وادی سندھ کے بہت سے سربستہ رازوں میں سے سب سے دلچسپ راز وادی سندھ کا رسم الخط ہے ۔اسے پڑھنے کوششیں دنیا بھر کے ماہرین نے کی ہیں ۔لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ۔ وادی سندھ کی کل تحریریں 5000 سے بھی زائد ہیں ۔ جو مختلف مہروں ، ٹکیوں اور برتنوں پر ثبت ہیں ۔ ان میں سے بعض عبارتیں دہرائی گئی ہیں ۔ اس اعتبار سے کل عبارتیں 1500 سو ہیں ۔ ان عبارتوں میں بنیادی علامات 396 سو ہیں ۔ جو اپنے زمانے کے اعتبار سے خاصی مختصر ہیں اور زبان کے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت بھی ہیں ۔ اس رسم الخط کو پڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ دستیاب عبارتیں نہایت مختصر ہیں ۔ کوئی سی تحریر ایک آدھ جملے سے زیادہ نہیں ۔ سب سے طویل عبارت میں صرف سترہ علامتیں یا شکلیں ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاید بعض افراد کے نام ہیں یا قبیلوں کے نام یا خطابات یا کسی تجارتی ادارے یا مذہب (مندر) یا تجارت کے نام ہیں ۔
ٍٍ لوگ
وادی سندھ کے لوگ کون تھے ۔ وادی سندھ کے طول و عرض میں کون سی نسل یا نسلیں آباد تھیں ۔ اس بارے میں پرانا تصور ہے کہ یہ لوگ دراوڑ تھے ، مغربی ایشیاء سے آئے تھے اور تہذیب سندھ کے ذوال کے ساتھ ہی جنوب و مشرق کی طرف چلے گئے ۔ لیکن موجودہ نظریہ اس سے مختلف ہے ۔ اس میں اختلاف ان کی نسلی ساخت کے بارے میں ہے ۔ دراوڑ کہلانے کے بارے میں نہیں ۔ ان لوگوں کی نسل جاننے کے بارے میں دو بڑے ماخذ ہیں ۔
(۱) پتھر اور کانسی کے انسانی مجسمے
(۲) موہنجودڑو سے پچاس ڈھانچے اس دور کے ملے ہیں ۔
موہنجودڑو میں باقیدہ قبریں نہیں ملی ہیں ۔ پانچ جگہوں پر لاشیں یکجا ملی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ سب لوگ قتل ہوئے ہیں اور لاشیں اپنی جگہ پڑی پڑی مرود ایام سے دفن ہوگئیں ۔ ویلر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے باقیدہ قربرستان شہر کے مضافات میں کہیں ہوگا ۔ جسے اب تک کھودا نہیں گیا ۔ لیکن جو ڈھانچے اب تک ملے ہیں وہ آخری قتل عام کے مقتولین لگتے ہیں ۔ ان میں سے تین کاکیشائی )پروٹو آسٹریلائڈ( ہیں ۔ ان کے قد چھوٹے ، سر لمبوترے اور ناک چوڑی تھی ۔ ان کا نچلا جبڑا قدرے آگے کو بڑھا ہوا تھا ۔ ان کے علاوہ چھ ڈھانچے رومی یا ہند یورپی یا خضری یا کیپسیئن نسل کے ہیں ۔ (جو کہ ایک ہی نسل کے متفرق نام ہیں) ان کے سر لمبوترے ، مگر زیادہ نہیں ، ناک لمبائی میں کم ، تنگ اور اونچی تھی ۔ ان کے نقوش تیکھے اور نفیس تھے ۔ ان میں ایک مرد کا قد پانچ فٹ ساڑھے چار انچ ۔ ایک عورت کا قد 4 فٹ 6 انچ ہے اور ایک دوسری عورت کا قد 4 فٹ 4 1/2 انچ ہے ۔ چار ڈھانچے غالباً الپائن نسل کے ہیں اور ایک ڈھانچہ الپائن نسل کی منگولیائی شاخ کا تھا ۔ یہ واحد مرد یا تو کوئی مسافر تھا یا پردیسی ۔
زراعت اور درخت
اگرچہ وادی سندھ کی تہذیب تجارت و صنعت سے وابستہ متوسط طبقے کو ثابت کرتی ہے ۔ لیکن سندھ سلطنت کی بنیادی معیشت لازماً زرعی تھی ۔ بڑی اجناس گندم اور جوار تھیں ۔ گندم پتھر کے کھرل میں پتھر ہی کے موصل سے پیسی جاتی تھی اور جو لکڑی کی اوکھلی میں لکڑی ہی کے موصل سے جھڑے جاتے تھے ۔ مٹر ، خربوزے اور تل بھی ہوتے تھے ۔ موہنجودڑو میں کچھ پتھر کی کجھوریں اور پتھراہی گھٹلیاں ملی ہیں ، برتنوں پر بنے درختوں میں کھجور کا درخت ، ناریل کا پھل ، انار اور کیلا بھی دیکھائی دیتا ہے ۔ موہنجودڑو سے تانبے اور چاندی کی اشیاء کے ساتھ سوتی کپڑے کا ٹکڑا بھی ملا ہے ۔ موہنجودڑو سے پٹ سن کا ریشہ بھی ملا ہے ۔ لہذا پٹ سن کی رسیاں اور بوریاں عام استعمال ہوتی تھیں ۔ ایک جگہ مچھلی پکڑنے کا کانٹا اور اس کے ساتھ پٹ سن کا ریشہ لپٹا ہوا تھا ۔
جانور
کتے ، بیل ، گائے اور بھینس عام پالے جاتے تھے ۔ بعض جگہوں پر سور کی ہڈیاں ملی بھی ہیں ۔ گھوڑے بھی تھے ۔ گدھے اور خچر کو بھی شامل سمجھنا چاہیے ۔ بلی یقیناًپالی جاتی ہوگی ۔ کیوں کے اناج کے وسیع ذخیروں کو چوہوں سے بچانا ضروری تھا ۔ دوسرے جانوروں یا پرندوں کے وجود کے جو ثبوت ملے ہیں ۔ ان میں خرگوش ، بندر ، فاختہ ، طوطے ، وغیرہ شامل ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے مٹی کے پنجرے ملے ہیں ۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھنکارنے والے جھینگر اوردوسرے موسیقار کیڑے پالے جاتے تھے ۔ جیسا کہ چین میں رواج تھا ۔ جنگلی جانوروں میں سانڈ ( بائی سن ) گینڈے ، شیر ، سانبھر ہرن ، چتکبرا ہرن ، پاڑا ہرن وغیرہ عام تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔