نارا میدان کے مطالعہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دریائے سندھ ایسے مقام پر بہتا تھا جو نارا ہاکڑا وادی سے چند میل مغربی کنارے واقع تھا۔ لیکن یہ دو شاخوں میں تقسیم ہوکر بہتا ہوگا تو وہ جنوب کے مشرقی طرف تھی۔ یہ علاقہ اس قدیم ڈیلٹائی خط کا نصف بیاباں ہے جو سکرنڈ اور نوابشاہ سے شروع ہوکر گول پنکھے کی شکل میں پھیل جاتا ہے۔
قدیم وادی سندھ کے شہر موہنجودڑو، لوہم جودڑو، جانہوں جودڑو، کوٹ آسور اور ڈجی جی ٹکری کا وجود ثابت کرتا ہے کہ وادی سندھ کی ان بستیوں کے زمانے میں دریائے سندھ کا بڑا چشمہ ضروری نہیں ایک ہی دھارے کی شکل میں بہتا ہو۔ کسی جگہ اپنی موجودہ وادی میں روہڑی کی پہاڑیوں اور سلسلہ کھیر تھر کے درمیان بہتا ہوگا۔ لیکن اپنے بہاؤ کے اس حصہ میں داخل ہونے کے لیے لازماً بکھر کی تنگ نائے میں سے گزرتا ہوگا۔ لیکن اس مقام سے پہلے دریا کا مرکزی دھارا بائیں طرف گیا ہوگا تو اس لازمی نتیجہ ہوگا کہ دریا روہڑی کی پہاڑیوں کے مشرق میں چلا جائے گا اور اپنے راستہ میں اس وقت تک اختیار نہیں کرے گا جب تک چانہوں جودڑو سے نچلی سطح پر نہ پہنچ جائے۔ اس صورت میں وادی ڈیڑھ سو میل وادی سندھ اپنے پانی سے محروم رہے گی۔
لہذا یہ مفروضہ کہ تاریخی زمانہ کے ابتدائی ایام میں ایک دریا تقریباً اسی راستہ پر بہتا تھا جو نارا کا راستہ ہے اور یہ کہ جمڑاؤ ہیڈ سے ایک شاخ اس دریا سے نکل کر جنوب اور جنوب مغرب کے رخ ہالا کی سمت بہتی تھی وہ علاقہ کی طبعی سطح کی بناوٹ سے غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو لازماً اتنے وسیع علاقے کے ڈھال کی طرف اس شاخ کو عمودی حثیت میں بہنا چاہیے تھا اور اسی صورت میں زمین سندھ کی تعمیر کے کسی قدیم دور سے تعلق رکھتی ہوگی۔
ڈیلٹا وہ عمل ہے جس میں دریا سمندر سے زمینیں حاصل کرتا ہے۔ دریائے سندھ کئی شاخوں کی صورت میں اپنا ڈیلٹا بناتا ہے۔ دریائے سندھ کا ڈیلٹا ماقبل تاریخ پجند کے مقام پر تھا اور دریا نے سمندر کو پیچھے ڈھکیل کر اس سے زمینیں حاصل کرکے سندھ کی زمینیں حاصل کی ہیں۔ دریائے کے بہاؤ کا رخ بھی بدلتا رہتا ہے۔ محمد بن قاسم کے زمانے میں دریائے سندھ سہون سے مشرق کی سمت کافی آگے بہتا تھا۔ اکبر کے زمانے میں دریا مغرب میں بہتا تھا اور اس وقت پاٹ اور ٹلٹی کے مقامات اس کے بائیں کنارے پر تھے۔ یہ دریا سہون کے قریب سے گزر کر لکی میں مڑ کر مشرقی رخ اختیار کرلیتا تھا اور اس کے بلمقابل دریا کی مشرقی شاخ جو پران کہلاتی تھی نصر پور کے قریب ہو کر گزرتی تھی۔ دریا کی مشرق کنارے پر کئی شاخیں مختلف وقتوں میں وجود میں آتی اور متروک ہوتی رہی ہیں۔ دریائے سندھ اپنا زائد سیلابی پانی دریائے ہاکڑا کو اس کی نارا شاخ کو بھی دیتا رہا ہے۔
دریا کی ایک شاخ جلوالی یا جراڑی تھی اور یہ سکڑنڈ سے دس میل مشرق میں کلری کے قریب دریا سے نکل کر منصورہ کے مشرق کی طرف بہتی ہوئی جنوب کی طرف جاکر لوہانا سے مل جاتی تھی۔ اس کی لمبائی پچاس میل کے قریب ہوگی۔ عرب جغرافیہ داں اس شاخ کو نقشے میں سیدھی لکیر کے جنوبی حصہ میں نصف دائرے کی شکل میں دیکھایا ہے۔ آج بھی اس شاخ کے نشان کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اس کی دو دھاروں کے نشانات ملتے ہیں۔ ایک تو گھاٹی اور مہران کے بعد کوٹھیری کی جانب آنے والا نالہ جو شاہ پور چاکر کے شمال برہون کے مغرب میں دکاک جی بھڑی کے مشرق میں پہنچتا ہے اور نشیب میں جنوب کی طرف سمیر والا نالا جہاں بعد میں سمیر واہ بنی۔ یہ قدیم پاٹ شاہ پور چاکر کے نشیب میں جنوب مشرق میں بہتا ہوا آکر موجودہ جمڑاؤ واہ کی کنگ پٹی موری یا نالی کے شمال کی طرف مشرق میں پلٹتا تھا۔ پرانے زمانے میں جلوانی پاٹ کے اس حصے کو نارا کہتے تھے اور شاہ پور سے لے جمڑاؤ تک کے پیٹے کو آج بھی نر وارو پوٹھو کہا جاتا ہے۔ جمڑاؤ سے یہ
1758-9ء میں دریا نے ہالہ کے قریب اپنی گزر گاہ کو تبدیل کیا اور ہالہ سے کچھ نیچے دریا یک لخت مغرب گھوم گیا اور اس طرح اس کی متروک گزرگاہ پران کچھ فاصلہ پر جنوب و مشرق میں رہ گئیں۔ جس کے نشانات حیدرآباد سے پندرہ میل دور نصر پور سے آگے اب بھی نظر آتے ہیں۔ یہ شاخ جو کہ سانگھڑ، شہدادپور اور سنجھورو سے گزرتی تھی اور یہ لوہانوں بھی کہلاتی تھی۔ اب بھی اس کی قدیم گزرگاہ پر کہیں کہیں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے نظر آتے ہیں جو کہ کافی دور تک شیخ بھرکیو تک پھیلے ہوئے ہیں۔
پران شاخ میں جب پانی بہنے کی مقدار کم ہوئی تو غلام شاہ کلہوڑا نے اپنے علاقہ کاشت کاروں کو زیادہ پانی فراہمی اور اپنے مخالفوں پانی سے محروم کرنے کے لیے اس میں آبی گزر گاہ کے سامنے بند تعمیر کئے۔ اس زمانے 1762ء میں 1762ء میں رن کچھ کے مغربی گوشے میں کثرت سے چاول کی کاشت ہوتی تھی اور ہاکڑا کی گزرگاہ سے نیچے اور پران کی مشرقی اور غربی شاخوں کے قریب کا تمام علاقہ (سندھڑی) کے قریب کا علاقہ کاشت کا مرکز تھا۔
1768ء میں جب حیدرآباد کا شہر بسایا گیا تو اس وقت سے دریا نے اپنا رخ بدل کر گنجو ٹکر کے مغرب میں بہنا شروع کردیا۔ جب کہ حیدرآباد سے چند میل پہلے دریا کی ایک اور شاخ حیدرآباد کے مشرقی سمت سے بہنا شروع کردی اور یہ پھلیلی کے نام سے مشہور ہے۔ پھلیلی آگے جاکر رین ندی کی گزرگاہ میں داخل ہوجاتی تھی جس سے تھر کے ریگستانی علاقہ کو پانی میسر ہوتا تھا۔
سترویں صدی میں اس ڈیلٹے کی بالائی نوک شاید موجودہ حیدرآباد سے تقریباً بیس میل جنوب مشرق میں بائیں شاخ جو رین ندی کے نام سے مشہور تھی۔ وہ گونی کنال کے راستے بدین سے ہوتی ہوئی رن کچھ کے مغربی سرے سے سمندر میں گرتی تھی۔ مگر جنرل ہیگ Haig کا کہنا ہے کہ رین شاید بہنے والی شاخ نہیں تھی اور دریائے سندھ کا بشتر پانی دائیں شاخ سے گزرتا تھا جو کہ کس قدر مغرب و جنوب میں بہتا ہوا ٹھٹھہ کے قریب گزرتا تھا۔ حیدرآباد سے زرا جنوب میں جسے سابقہ ڈیلٹائی علاقہ کہا جاسکتا ہے۔ مشہور نہریں کلری، بگھاڑ، پنیاری اور ستو ماضی میں مختلف اوقات میں دریائے سندھ کی وہ شاخیں تھیں۔ جس نے دریائے سندھ کا زائد پانی سمندر میں پہنچتا تھا۔