مٹی کی بہت ساری مورتیاں ملی ہیں ۔ جن میں انسانی مورتیاں بھی ہیں اور حیوانی مورتیاں بھی ۔ ان پر عموماً سرخ رنگ چڑھایا گیا ہے اور بعض پر پالش کی گئی ہے ۔ ان کی تفصیل یہ ہے ۔
(۱) ایک مرد کی مورتی جس کی داڑھی موچھیں صاف ہیں ۔ اس کی ناک لمبی ، آنکھیں بڑی اور ابھری ہوئی اور ٹھوڑی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ویلر کا خیال ہے کہ یہ سامی النسل مرد کی شکل ہے ۔ لیکن یہ مقامی کلی مورتیوں جیسی ہے ۔
(۲) ایک عورت کی مورت جس نے بال سنوانے کے بعد سر پر تاج پہن رکھا ہے اور ایک مختصر سی دھوتی جو جانگیے سے زیادہ لمبی نہیں ہے پہن رکھی ہے اور گھٹنوں سے کافی اوپر ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ ایسے نقوش ، وضع قطع اور لباس والی مورتیاں اکثر مل جاتی ہیں ۔ یہ نمائندہ مورتی ہے اور دیوی ماں بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے سر پر جو تاج ہے اسے چراغ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو ۔ کیوں کہ اس میں دونوں طرف پیالہ نما بناوٹ ہے ۔
(۳) مٹی کی بہت سی مورتیاں مضحکہ خیز ہیں اور مذہبی مجسموں سے زیادہ کھلونے معلوم ہوتے ہیں ۔ ان کا چہرہ تفصیلات سے خالی ہے اور نہایت مضحکہ خیز ہیں ۔ اس میں مقامی نقوش کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔
(۴) دیوی ماں کی مورتیاں ۔ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ ان مورتیوں میں ایک ایسی عورت کی شبیہ ہے ۔ جس نے ہار اور گلوبند پہن رکھے ہیں ۔ گلے میں یکے بعد دیگر کئی گلوبند ہیں ۔ ہار ناف تک پہنچتے ہیں اور سر پر تاج ہے ۔ ان مورتیوں کے نقوش وہی ہیں ، جو دیگر مورتیوں کے اور وہی مقامی رنگ ہے جو قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے ۔
(۵) کافی ساری زنانہ مورتیاں کو گھریلو کام و کاج کرتے دیکھایا گیا ہے ۔ مثلاً آٹا گوندھتی ہوئی عورت ۔
(۶) حیوانی مورتیوں میں زیادہ تر چھوٹے سینگوں والے بیلوں کی مورتیاں ہیں ، بھینس بھی ہے اور گائے مفقود ہے ۔ اس کے علاوہ بندر ، ہاتھی ، سور ، گینڈا ، اکا دکا بھیڑ اور کتا بھی مورتی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ موہنجودڑو سے گھوڑے کا مجسمہ بھی ملا ہے ۔ جانوروں کے دیومالائی مجسمے بھی ملے ہیں ۔ مثلاً چہرہ داڑھی والے مرد کا اور بدن کسی جانور کا ۔ اس کے سینگ بھی بنائے گئے ہیں ۔ یہ تمام مجسمے ہاتھ کے بنائے گئے ہیں اور ان کے لئے سانچے کا استعمال کم نظر آتا ہے ۔ ان میں بیشتر مجسمے سادہ اور مہارت سے خالی ہیں ۔ ان میں ایک پر بکری کا شبہ ہوتا ہے ۔ لیکن جن میں مہارت نظر آتی ہے وہ انتہائی درجہ کی ہے ۔ مثلاً بھینس اور گائے کے مجسمے میں مہارت کمال کی ہے ۔
(۷) مٹی کی بنی بیل گاڑیاں ، ان کے پہیے ٹھوس ہیں ۔ ان کے پہیے جیسا کے پہلے ٹھوس لکڑی کے ہوتے تھے ۔ یہ سب کھلونے ہیں ۔ ان میں سے بعض کے سر علیحدہ بنا کر جوڑے گئے ہیں ۔ جو ایک دھاگے کے ذریعے بیل گاڑی کے لیور سے بنائے جاتے تھے اور کھلونے کو ایک دھاگے سے باندھ کر بچے کھینچتے ہوں گے تو لیور کے زمین کے ٹکرانے سر ہلتا ہوگا ۔
برتن
موہنجودڑو کے مٹی کے برتن عموماً چاک پر بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس تہذیب کے سارے عرصے میں ہمیشہ ایک قلیل تعداد برتنوں کی ہاتھ سے بنتی رہی ہے ۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی جو اونچے پائیدان پر جڑی گئی ہے ۔ اسے عموماً اسے چڑھاوے کا پائدان کہا گیا ہے ۔ منقوش برتنوں میں سرخ زمین پر سیاہ نقاشی کی گئی ہے ۔
ان پر جو سجاوٹی نمونے بنے ہیں ۔ ان میں ایک تو دائرے کا کاٹتا ہوا دائرہ ہے ۔ جس کی تکرار سے ایک جال سا بن جاتا ہے ۔ ۔ دوسرے جانوروں کی تصویریں ۔ بعض برتنوں پر مور کی شکل ہے ، جو برتن کے اوپر کے حصے میں نظر ہوتی ہے ۔ اس سے مور کی تعظیم کا احساس ہوتا ہے ۔ بکری کی شکلیں بہت کم ہیں ۔ مچھلی کی شکلیں بھی برتنوں پر نظر آتی ہیں ۔ انسانی شکل کم ہی نظر آتی ہیں ۔ ایک جگہ ہرنی اپنے بچے کو دودھ پلارہی ہے ۔ ہرنی کی کمر پر ایک پرندہ بیٹھا ہے اور پس منظر میں ایک مچھلی ، نرسل کے کچھ پودے اور دوسری چیزیں نظر آرہی ہیں ۔ پیپل کا بھی ملتا ہے اور تین پتیوں والا گلاب کا پھول بھی ۔ ایک برتن کے ایک ٹکڑے پر ایک آدمی اور اس کا بچہ ہے ، دونوں نے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں اور ان کے ساتھ پرندے اور مچھلیاں ہیں ۔ ایک اور جگہ ایک آدمی نے مچھلیاں پکڑنے کے دو جال ایک لاٹھی پر لکائے ہوئے ہیں اور لاٹھی کندھوں پر لاد رکھی ہے ۔ قریب ہی ایک دوسرا آدمی ہے ۔ درمیان میں مچھلیاں اور ایک کچھوا نظر آرہا ہے ۔
کچھ برتن ایسے بھی ہیں جن پر کثیر رنگی مصوری کی گئی ہے ۔ پہلے برتن پر زرد پانی چڑھایا گیا ، پھر اس پر سبز اور سرخ رنگ میں تصویریں بنائی گئیں ہیں ۔ کہیں زرد زمین پر کالے ، سفید اور سرخ رنگ میں پرندے اور جانور بنائے گئے ہیں ۔ ان تمام برتنوں کے بنانے رنگنے اور مصور کرنے کی تیکنک نہایت پیچیدہ اور ماہرانہ ہے اور اکثر برتنوں پر روغنی تہہ چڑھائی گئی ہے ۔ بعض برتنوں پر ایسی مہر کندہ کی گئی جو یا تو کارخانے کا نام ہیں یا تو یہ برتن کے مالک کا نام بھی ہوسکتا ہے ۔ جس کے حکم سے یہ برتن بنائے گئے ہیں ۔ یہ آبخورے ہیں اور ان کا پیندا ہے ۔ یہ پیندے پرکھڑے نہیں ہوسکتے ہیں ۔ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ملے ہیں کہ شاید ایک دفعہ استعمال کرکے پھینک دیئے جاتے ہوں گے ۔ ہڑپہ سے دس برتن ایسی مہروں والے ملے ہیں ۔ ایک عجیب و غریب برتن عمودی کناروں والا گول کم چوڑا مگر بہت لمبا برتن تھا ۔ جس کا سارا بدن سوراخوں سے چھلنی ہے ۔ یہ یا تو دودھ دہی مکھن نکال نے کے سلسلے میں یا پھلوں کا رس نکالنے کے کام آتا ہوگا یا مذہبی آگ جلانے خاص کر لکڑیوں کو سلگتے رکھنے کے کام آسکتا تھا ۔ ایک دو جگہ راکھ کے پاس ملا ہے ۔ کچھ مرتبان ، پائدان والے پیالے ، پائدان والی طشتریاں اور ڈھکن دار روٹی دان بھی ملا ہے ۔ آخری دنوں میں یہی برتن طشتری نما سے پیالہ نما بن جاتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ان برتنوں کی اور ان پر بنی سجاوٹی تبدیلی آجاتی ہے ۔
منکے
وادی سندھ میں منکے اور ہیت میں کثیر النوع ہیں ۔ سونے ، چاندی ، تانبے کانسی ، روغنی مٹی ، صابن پتھر ، قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور گھونگے سیپی اور مٹی سب چیزوں سے منکے بنائے جاتے تھے ۔ سب سے زیادہ منکے پتھر کے بنے ہوئے ملے ۔ ٹھوس پتھر سے تراشنے کے علاوہ صابن پتھر کو پیس کر اس کے سفوف کو پانی میں گوند کر بھی بنائے جاتے تھے ۔ منکوں کو بنانے کے طریقے بھی بہت سے تھے ۔ چیرنے ، تراشنے ، رگڑنے ، ، چھیدنے ، برمانے اور کاٹنے کے سب طریقے برتے جاتے تھے ۔ پتھر کو پہلے چیر کر لمبی لمبی سلاخیں بنالیں جاتی تھیں ۔ پھر ان کو کاٹ کر ٹکڑے کئے جاتے تھے ۔ پھر ان کو اندر سے برمایا جاتا تھا اور باہر سے رگڑا جاتا تھا ۔ برما پتھر کا ہوتا تھا اور برمانے میں پانی بھی استعمال ہوتا تھا ۔ سونے ، چاندی اور قیمتی پتھر کے منکے سے تو بیگمات کے زیورات بنتے ہوں گے ۔ لیکن مٹی کے منکے جوگیوں کا پہناوا رہے ہوں گے ۔ کچھ منکے نقلی سونے بھی ملے ہیں ۔ جن میں تانبے کے منکوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے ۔بعض منکے قتلے دار بھی ملے ہیں ۔ بعد کے زمانے میں ڈھولک نما بھی ہوگئے ۔یعنی لمبوترے منکے جو گول ہیں اور ان کے درمیان ابھار ہے ۔ ان پر تین پتیوں دار پھول بھی بنا ہے ۔ بعض منکوں پر سرخ اور سیاہ رنگ بھی کیا ہوا ہے ۔ ان کو الکلی ، تیزاب اور دوسرے کیمیاوی مادوں سے رنگا جاتا تھا ۔
زیورات
امیر عورتیں بکثرت زیور استعمال کرتی تھیں ۔ جس میں سونے ، چاندی اور نیم قیمتی پتھروں سے بنے ہار ، گلوبند اور بازوں بند شامل تھے ۔ ان کے علاوہ سونے کے تعویز جن میں سفید لئی جڑ کر پھول بنائے جاتے تھے ۔ سادہ سونے کے کنگن اور بازو بند ہوتے تھے ۔ جن پر سونے کا کام ہوتا تھا ۔ گول منکے اور سفید مخروطی جو کانوں میں پہنے جاتے تھے ۔ طرح طرح کے گلوبند اور ہاروں کے علاوہ کمر بند ہوتے تھے ۔ کمر بند لباس کے اوپر باندھا جاتا تھا ۔ قیمتی پتھروں میں سنگ یشب کا استعمال عام تھا ۔ لاجور بھی کسی قدر استعمال ہوتا تھا ۔ سرخ عقیق سے منکے بنائے جاتے تھے ۔ جن پر باریک نقش کھود کر ان میں سفید رنگ بھرا جاتا تھا ۔ یوں تو سرخ منکے پر سفید پھول بنائے جاتے تھے ۔ منکوں کے علاوہ کانوں کی بالیاں اور ناک کے لونگ بھی بنتے ہوں گے ۔ تانبے کے آئینہ ہوتے تھے جن کو پکڑنے کا دستہ ہوتا تھا ۔ آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا تھا ۔ سرمہ دانی ، سرمہ لگانے کی سلائی اور سرمہ دانی میسر تھا ۔ تانبے کے استرے سے ہی بال مونڈے جاتے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔