1921 کا واقع ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند آثار پائے ۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے ۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی ۔ محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف طوجہ دی ۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی ، ڈئرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا ۔ تاہم کھدائی کا کام مکمل نہیں ہوسکا ۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے ۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922 میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔ موہنجودڑو کے کھنڈرات دوکری سے کوئی نو میل کے فاصلے پر لاڑکانہ کی حدود میں واقع ہے ۔
موہنجودڑو کا عمومی پلان ہڑپہ جیسا ہی تھا ۔ شہر کے مغرب میں قلعہ ہے ۔ شہر کی گلیوں کی ترتیب و مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں ۔ البتہ یہاں کی منفرد اور سب سے نمایاں چیز بڑا اشنان گھر ہے ۔ بڑا غسل خانہ ، بڑی باؤلی یا عظیم حمام ۔ یہ ایک بڑی سی عمارت ہے ۔ جس کے وسط میں ایک بڑا سا تالاب ہے ۔ یہ تالاب شمالاً جنوباً 39 فٹ لمبا اور شرقاً غرباً 23 فٹ چوڑا اور آٹھ فٹ گہرا ہے ۔ شمال اور جنوب دونوں دو سمت سے اینٹوں کے زینے اندر اترتے تھے ۔ جن پر لکڑی کے ٹختے چپکا دیئے گئے تھے ۔ تالاب کی چار دیواری کی بیرونی سمت پر بھی لک )بچومن( کا لیب کیا گیا ہے ۔ لک ہائیدرو کاربن کا قدرتی طور پر نکلنے والا مادہ ہے اور فطرت میں مختلف حالات میں دستیاب ہے ، جو اس وقت بھی تھا ۔ لک کے لیپ سے تالاب میں سے پانی کے رسنے کا سد باب کیا گیا ہے ۔
اسی طرح موہنجودڑو تو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا ۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرح دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ (جسے نارا کہتے ہیں) بہتا تھا ۔ یہ آگے جا کر واپس دریا میں مل جاتا تھا ۔ اسی لئے شہر کی حفاظت کے لئے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھا گیا تھا ۔ موہنجودڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے ۔ سیلاب کی لائی ہوئی گاد سے اس شہر کی سطح زمین سے تیس فٹ بلند ہوگئی ۔
ہم جب موہنجودڑو جیسا عالی شان شہر دیکھ تے ہیں ۔ جس کے مکانات پختہ اور مظبوط ، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں ۔ ان میں سڑکیں ہیں ، بازار ہیں ۔ ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ عجیب بات موہنجودڑو کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں ۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے ذوال آتا رہا ۔
قلعہ اور شہر
موہنجودڑو میں قلعہ اصل شہر اندر ایک منفرد اور ممتاز حثیت رکھتا تھا ۔ جس کے ارد گرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں قلعہ اور شہر اور قلعے کے درمیان ایک واضح خلا ہے ۔ ہوسکتا ہے قلعہ کے ارد گرد وسیع اور گہری خندق ہو ۔ جس میں پانی چھوڑا گیا ہو یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو ۔
موہنجودڑو کا قلعہ ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ جو جنوب میں سطح زمین سے بیس فٹ اونچا ہے اور شمال میں چالیس فٹ ۔ آج کل دریائے سندھ کی ایک شاخ اس سے تین میل کے فاصلے پر بہتی ہے ۔ جب یہ شہر آباد تھا اس وقت قلعے کی مشرقی دیوار کے پاس سے دریا کی ایک شاخ گزرتی تھی ۔ مغربی جانب جو حفاظتی بند تھا ۔ اس سے ایک میل دور دریا تھا ۔ قلعہ ایک چبوترے پر واقع ہے ۔ چبوترہ مٹی اور کچی اینٹوں سے بنایا گیا تھا ۔ جس زمانے سے اناج گھر اور اشنان گھر تعلق رکھتے ہیں ۔ اس کے نیچے بھی کئی دور رہائش کے مدفون ہیں ۔ مگر زیر زمین پانی کی سطح اونی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کھدائی نہیں ہوسکی ۔ تاہم جو کچھ ہوسکا ہے اس کے مطلق اوپر سے نیچے تک سات سطحیں ملی ہیں ۔ ساتویں سطح سے نیچے ابھی تک کھدائی نہیں ہوسکی ۔ چھٹی اور ساتویں سطح کے درمیان بیس فٹ موٹی تہہ مٹی اور اینٹ کے روڑوں کی بچھائی گئی ہے ۔ گویا پرانا شہر سیلاب سے تباہ ہوا یا سیلاب آیا تو پورے شہر کے اوپر بیس فٹ اونچا چبوترہ بنا کر نیا شہر تعمیر کیا گیا ۔ موہنجودڑو کے قلعے کے جو برج بنائے گئے ہیں ، ان میں بعض جگہ لکڑی کے شہتیر کا ردا لگایا گیا ہے ۔ جو نو فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا ہے ۔ لیکن بعد میں یہ شہتر گل گئے تو کہیں کہیں اینٹوں کی مرمت کردی گئی ۔ شہتیروں کا یہ عجیب و غریب استعمال ہڑپہ کے اناج گھر میں بھی کیا گیا ہے ۔ بعد میں آنے والے معماروں نے یہ طریقہ ترک کردیا ۔ دو برج ایک چور دروازے کے دائیں بائیں بنائے گئے تھے ۔ بعد میں یہ چور دروازہ بند کردیا گیا اور یہاں فصیل تعمیر کردی گئی ۔ اس فصیل کے اوپر دونوں طرف قد آدم دیواریں بنا کر دونوں برجوں کے یہ چور دروازے کو بند کردیا گیا ۔ اس جگہ سے مٹی کے 100 باٹ ملے ہیں ۔ جن میں کچھ چھ اونس وزن کے ہیں اور باقی ماندہ بارہ اونس کے )بالترتیب ایک پاؤ اور آدھا سیر( قلعے کے جنوب میں ایک برج ہے اور اس کے قریب عقبی دروازہ ہے ۔ موہنجودڑو قلعے کا دفاعی نظام ہڑپہ کے قلعے سے زیادہ پیچیدہ ہے ۔
عظیم تالاب
اشنان گھر کے فرش کو پانی بند بنانے کے لئے فرش کے نیچے کھڑیا مٹی )جپسم( کا گارا لگا کر اس کے بغل کے بل اینٹیں کھڑی جوڑی گئی تھیں ۔ کھڑی اینٹوں کے درمیان کھڑیا مٹی کا گارا لگایا گیا تھا ۔ کھڑی اینٹوں کے اس فرش کے اوپر لک کی ایک موٹی تہہ بچھائی گئی تھی ۔ اس کے اوپر پختہ اینٹیں چن دی گئی تھیں ۔ دیواروں میں بھی یہی اصول اپنایا گیا تھا ۔ تالاب کی اندرونی سمت پختہ اینٹوں کی دیوار ۔ اس کے پیچھے آخر میں اینٹوں کی چنائی ۔ جنوب مغربی کونے پر پانی کی نکاس کی ایک خوبصورت زاغ بند قد آدم نالی تھی ۔ اس تالاب کے ارد گرد ایک غلام گردش چلی گئی ہے ۔ جس کے تین اطراف میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں اور ایک سمت برآمدہ ہے ۔ ایک کمرے میں ایک کنواں ہے ۔ جس سے پانی نکال کر مذہبی غلام تالاب کو بھرتے ہوں گے ۔ شمال میں ایک جانب ترتیب کے ساتھ آٹھ غسل بنائے گئے تھے ۔ چار چار غسل خانوں کی دو قطاریں آمنے سامنے تھیں ۔ ان کے پختہ فرش تھے اور سائز 9 1/2 235 6 فٹ تھا ۔ ان کی دیواریں بہت موٹی تھیں اور کمروں کے اندر سے پختہ اینٹوں کے زینے اوپر جاتے تھے ۔ دیواروں کی صخامت اس بات کا ثبوت ہے کہ اوپر ایک منزل اور تھی ۔ گویا ان غسل خانوں کے اوپر رہائشی کمرے تھے یا لباس تبدیل کرنے کے کمرے ۔ ہوسکتا ہے کہ پچاری اوپر رہتے ہوں گے اور نیچے کے غسل خانے ان کے زیر استعمال ہوں گے ۔ جب کہ عوام تالاب میں غسل کرتے ہوں گے ۔ ماہرین آثار کا خیال ہے یہ غسل خانے صاحب اقتدار مذہبی پیشواؤں کے قبضے میں تھا اور عوامی سے زیادہ سرکاری اشنان گھر معلوم ہوتا تھا ۔
اناج گھر
تالاب کے مغرب میں ایک ایسی عمارت ملی ہے جس کا فرش زمین فرش پانچ فٹ اونچا تھا اور اس کے نیچے پختہ دمدمے بنا کر ان کے درمیان میں ہوا کے گزرنے کے رستے بنے ہوئے تھے ۔ یہ ہوا دن بھر بل کھا کر دیواروں کے اندر چلے گئے تھے ۔ یقینی طور پر یہ گرم حمام تھا ۔ جس کے فرش کے نیچے اور ارد گرد کی دیواروں کے اندر بنے ہوا دانوں میں گرم ہوا گھومتی تھی ۔ 1950 میں اس گرم حمام کی پوری عمارت ہٹادی گئی اور اس کے نیچے کھدائی میں ایک بڑا اناج گھر نکل آیا ۔ اس کا طول بلد شرقاً غرباً 150 فٹ اور عرض شمالاً جنوباً 75 فٹ تھا ۔ اس عمارت کے 27 حصے تھے اور اناج گھر کے فرش کے نیچے ہوا گزرنے کے ہوا دان بنائے گئے تھے ۔ فرش اور دیگر تعمیرات میں لکڑی کا وافر استعمال کیا گیا تھا ۔ اناج گھر اشنان گھر سے قدیم تر عہد سے تعلق رکھتا ہے ۔ اناج گھر کے جنوب میں ایک بہت بڑا زینہ ملا ہے ۔ جو 22 فٹ چوڑا ہے ۔ یہ زمین سے شروع ہو کر قلعے کی سب سے اونچی سطح تک جاتا ہے ۔ یہ زینہ اناج گھر کا ہم عصر ہے ۔ زینے کے گھر کے قریب ایک کنواں ہے ۔ اس سے آگے چند دیواروں کے اندر بہت سے کنویں ہیں ۔
اہم عمارتیں
اشنان گھر کے شمال مشرق میں ایک طویل عمارت ہے ۔ جو 230 235 78 فٹ ہے ۔ اس کے وسط میں 33 مربع فٹ صحن بھی ہے ۔ اس میں تین برآمدے کھلتے ہیں ۔ چاروں طرف بیرکوں کی طرح سے کمرے بنے ہوئے ہیں ۔ اکثر کمروں کے فرش پختہ اینٹوں کے ہیں ۔ اس عمارت کو شاہی محل یا بڑے بچاری کا گھر سمجھنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اس کا طرز تعمیر رہائشی مکانوں جیسا نہیں ہے ۔ اس لئے کھدائی کرنے والوں نے اسے کالج کا نام دیا تھا ۔ جب تک مزید کھدائی سے اس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ یہ عمارت کیا تھی اور اس کا مقصد کیا تھا ۔
اشنان گھر اور کالج کے جنوب میں ایک اور اجتماعی مقصد کی عمارت ملی ہے ۔ جو بعد میں تبدیل کردی گئی ہے ۔ لیکن ابتد میں یہ ایک بہت بڑا مربع شکل کا ہال تھا ۔ جس کا ہر مربع 90 فٹ کا تھا ۔ اس کے اندر اینٹوں سے بیٹھنے کی نشتیں تعمیر کی گئی ہیں ۔ پورے ہال میں گزرنے کے پانچ رستے ہیں ۔ ہر دو رستوں کے درمیان نشتوں کی چار قطاریں ہیں ۔ ہر قطار میں پانچ نشتیں ہیں ۔ یا تو ان کے اوپر لکڑی کی خوبصورت نشتیں لگائی گئی تھیں یا انہی پر ہی سامعین بیٹھے تھے ۔ یہ کل ایک سو نشتیں ہیں ۔
موہنجودڑو میں ایک ایسی عمارت ملی ہے ۔ جو اگرچہ رہائشی قسم کی ہے مگر بہت بڑی ہے ۔ یہ شرقاً غرباً 250 فٹ لمبی ہے ۔ یقیناً یہ ایک محل ہے ۔ بیرونی دیوار 3 1/2 فٹ سے لے کر 7 فٹ تک موٹی ہے ۔ اس میں دو بڑے صحن ہیں ۔ جن کو ایک پانچ فٹ چوڑی غلام گردش آپس میں ملاتی ہے ۔ اس کے ایک سرے پر 8 فٹ چوڑا دروازہ ہے ۔ گھر کے دو مختلف کمروں میں کنویں تھے ۔ ایک کمرے میں ایک گول تنور تھا ۔ اس کا قطر تین فٹ آٹھ انچ اور اونچائی 3 1/2 فٹ ہے ۔ اس کی شکل موجودہ تنوروں سے جیسی ہے ۔ محل میں چار زینے اوپر جاتے تھے ۔
شہر میں ایک اور پبلک بلڈنگ ملی ہے ۔ جو یا تو مسافروں کے ٹہرنے کے لئے سرائے تھی یا پھر ترتھ یاتریوں کے ٹہرنے کے یاتری استھان تھی ۔ اصل عمارت ایک بہت بڑے ہال پر مشتمل ہے ۔ جو انگریزی کے حروف ایلL کی شکل کا ہے ۔ اس ہال کی دیواروں کے باہر ارد گرد اینٹوں کے ستون بنے ملے ہیں ۔ جن کے اوپر غالباً برآمدے کی چھت ڈالی گئی تھی ۔ جو ہال کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی ۔ جنوب مشرقی کونے پر ایک چار فٹ گیارہ انچ چوڑا دروازہ گلی میں کھلتا تھا ۔ بعد میں یہ دروازہ بند کرکے شمالی جانب مرکز میں دیوار کاٹ کر ایک دروازہ نکلا گیا تھا ۔ اس کے قریب ایک رستہ پانی کے نکاس کا بنایا گیا تھا ۔ جو زمین دوز سفالی پائپ سے ملحق تھا ۔ ہال کے ایک کونے میں ایک فلیش سسٹم بیت الخلا بنایا گیا تھا ۔
ایک اور بڑی عمارت ملی ہے ۔ 87 235 64 1/2 فٹ ہے ۔ اس میں کچھ کمرے تو اندر صحن میں کھلتے ہیں جو رہائشی معلوم ہوتے ہیں اور کچھ باہر گلی میں کھلتے ہیں ۔ ان کے فرش پختہ اینٹوں کے ہیں اور نہایت عمدگی سے بنائے گئے ہیں ۔ باہر کا ایک بہت بڑا کمرہ ایسا ہے جس میں پانچ گول مخروطی گڑھے اینٹوں سے بنائے گئے ۔ ان میں کڑاہ یا دوسرے برتن جو دھات کے ہوں گے ٹکائے جاتے ہوں گے ۔ یا تو یہ کوئی ریستوان ہوگا یا رنگریز کا کارخانہ ۔
ایک اور اجتماعی نوعیت کی عمارت ملی ہے جو 52 235 40 فٹ ہے ۔ اس کی دیواریں چار فٹ موٹی ہیں ۔ اس کا دروازہ جنوب کی طرف سے ہے ۔ جس میں دو متوازی سیڑھیاں اوپر چڑھتی ہیں ۔ جو مرکز میں آ کر مل جاتی ہیں ۔ دروازہ بہت بڑا ہے ۔ اس عمارت کے اندر صحن میں اینٹوں کا ایک دائرہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ جس کا اندونی قطر چار فٹ ہے ۔ ماہرین آثار کا خیال ہے کہ یہ کسی درخت کے گرد حفاظتی حصار ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ درخت مقدس تھا اور یہ عمارت اس مقدس درخت کا مندر تھی ۔ شاید پیپل مندر ۔ اس عمارت کے مختلف حصوں میں سفید چونے کے پتھر کے بنے ہوئے ایک بڑے مجسمے کے تین ٹکڑے ملے ہیں ۔ ان کو جوڑیں تو مجسمہ مکمل ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک بیٹھا ہوا آدمی ہے ۔ مجسمے کی مکمل اونچائی 16 1/2 انچ ہے ۔ اس داڑھی ہے مگر موچھیں منڈی ہوئی ہیں ، بال اکٹھے کرکے سر کے پیچھے ان کا جوڑا بنایا ہوا ہے اور ایک باریک مینڈھی گوند کر سر کے ارد گرد باندھی گئی ہے ۔ جو آگے ماتھے کے اوپر سے گزرتی ہے ۔ اگر مینڈھی نہیں تو کپڑے کی باریک پٹی ہے جو باندھی گئی ہے ۔ اس آدمی نے دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھے ہوئے ہیں ۔ ایک قدر اونچا ہے اور دوسرا نیچا ۔ آنکھوں کے اندر غالباً موتی جڑے گئے تھے جو بعد میں گر گئے ۔
اس عمارت کی دیواریں موٹی ، دروازہ عظیم الشان مگر رقبہ مختصر ہے ۔ ہوسکتا ہے صحن میں موجودہ مددر حصار کے اندر یہی مجسمہ رکھا ہو ۔ مجسمے کا سر گول حصار کے قریب ہی سے ملا ہے ۔ بہر حال کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔
موہنجودڑو میں ایک اور عمارت پر مندر ہونے کا شبہ کیا گیا ہے ۔ اس کی بیرونی دیواریں ۲/۱ چار فٹ موٹی ہے اور آٹھ دس فٹ انچائی محفوظ ملی ہے ۔ اس کے اندر کچھ اینٹوں کے چبوترے بنے ہوئے ہیں ۔ یہ یا تو ان کے اوپر ستون تعمیر کئے گئے تھے ۔ جن پر کوئی زبردست عمارت کھڑی تھی ۔ یا پھر ان کا دوسرا کوئی مقصد بھی ہوسکتا ہے ۔ عمارت کے وسط میں صحن ہے ۔ جو 23 235 19 فٹ سائز کا ہے ۔ دو چھوٹے صحن اس بڑے صحن کے شمال اور جنوب میں ہیں ۔ جنوبی صحن میں ایک کنواں ہے ۔
ایک نہایت دلچسپ عمارت شہر کے شمال مغربی کونے پر ہے ۔ اس میں آمنے سامنے دو قطاروں میں چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں ۔ جن کی تعداد سولہ ہے ۔ ان سولہ کمروں میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک اندرونی کمرہ ہے ۔ گویا کل چوبیس کمرے ہیں ۔ ہر بیرونی کمرے کے مقابلے میں اندرونی کمرے کا رقبہ دگنا ہے ۔ سولہ کمروں میں سے ہر ایک میں ایک کونے میں پانی کا کھرا بنایا گیا ہے ۔ دیوار میں پانی کی نکاسی کے سوراخ ہیں ۔ ویلر اور دوسرے ماہرین کا خیال ہے اندرونی کمرہ بیڈ روم تھا ۔ لگتا یہ غلاموں کی بیرکیں تھیں ۔ پہلے اس عمارت پر مندر کا شبہ کیا گیا تھا ۔ مگر یہ بہت بڑی ہے ۔ تو پھر ان بیرکوں کا غلاموں کی رہائش گاہ ہونا اور بھی یقینی ہوجاتا ہے ۔ ان بیرکوں دیواریں بہت پتلی ہیں ہیں ۔ اس کا مطلب ہے یہ ایک منزلہ تھیں ۔ ان کے پاس ایک کنواں ہے ۔
شہر کا کچھ حصہ ابھی تک کھودا گیا ۔ خاص طور پر بدھ اسٹوپہ جوں کا توں کھڑا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے نیچے کچھ ایسی اہم عمارتیں یا زیادہ اہم مواد مل جائے جو ہمارے علم میں اضافہ کرے ۔ بہر حال اس کی کھدائی ضروری ہے ۔
قلعہ کے اندر رہائشی گھر بھی ملے ہیں ۔ قلعہ ، اشنان گھر کالج اور بڑے حال کے پیش نظر رکھیں تو یہ یقین کرنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ شہر یا تو مذہبی مرکز تھا یا دارلحکومت یا دونوں ۔ اجتماعی غسل کے بعد میں بھی اس علاقے کے لوگوں کا سماجی اور مذہبی زندگی کا رہا ہے ۔ ہرشہر میں چند ایسی باولیاں بنی ہوتی تھیں ۔ جن میں لوگ مذہبی فریضہ کے طور پر نہاتے ۔ باولی ایسے کنویں یا تالاب کو کہتے ہیں جس میں زینہ اترتا ہو ۔ موہنجودڑو کا عظیم اشنان گھر بھی اپنے وسط میں ایک وسیع عریض باولی رکھتا تھا ۔
موہنجودڑو کے قلعے کے مشرقی جانب پہلے تو کافی ساری جگہ خالی ہے جہاں کسی آبادی کے آثار نہیں ۔ یہاں غالباً دریائے سندھ کا کوئی شاخ بہتی ہوگی یا نہر بنائی گئی ہوگی ۔ اس سے پھر آگے ٹیلے ہیں جن کے نیچے تعمیرات کے آثار ملے ہیں ۔ یا تو یہ بھی رہائشی علاقہ تھا اور اگر نہیں تو کم از کم یہاں دریا سے حفاظت کے لئے بڑے بڑے پختہ اینٹوں کے پشتے بنائے گئے تھے اور ان سے سیڑھیاں نیچے دریا کی موجودہ سطح تک اتری چلی جاتی ہوں گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔