(۱) موہنجودڑو کی رقاصہ سرزمین پاکستان کے قدیم کاریگروں کی مہارت کا شہکار ہے ۔ یہ مجسمہ آج بھی دنیا بھر میں وادی سندھ کی تہذیب کی علامت بن گیا ہے ۔ اس کے پاؤں اور ٹخنے غائب ہیں اور موجودہ حالت میں اس کی اونچائی ۲/۱ ۴ انچ ہے ۔ یہ مونجودڑو میں ایک گھر میں سطح زمین سے چھ فٹ چار انچ نیچے مدفون ملا تھا ۔ یہ ایک کم سن فنکارہ ہے ، جو خوشی سے چور ، زیوارات میں لدی جام شراب اس کے ہاتھ میں لئے برہنہ رقص کررہی ہے ۔ دایاں ہاتھ اس نے کولہے پر رکھا ہے اور بائیں ہاتھ میں غالباً پیالہ پکڑا ہوا ہے ۔ بایاں ہاتھ کندھوں تک چوڑیوں میں چھپا ہوا ہے اور دائیں بازو میں اس نے چند گنگن پہنے ہوئے ہیں ۔ اس کی شکل بلوچستان کی قدیم آبادیوں سے ملنے والی مٹی کی مورتیوں میں دیکھائی گئی عورتوں جیسی ہے ۔ کانسی کا یہ اصل مجسمہ نیشنل میوزم آف انڈیا دہلی میں ہے ۔
(۲) کانسی کا ایک اور چھوٹا سا مجسمہ بھی ہے جو بناوٹ میں معمولی ہے ۔
(۳) ایک تیسرا مجسمہ ہے جس میں پاؤں نظر آرہے ہیں ۔ جنہوں نے پائل پہن رکھی ہے ۔ اس کی بناوٹ عمدہ ہے ۔ ہم قیاس کرنے میں بجانب ہیں کہ موہنجودڑو کی رقاصہ نے بھی پائل پہن رکھی ہوگی ۔
(۳) تین بیل گاڑیاں بھی ملی ہیں ۔ ایک کے پہیے ہیں جو کہ ٹھوس ہیں ۔ دوسرا پہیوں کے بغیر مگر زیادہ نفیس ہے ۔
(۴) جہاں کانسی کے دو بیل ملے ہیں ۔ جو بڑی سہولت کے ساتھ ان تانگوں میں لگ سکتے ہیں ۔ دونوں بیلوں اور تانگوں کے نیچے کانسی کے چھلے لگائے گئے ہیں ۔ جن میں سے پہیہ گزارنے کے لئے ڈنڈیاں گزاری جاتی ہوں گی ۔ یہ چھلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان بیلوں کا تعلق ایسے ہی تانگوں سے ہے ۔ یہ پردہ دار تانگے سامان کے لئے نہیں انسانوں کے سفر کی گاڑیاں ہوں گی ۔
ٍ مورتیاں
مٹی کی بہت ساری مورتیاں ملی ہیں ۔ جن میں انسانی مورتیاں بھی ہیں اور حیوانی مورتیاں بھی ۔ ان پر عموماً سرخ رنگ چڑھایا گیا ہے اور بعض پر پالش کی گئی ہے ۔ ان کی تفصیل یہ ہے ۔
(1) ایک مرد کی مورتی جس کی داڑھی موچھیں صاف ہیں ۔ اس کی ناک لمبی ، آنکھیں بڑی اور ابھری ہوئی اور ٹھوڑی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ویلر کا خیال ہے کہ یہ سامی النسل مرد کی شکل ہے ۔ لیکن یہ مقامی کلی مورتیوں جیسی ہے ۔
(2) ایک عورت کی مورت جس نے بال سنوانے کے بعد سر پر تاج پہن رکھا ہے اور ایک مختصر سی دھوتی جو جانگیے سے زیادہ لمبی نہیں ہے پہن رکھی ہے اور گھٹنوں سے کافی اوپر ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ ایسے نقوش ، وضع قطع اور لباس والی مورتیاں اکثر مل جاتی ہیں ۔ یہ نمائندہ مورتی ہے اور دیوی ماں بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے سر پر جو تاج ہے اسے چراغ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو ۔ کیوں کہ اس میں دونوں طرف پیالہ نما بناوٹ ہے ۔
مجسمے
(۲) موہنجودڑو سے ملنے والا صابن پتھر سے تراشہ ہوا داڑھی والا پجاری کا مجسمہ جس کا نچلا دھڑ ٹوتا ہوا ہے ۔ جو کچھ ملا ہے یہ سات انچ اونچا ہے ۔ اس نے اجرک اوڑھ رکھی ہے ۔ پگٹ نے اس کو کشیدہ کاری شدہ چادر کہا ہے ۔ چادر پر تین پھولوں والے پھول بنائے گئے ہیں اور دائیں بازو پر جو تعویز باندھاگیا ان میں دھات کی غالباً سونے کی پٹریاں جڑی ہوں گی ۔ کیوں کہ ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہیں اور اندر گہرائی ہے ۔ اس طرح آنکھوں اور کانوں میں غالباً سونے کا جڑاؤ کام کیا ہوگا ۔ اس طرح دونوں کانوں کے پیچھے سوراخ کئے گئے ہیں ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً گلے میں سونے کا کالر پہنانے کے لئے کالر کے دونوں سروں کے کنڈے یہاں پھنسائے جاتے ہوں گے ۔ اصل مجسمہ نیشنل میوزم آف پاکستان کراچی میں خفیہ محفوظ ہے ۔ نمائش کے لئے نقل رکھی گئی ہے ۔
(۲) چونے کے پتھر کا 5 1/2 انچ کا مجسمہ جو گھسا پٹا ہے ۔
(۳) چونے کے پتھر کا سات انچ اونچا سر اس کی مونچھیں منڈی ہوئی ہیں اور مختصر داڑھی بھی ہے بال گنگی کر کے جوڑا بنایا گیا ہے ۔ آرائش گیسو میں کمال درجے کی نفاست ہے ۔ اسے کھود کر نکالنے نے اسے پورٹیٹ قرار دیا تھا ۔ یعنی کسی حقیقی فرد کا مجسمہ ہے ۔ اس کی مونچھیں صاف بال ترتیب سے بنے ہوئے ہیں ۔ داڑھی مختصر چہرے کے نقوش ملتے جلتے ، مجسمہ کی تیکنک ایک جیسی ۔ اب ظاہر ہے کہ مجسمہ کسی غریب یا عام آدمی کا بنے سے رہا ۔ یہ طبقہ امراء یا صاحبان اقتدار سے تعلق رکھتے ہوں گے ۔ ان کی وضع قطع ایسی تھی جو مذہبی رنگ و روپ رکھتی تھی ۔
(۴) چونے کے پتھر کا پونے آٹھ انچ اونچا سر ۔ بالوں کا اسلوب جیسا ہے اوپر والے جیسا ۔ سر کے پیچھے جوڑا ۔ داڑھی نہیں ہے ۔
(۵) سنگ جراحت کا مجسمہ ۔ ایک بیٹھا ہوا شخص ۔ اونچائی 11 1/2 انچ ۔ قمیض نہیں پہنی ۔کمر میں دھوتی باندھی ہے ۔ جو گھٹنوں سے قدرے نیچے تک پہنی ہے ۔ باریک کپڑے کا صافہ بائیں کندھے پر ڈالا ہوا ہے ۔ جو دائیں بازو کے نیچے سے ہو کر گزرتا ہے ۔ جس کو اس نے بائیں ہاتھ سے پکڑ رکھا ہے ۔ مجسمے کا سر ٹوٹا ہوا ہے ۔ بناوت غیر معیاری ہے ۔
(۶) سنگ جراحت کا مجسمہ ۔ آلتی پالتی مار کر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک شخص اونچائی 16 1/2 انچ ہے ۔ دایاں گھٹنہ اٹھا ہوا ہے ۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دھرے ہیں ۔ اس شخص نے ایک دھوتی سی باندھ رکھی ہے ۔ چہرے پر داڑھی ہے ۔ مگر دیگر تفصیلات گھس چکی ہیں ۔ چہرہ سر سے بڑا ہے ۔ یہ خرابی سارے مجسموں میں ہے یا پھر حقیقت ہی ایسی تھی ۔ کہ لوگوں کے سر چھوٹے اور چہرے بڑے ہوتے تھے ۔
(۷) چونے کے پتھر کے ایک مجسمہ کا ٹکرا جس میں صرف گھٹنے پر ہاتھ رکھا ہوا نظر آرہا ہے ۔
(۸) چونے کے پتھر کا ۲/۱ ۸ انچ اونچا مجسمہ ۔ ایک آدمی پالتی مار کے بیٹھا ہوا ہے ۔ جس نے ہاتھ گھٹنے پر ہاتھ رکھا ہے ۔ٹخنوں سے ذرا اوپر پنڈلیوں کے ارد گرد سوراخ کئے گئے ہیں ۔ جس کا مطلب ہے کوئی پائل پہنائی گئی تھی بیٹھنے کا انداز 6 نمبر ایک جیسا ہے ۔
(۹) کسی جانور کا ٹکڑا جو چونے کے پتھر سے بنایا گیا تھا ۔ اس ٹکڑے کی اونچائی 4 1/2 انچ ہے ۔ یہ غالباً دنبے کا مجسمہ ہے ۔
(۱۰) چونے کے پتھر کا آلتی پالتی مارے ایک شخص ۔ یہ مجسمہ 8 1/2 انچ ہے ۔ اس صفائی ستھرائی اور تکمیل نہیں کی گئی اور ابھی کھدرا ہے ۔ اس شخص کے ہاتھ بھی گھٹنوں پر ہیں اور اس نے بھی دھوتی پہن رکھی ہے ۔ سر کے ارد گر پٹی ہاندھی ہوئی ہے ۔ بیٹھنے کا انداز 6 نمبر جیسا ہے ۔
(۱۱) چونے کے پتھر کا دس انچ اونچا کسی اساطیری جانور کا مجسمہ ۔ اس کا سر کافی ٹوٹ چکا ہے ۔ لیکن پھر بھی دنبے کے سینگ اور ہاتھی کی سونڈ پہچانی جاسکتی ۔ باقی سارا بدن دنبے کا ہے ۔
ان گیارہ مجسموں کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچ مجسموں میں ایک ایسا شخص دیکھایا گیا ہے جو آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے ۔ یقیناًیہ کوئی گیانی دھیانی ہے جو مذہبی استغراق (گیان دھیان ، مراقبے) میں ہے ۔ ویلر کا خیال ہے یہ دیوتا ہے ۔ لیکن یہ زیادہ درست ہے یہ کوئی مذہبی رہنما ہے ۔ رشی منی ، پیر فقیر ۔ کیوں کہ بعد میں بدھ کے مجسمے اسی حالت میں ملتے ہیں ۔ دنبے اور ہاتھی کی شکل والا مجسمہ بھی مذہبی ہے ۔ کیوں کہ تین شاخوں والا پھول اس میں بار بار بنایا گیا ہے ۔ گویا گیارہ میں سے سات مجسمے یقیناًمذہبی اہمیت کے ہیں ۔ باقی ٹکڑے بہت مختصر ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔