہے اس نظام کا ایک انتہائی ترقی یافتہ افسر شاہی مشنری پر مشتمل مذہبی بادشاہت کا نظام تھا ۔ لوگ مذہب کو مانتے تھے اور اس مستعد اور ماہرانہ نظام سے مطمئین تھے یا اسے نوشہ تقدیر سمجھ کر راضی برضا تھے ۔ ریاست غلاموں سے سرکاری سطح پر اجتماعی مشقت لیتی تھی ۔ اس میں جو کا چھڑانا اور گندم کا آٹا پیسنا ، جنگلات کی دیکھ بھال ، لکڑی کاٹنا اور ملک کے طول و عرض میں پہچانا ، خشت سازی ، سرکاری سطح پر تھوک پیداوار کے حساب سے ہوتی تھی ۔ اینٹوں کے بھٹے شہر کے قریب نہیں ملے ۔ جس کا مطلب ہے یہ شہر سے بہت دور ہوتے تھے اور ریاستی منصوبہ بندی کے تحت تھے ۔ موہنجودڑو کے دور ذوال میں برتن پکانے کی بھٹیاں شہر کے اندر گھر میں اور گلی میں ملی ہیں ۔
زراعت
بڑی اجناس گندم اور جو تھیں ، اس کے علاوہ تل اور مٹر بھی کاشت کئے جاتے تھے ۔ کپاس کاشت کا ثبوت موہنجودڑو سے ملا ہے ۔ پاس کے دھاگے سے بنے ایک کپڑے کا ٹکڑا بھی یہیں سے ملا ہے ۔ جس پر سرخ اور مجیٹھی رنگ چڑھایا گیا تھا ۔ آج بھی سندھی اجرک کے یہ مخصوص رنگ ہیں ۔ اس دور کے سامان تجارت کی ایک نہایت اہم شے کپاس تھی ۔ چاہے وہ روئی کی شکل میں ہوں ، دھاگے کی شکل میں ہو یا کپڑے کی شکل میں ۔ میسو پوٹیمیا کو یہاں کی کپاس برآمد کی جاتی تھی ۔ بکری وہی نفیس اون والی بکری جس سے شالیں بنتی ہیں ۔لہذا وادی سندھ میں اونی لباس کا استعمال خارج امکان نہیں ۔
مذہب
وادی ، سندھ بنیادی طور پر زرعی ہے ۔ دیوی ماں ، مْقدس درخت ، شجر حیات ، لنگم دیوتا ، یونی دیوی یہ سب مقامی تصورات ہیں اور زرخیزی اور مذہب تعلق رکھتے ہیں ۔ ان سب مذاہب کی بنیاد دیوی ماں پر تھا ۔ وادی سندھ کی تہذیب سے کوئی قد آدم یا دیو قامت مجسمے نہیں ملے ۔ نہ کہیں چٹانوں پر کندہ عبارتیں ملیں ۔ اگرچہ مذہب کی گرفت اجتماعی تھی ، مگر عبادات کی ادائیگی انفردی معاملہ تھا ۔ اشنان ایک مذہبی عبادات تھی اور مذہبی باولیاں بن چکی تھیں ۔ کہنا مشکل ہے کہ موہنجودڑو کا بڑا اشنان گھر دیوی ماں اشنان گھر تھا یا بھینس دیوتا کا ۔ لیکن شاندار تعمیر اس کے شاہی ملکیت ہونے کا ثبوت کافی ہے ۔ جس کی بنا پر اسے دیوتا کا اشنان گھر سمجھنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔
بعض مہروں پر مرد دیوتاؤں کی تصویریں بھی ملی ہیں ۔ مثلاً ایک مہر پر تین چہروں اور سینگوں والا دیوتا آلتی پالٹی مارے بیٹھا ہے ۔ ایک اور مہر پر اس کے ارد گرد چار جانور ہاتھی ، شیر ، گینڈا اور بھینس ہے ۔ دو ہرن اس کے تخت کے پاس بیٹھے ہیں ۔ دیوتا ننگا ہے اور آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے ۔ اس سر پر سینگ ہے یہ سینگ بھینس کے ہیں ۔ سینگوں کے درمیان کوئی پودا ہے یا مور کی کلغی ہے ۔ اس کا عضو استیادہ ہے ۔ یہ یقیناً ذرخیزی کا دیوتا ہے ۔ مارشل کا خیال ہے یہ شیو کی ایک پرانی شکل ہے ۔ یہ شیو کی ترمکھی مورتی سے ملتی جلتی ہے ۔ یہ دیوتا چہرے پر بھیانک تاثرت رکھتا ہے جو حاکم کے ہوسکتے ہیں ۔
مہریں
موہنجودڑو سے 1200 سے زائد مہریں ملی ہیں ۔ اوسط درجہ کی مہریں اتنی شاندار ہیں کہ دستکاری کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں ۔ عموماً مہروں پر جانوروں کی حقیقت پسندانہ شکلیں ہیں ۔ کہیں کہیں دیو مالائی شکلیں ہیں ۔ مثلاً اک سنگھا ۔ یعنی ایک ایسا گھوڑا جس ماتھے پر سینگ ہے ۔
ایک مقبول عام تصویر بیل کی ہے ۔ چھوٹے سینگوں والا بیل جس کے آگے کھرلی رکھی ہوئی ہے ۔ بڑے سینگوں والا بیل بھی عام ہے ۔ جس کی گردن پر گوشت کی چادر سی لٹکی ہوئی ہے ۔ ایک سینگ والے گینڈے کی کچھ تصویریں بھی ملتی ہیں ۔ یہ جانور اس زمانے میں یہاں موجود تھا ۔ شیر خاص کر لکیروں دار شیر ان مہروں میں نظر آتا ہے ۔ یہ بھی وادی سندھ کے جنگلوں میں ہوتا تھا ۔ ایک مہر پر ایک آدمی درخت پر بیٹھا ہے نیچے شیر کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ ایک آدھ مہر پر ہاتھی بھی بنایا گیا ہے ۔ گھڑیال کی شکل کئی مہروں پر نظر آتی ہے ۔ ایک مہر پر تین سینگوں پر والا اک سنگھا ہے ۔ سر ہرن کے ہیں اور بدن اک سنگھے کا ۔ ایک مہر پر چھ مختلف جانوروں کے سر ہیں ۔ جن میں اک سنگھا ، سانڈ ، مرگ (ہرن کی ایک قسم) اور شیر نظر آرہے ہیں ۔ باقی حصہ ٹوٹا ہوا ہے ۔ کسی مہر پر تین سر ہیں کسی پر دو ۔ ایک مہر پر پیپل کے درخت میں سے ایک اک سنگھے کے دوسرا اگ رہا ہے ۔ بعض مہروں میں انسان جانورں یا بلاؤں سے لڑ رہا ہے یا جانوروں کی خدمت میں ہے ۔ ایک جگہ ایک آدمی بھینس پر بھالے سے وار کررہا ہے ۔ دو مہروں پر تین سروں والا آدمی بیٹھا ہوا ہے ۔ جس کے بازو کندھوں تک چوڑیوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔
ان مہروں کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب کی سب دستخطی مہروں کی حثیت رکھتی ہیں ۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ عہدہ یا اٹھارٹی کے اظہار سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ افسروں کی سرکاری مہریں ، ٹھپے یا چانک ہیں ۔ تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے یہ مہریں گٹھڑیوں یا بوریوں پر ثبت کی جاتی تھیں اور اپنے وقت میں اس مہر ثبت کرنا بھی دنیاوی سے زیادہ مذہبی عمل تھا ۔ مہروں پر پیتل کے پتے مذہبی اہمیت کے ساتھ بنائے جاتے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔