وادی سندھ کی تہذیب
چوتھا مضمون
تجارت اور سکہ
وادی سندھ میں کپاس بھی کاشت کی جاتی ہے ۔ جس کا ثبوت موہنجودڑو سے ملا ہے ۔ اسی کپاس کے دھاگے سے بنے ایک کپڑے کا ٹکڑا بھی یہیں سے ملا ہے ۔ جس پر سرخ اور مجیٹھی رنگ چڑھایا گیا تھا ۔ آج بھی سندھی اجرک کے یہ مخصوص رنگ ہیں ۔ اس دور کے سامان تجارت کی ایک نہایت اہم شے کپاس تھی ۔ چاہے وہ روئی کی شکل میں ہوں ، دھاگے کی شکل میں ہو یا کپڑے کی شکل میں ۔ میسو پوٹیمیا کو یہاں کی کپاس برآمد کی جاتی تھی ۔ بکری وہی نفیس اون والی بکری تھی جو کشمیر میں تھی اور جس سے شالیں بنتی ہیں ۔لہذا وادی سندھ میں اونی لباس کا استعمال خارج امکان نہیں ۔ میسوپوٹیمیا جو وادی دجلہ و فرات کی تہذیب تھی اس کے وادی سندھ سے تجارتی تعلقات تھے ۔ فنون دستکاریوں کا تبادلہ ہوتا تھا ۔ اس کے نتیجے میں وادی سندھ کی تہذیب کے اثرات جمدت نضر کے زمانے کی تصویروں میں نظر آتے ہیں ۔ مثلاً ایک جگہ بیل کے جسم پر ہاتھی کی سونڈ لگی ہے ۔ یہ خالص وادی سندھ کی تصویر ہے ۔
تانبا بلوچستان اور راجستھان سے حاصل کیا جاتا تھا اور بہ افراط یہ میسر تھا ۔ قلعی (ٹن) مقامی چیز نہیں تھی یہ یقیناًبرآمد کی جاتی ہوگی ۔ سونے اور چاندی کے زیورات استعمال ہوتے تھے ۔ چاندی کے کچھ برتن بھی ملے ہیں ۔ سونا میسور ، قندھار اور ایرانی شہروں سے درآمد کیا جاتا ہوگا اور دریاؤں کے کنارے آباد نیاریئے بالو میں سے سونا نکالتے ہوں گے ۔ چاندی اجمیر اور جنوبی ہند میں سکے کے ساتھ مدغم تھی اور افغانستان و ایران میں تو وافر تھی ۔ جہاں سے یہ درآمد ہوتی ہوگی ۔ لاجورد ، یشب و یاقوت بھی زیوروں میں استعمال ہوتے تھے ۔ لاجورد بدخشاں (افغانستان) میں عام تھا ۔ بدخشاں کا علاقہ سندھ کی تہذیب کے دائرے تھا اور وہاں سے یہ پتھر لا کر ان کے زیورات بنائے جاتے تھے ۔ چنھودڑو میں لاجورد خام شکل میں ملا ہے ۔ جس سے منکے بنائے جاتے تھے ۔ زمرد شاید خراسان (ایران) سے لایا جاتا تھا اور یشب ترکستان یا برما سے درآمد ہوتا تھا ۔ یشب مقامی پتھر نہ تھا ۔ موہنجودڑو سے ایک یشب کی 4 1/2 انچ کی پیالی ملی ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ چین سے آتا ہو ۔ جہاں اس کے برتن بنانے کا رواج تھا ۔ یاقوت ہیرا پور (الہ آباد بھارت) سے آتا تھا ۔ یہ جگہ دریائے سندھ سے چار سو میل دور ہے ۔ سنگ مرمر مقامی چیز تھا ۔
وادی سندھ سے جو چیزیں میسوپوٹیمیا چیزیں جاتی تھیں ان تانبا ، ہاتھی دانت ، بندر ، موتی ، شامل تھے ۔ ہاتھی دانت کی کنگیاں ، بابلی تحریروں کے مطابق ’ ملوہہ ‘ سے منگائی جاتی تھیں ۔ ملوہہ کے بارے میں عام رجحان ہے کہ وہ وادی سندھ کا کوئی شہر تھا ۔ کوسامبی کا خیال ہے یہ موہونجودڑو تھا ۔ کیوں کہ موہنجودڑو سے ایسی ہی ایک کنگی ملی ہے ۔ ان کے علاوہ کپاس ، سوتی دھاگہ ، سوتی کپڑا اور اجرک بھی برآمد ہوتی تھی ۔ حیرت کی بات یہ ہے وادی سندھ سے شیشے کی چوڑی یا کوئی اور چیز نہیں ملی ہیں ۔ جب اس وقت کہ سمیری اور مصری شیشہ بنانا جانتے تھے اور ان ہاں اس کا رواج تھا ۔
اندرون ملک تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ دریائی کشتیاں تھیں یا بیل گاڑیاں ۔ تھورا بہت ثبوت اونٹ استعمال کرنے کا ملا ہے ۔ موہنجودڑو میں ایک اونٹ کا ڈھانچہ پندرہ فٹ گہرائی میں مدفون ملا ہے ۔ گدھے اور خچر کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے ۔ البتہ موہنجودڑو سے ایک گھوڑے کا ڈھانچہ ملا ہے ۔ جو اس تہذیب کے زمانہ عروج کے بعد کا ہے ۔ ان کے برعکس جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ بیل کی بے شمار تصویریں ، مجسمے اور بیل گاڑیوں کے سفالی اور تانبے کے ماڈل ہیں ۔ لہذا یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ تجارت کشتیوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتی ہوگی ۔ اس کے علاوہ سامان ڈھنونے والے مزدور یا غلاموں کا ثبوت شاہراؤں کے قریب بنے چند فٹ اونچے ستون ، پتھر کے ڈھیروں اور چھجوں سے دیا جاسکتا ہے ۔ جو سر سے گٹھڑی اتارنے کے کام آتے ہوں گے ۔
سمندر سفر بڑی کشتیوں یا لکڑی کے جہازوں پر ہوتا تھا ۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ کشتیوں کے ذریعہ اتنی زیادہ آمد و رفت کے باوجود صرف ایک برتن پر کشتی کی تصویر ملی ہے ۔ ایک مہر پر ایک تصویر میں کشتیوں کے درمیان ایک مربع شکل کا سرکنڈوں کا احاطہ ہے ۔ اس کے اندر ایک چبوترہ پر ایک ملاح گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا ہے ۔
وادی سندھ کے مال تجارت میں زرعی اشیاء کے علاوہ مویشیوں کا بھی وافر حصہ تھا ۔ ہڑپہ سے ملنے والی ہڈیوں کی کثیر تعداد سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ ان میں کوہان والا بیل جنہیں سانڈ کہتے ہیں پالتو جانور تھے ۔ اس طرح کوہان والا بیل بھی عام تھا ۔ سانڈ قدیم زمانے میں صرف ارض پاکستان سے ملا ہے ۔ دنیا کے دیگر حصوں میں کہیں نہیں ملا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے پالتوں جانورں میں بھینس ، بکری ، بھیڑ اور سور شامل تھے ۔ ان لوگوں میں کتا پالنے کا رواج بھی تھا اور بلی بھی پالی جاتی تھی ۔ ان دونوں کے کافی ثبوت ملے ہیں ۔کتے کی دو قسمیں تھیں ۔ ایک وہی جو آج بھی عام ہے ۔ دوسری بھڑیے کی نسل سے ماخوذ ہے ۔ گھوڑا اور گدھا بھی اس دور میں پایا جاتا تھا ۔ گھوڑا قدیم دور میں رانا غنڈئی میں ملا ہے ۔ ہڑپہ میں ہاتھی بھی تھا ۔ خاص طور پر اس کی دو قسمیں تھیں ۔ اعلیٰ قسم جسے بھارت میں ’ کومور یا ڈھنڈیا ‘ کہتے ہیں ۔ اس کی کمر سیدھی ، سر چوکور اور ٹانگیں مظبوط ہوتی ہیں ۔ دوسری قسم کو ’ میرگھا ‘ کہتے ہیں ۔ اس کمر ڈھلونی اور جثہ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے ۔
سکہ
وادی سندھ کے سکے چاندی کے ٹکرے ہوتے تھے ۔ جن پر کسی مہر کے ذریعے نشان بنادیا جاتا تھا ۔ ان سکوں کا ایک بڑا ذخیرہ کریم نگر (حیدرآباد دکن) سے ملا ہے ۔ وادی سندھ کے ذوال کے بعد بھی یہ سکے جو پن یا کرشاپن کہلاتے تھے ، ہندوستان میں بڑی مدت تک رائج رہے ۔ گوتم بدھ کے زمانے میں یہ سکے چلتے تھے ۔ سکندر جب ٹیکسلا پہنچا تو اسے یہی سکے نذر کئے گئے ۔ ایک زمانے میں ہندوستان کے قدیم ترین سکے سمجھے جاتے تھے ۔ لیکن ان کی اصلیت اسی وقت معلوم ہوئی ، جب دیکھا گیا کہ ان پر اسی زبان میں تحریریں اور ویسے ہی نشانات ہیں جسیے کہ وادی سندھ کی مہروں پر ۔ موہنجودڑو کے آثار میں وہ سانچے بھی ملے ہیں جن سے ان سکوں پر نشانات بنائے جاتے ہیں ۔ ڈی ڈی کوسامبی کا کہنا ہے کہ یہ سکے بعد کے پنیوں نے ڈھالے ہیں ۔ اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ موہنجودڑو یا ہڑپہ میں یہ سکے نہیں ملے ہیں ۔
تجارت
موہنجودڑو کے مال تجارت میں زرعی اشیاء کے علاوہ مویشیوں کا بھی وافر حصہ تھا ۔ ہڑپہ سے ملنے والی ہڈیوں کی کثیر تعداد سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ ان میں کوہان والا بیل جنہیں سانڈ کہتے ہیں پالتو جانور تھے ۔ اس طرح کوہان والا بیل بھی عام تھا ۔ اس کے علاوہ دوسرے پالتوں جانورں میں بھینس ، بکری ، بھیڑ اور سور شامل تھے ۔ کتا پالنے اور بلی بھی پالی جاتی تھی ۔ ۔ گھوڑا اور گدھا بھی اس دور میں پایا جاتا تھا ۔
وادی سندھ سے جو چیزیں میسوپوٹیمیا چیزیں جاتی تھیں ان تانبا ، ہاتھی دانت ، بندر ، موتی ، شامل تھے ۔ ہاتھی دانت کی کنگیاں ، بابلی تحریروں کے مطابق ’ ملوہہ ‘ سے منگائی جاتی تھیں ۔ ملوہہ کے بارے میں عام رجحان ہے کہ وہ وادی سندھ کا کوئی شہر تھا ۔ کوسامبی کا خیال ہے یہ موہونجودڑو تھا ۔ کیوں کہ موہنجودڑو سے ایسی ہی ایک کنگی ملی ہے ۔ ان کے علاوہ کپاس ، سوتی دھاگہ ، سوتی کپڑا اور اجرک بھی برآمد ہوتی تھی ۔
ذرائع آمد و رفت
ذرائع آمد و رفت میں ایک بہت بڑا زریعہ تو دریا اور کشتیاں تھیں ۔ اس کے علاوہ بیل گاڑیاں اور گھوڑا میدانی علاقوں میں ، پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں اونٹ استعمال ہوتا تھا ۔ غالباً سب سے بڑا ذریعہ بیل گاڑی تھی ۔ جس کے پیہے ٹھوس ہوتے تھے اور اس کا قطر تین فٹ چھ انچ ہوتا تھا ۔
اندرون ملک تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ دریائی کشتیاں تھیں یا بیل گاڑیاں ۔ تھورا بہت ثبوت اونٹ استعمال کرنے کا ملا ہے ۔ موہنجودڑو میں ایک اونٹ کا ڈھانچہ پندرہ فٹ گہرائی میں مدفون ملا ہے ۔ گدھے اور خچر کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے ۔ البتہ موہنجودڑو سے ایک گھوڑے کا ڈھانچہ ملا ہے ۔ جو اس تہذیب کے زمانہ عروج کے بعد کا ہے ۔ ان کے برعکس جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ بیل کی بے شمار تصویریں ، مجسمے اور بیل گاڑیوں کے سفالی اور تانبے کے ماڈل ہیں ۔ لہذا یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ تجارت کشتیوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتی ہوگی ۔ اس کے علاوہ سامان ڈھنونے والے مزدور یا غلاموں کا ثبوت شاہراؤں کے قریب بنے چند فٹ اونچے ستون ، پتھر کے ڈھیروں اور چھجوں سے دیا جاسکتا ہے ۔ جو سر سے گٹھڑی اتارنے کے کام آتے ہوں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔