وادی سندھ کی تہذیب
بارواں مضمون اور آخری مضمون
خاتمہ
موہنجودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح ذوال پزیر ہوا ۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست تھا ۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے ۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دارلحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہوگیا ۔ اس غربت کی وجہ کھیتوں کی ذرخیزی میں کمی یا آبپاشی کے نظام کا آہستہ آہستہ ناکارہ ہوجانا تھا یا اینٹوں اور برتنوں کے بھٹیوں میں جلانے کے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر ختم کردینا سمجھا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بارشیں کم ہوئیں اور خشک سالی ہوگئی ۔ لیکن موہنجودڑو کی کھدائی شدہ سطحوں میں کم از کم تین سیلابوں کا ثبوت ملا ہے ۔ جس سے شہر بالکل تباہ ہوگیا ۔ ہوسکتا ہے ایسی تباہی نچلے حصہ میں بھی آئی ہو ۔ ان سیلابوں نے جو مٹی بجھائی ہے اس کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مٹی ٹہرے ہوئے پانی کی ہے ، بہتے ہوئے پانی کی نہیں ۔ جس کا مطلب ہے دریا کے نچلے حصے کی زمین ارضیاتی تبدیلوں سے اوپر اٹھی دریا نے واپس حملہ کیا اور شہر غرق ہوگیا ۔ یہ طہ شدہ ہے کہ بار بار کے سیلابوں نے تباہی مچائی اور یہ ایک عنصر تھا ۔ لیکن تہذیب کی حتمی تباہی کسی عظیم طوفان نوح کی وجہ سے نہیں تھی ۔ بلکہ بار بار کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بتدریح تھی ۔
کچھ شواہد حملے اور قتل عام کے بھی ملتے ہیں ۔ چھ جگہوں سے لاشیں ملی ہیں ۔ جن میں پانچ جگہوں پر متعدد آدمی یکجا مرے اور ایک جگہ ایک اکیلا آدمی ملا ہے ۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ ایک عوامی کنواں ایک کمرے میں واقع ہے ۔ برابر کی گلی سے اونچی ہے اور گلی میں سے سیڑھیاںے اس کنویں کے کمرے میں اترتی ہیں ۔ ان سیڑھیوں پر دو آدمی مرے پڑے ہیں ۔ ایک عورت اور ایک ان میں سے ایک الٹا گرا ہے ۔ دو لاشیں گلی میں پڑی ہیں ۔ یہ شہر کے آخر زمانے کے لوگ تھے ۔ ایک لاش کمرے کے پختہ فرش پر پڑی تھی دوسری پختہ کمرے میں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کنواں اس وقت زیر استعمال تھا اور اسی وقت یہ لوگ مر کر گرے ہیں ۔ ان کے ڈھانچے مدفون حالت میں نہیں پائے گئے ہیں ۔ ایک گھر میں چودہ ڈھانچے ملے ہیں تیرہ مرد ایک عورت اور ایک بچہ ۔ ان میں سے کسی نے گنگن پہن رکھے تھے ، کسی نے انگوٹھیاں اور کسی نے منکوں کے ہار ۔ یہ لوگ یقیناًایک ہی حملے میں قتل ہوئے ہیں ۔ ایک آدمی کی کھوپڑی میں ۱146 ملی میٹر لمبا کٹاؤ ہے ۔ جو یقیناًتلوار یا خنجر کا زخم ہے ۔ بعض دوسری کھوپڑیوں پر تشدد کے آثار ہیں ۔ صاف پتہ چلتا ہے یہ لاشیں شہر کی آخری تباہی کے وقت کی ہیں ۔ ڈاکٹر جارج ایف ڈیلز میں1942 میں موہنجودڑو کی کھدائی میں پانچ ڈھانچے ڈھونڈے جو چاروں شانے چت پڑے تھے ۔ یہ گلی کے ایک کونے سے ملے ہیں ۔ ویلر کا خیال ہے شاید یہ لوگ حملے کے وقت چھپے ہوئے کھڑے تھے ۔ ان میں تین مرد ، ایک عورت اور ایک بچہ ہے ۔ ان کا زمانے بھی موہنجودڑو کا آخری زمانہ تھا ۔ ایک گلی میں چھ ڈھانچے ان میں ایک بچہ ملا ہے ۔ ایک گلی میں ایک ڈھانچہ ملا ہے ۔ ایک جگہ نو ڈھانچے ملے ہیں جو مڑے تڑے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کسی نے جلدی میں نو لاشیں گڑھے میں ڈال دی ہیں ۔ مگر ان کے پاس ہاتھی کے دو بڑے دانت ملے ہیں ۔ اس کا مطب ہے یہ ہاتھی کے دانت کا کام کرنے والا کنبہ تھا ۔ جو جلدی میں بھاگ رہا تھا کہ قتل ہوگیا اور کسی نے انہیں گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی ۔ یہ واحد شعوری طور پر دفن کئے گئے ہیں ۔ یہ بھی شہر کا آخری زمانہ ہے ۔ کل اڑتیس لاشیں اس افراتفری کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر میں قتل عام ہوا تھا ۔ قلعہ لاشوں سے پاک ہے ۔ ویلر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ دوسری ہزاروی قبل مسیح میں بلکہ اس کے وسط میں یعنی 1500 قبل مسیح میں آریاؤں نے حملہ کرکے اس شہر کو تاراج کیا ہوگا ۔
جب موہنجودڑو بتدریح ذوال پزیر ہوا ۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار نئے لوگوں کا معیار پہلے سے بہت پست تھا ۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے ۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دارلحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہوگیا اس غلاموں کی بغاوت کا لامتناہی سلسلہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے سندھ تہذیب اور سندھ سلطنت کو تباہ و برباد کردیا ۔ متفرق شہروں کے بار بار جلنے اور اس کے بعد کمتر دستکاری کے مروج ہونے کے بہت سے ثبوت آثار قدیمہ نے فراہم کئے ۔ یہ کمتر دستکار دیہی کمی تھے جو سماج کی پست ترین سیڑھی پر تھے ۔ یہ کوئی باہر سے آنے والی فاتح اقوام کے افراد نہیں تھے ۔ مقامی غلام تھے ۔ یہی وجہ ہے سندھ کا کوئی شہر یا قصبہ تباہ ہوتا تو اگلی مرتبہ کمتر ثقافت دیکھنے میں آتی ۔ کو بغاوتوں اور تجارتی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملوں اور شہروں پر کسانوں کے حملے ہونا فطری سی بات ہے ۔ ان روز روز کی بغاوتوں نے سلطنت کو بہت کمزور کردیا ۔ جگہ جگہ ریاستی مشنری شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی ۔ یہ صورت حال تھی جب آریاؤں کے وحشی قبائل مغرب سے داخل ہوئے اور ان کے پے درپے حملوں نے سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یہ ماننا پڑے گا کہ ذوال آمادہ تہذیب 1700 ق م میں آریاؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی ۔ مگر آریاؤں کا حملہ آخری عنصر کی حثیت رکھتا ہے ۔
ماخذ
یحیٰی امجد ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
پروفیسر محمد مجیب ۔ تاریخ تمذن ہند
ٹی ایچ سورلے گزیٹیر سندھ
ڈاکٹر معین الدین ، قدیم مشرق جلد دؤم
ڈی ڈی کوسمبی ۔ قدیم ہندوستان
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔