ان میں سے اکثر نے عمران خان کو دیکھا‘ نہ کبھی ملے۔
ان کی جیبوں میں دنیا کے بہترین ملکوں کے پاسپورٹ ہیں۔ ان ملکوں میں سکیورٹی ہے۔عزتِ نفس ہے۔ پولیس ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ آگے بڑھنے کے لیے سفارش درکار ہے نہ خوشامد! رہنے کے لیے صاف ستھرے‘ دیدہ زیب شہر، میلوں ڈھونڈ لیجیے کوڑا کرکٹ نظر نہ آئے۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ نوجوان اس فکر میں غلطاں ہیں کہ آبائی ملک کی قسمت بدلے اور اس غم میں پریشان کہ خود غرضی ملک کو نوچے جا رہی ہے۔ بحرالکاہل کے مشرقی کنارے آباد وینکوور سے لے کر، کرۂ ارض کے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ان نوجوانوں کو تحریک انصاف کی روشنی کے سوا اُفق پر کچھ نہیں دکھائی دیتا! جس ملک میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا صدر ملک سے باہر پڑائو ڈالے ہو، اس کی زندگی کا مقصد کرپشن کے مقدمات کو ہوا میں اڑانا اور ڈاکٹر عاصموں اور ایانوں کو بچانا ہو اور دوسری پارٹی پر قابض خاندان اپنے بزنس کو فوقیت دیتا ہو، وہاں اگر ان تارکینِ وطن کو عمران خان کے سوا روشنی کی اور کوئی کرن نظر نہ آتی ہو تو کیا کریں؟ دو دن پہلے ہی ایک کالم نگار نے خبر دی ہے کہ سرکاری دوروں میں اعزہ و اقربا ساتھ ہوتے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ شوگر مافیا، اقتدار کے کاندھے پر سوار، بزنس ایمپائر کو ’’برآمد‘‘ کرنے میں لگا ہے۔
میلبورن سے پرتھ کا سفر عناصر کی بے تاج بادشاہی دکھا رہا تھا۔ زمین کا جنوبی کنارہ، پانیوں پہاڑوں اور ریگستانوں کی حکمرانی! جہاں انسان بے کنار وسعتیں دیکھ کر پروردگار کی قوتِ تخلیق پر حیران ہوتا ہے۔ برسوں پہلے کا صومالیہ کا سفر یاد آ گیا۔ اُن دنوں ہمارے عساکر، اقوامِ متحدہ کی طرف سے صومالیہ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مزدوری کی نوعیت ایسی تھی کہ جانا پڑا۔ سی ون تھرٹی جہاز نو گھنٹے اڑتا رہا۔ جھاگ اور ریت کی کائناتیں! کہیں دلدلیں تو کہیں بادلوں کو چیرتے کہستانوں کے نوکیلے کنارے! اور موگادیشو کیا تھا! جھونپڑیوں اور کچے پکے کوٹھوں پر مشتمل ایک بڑا گائوں!
پرتھ ااور میلبورن کے وقت میں تین گھنٹوں کا فرق ہے! بادل نیچے تھے اور اڑن کھٹولا اُوپر، ہوا میں اڑتے قالین پر شعر یاد آتے رہے ؎
ہوا میں تخت اڑتا آ رہا ہے اُس پری رُوکا
محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے
کہیں دُور سے اُڑ کر اک غالیچہ آتا ہے
یا شہزادہ یا لال پری، کوئی آئے گا!
پرتھ پہلے بھی دو بار جانا ہوا مگر اِس بار نوجوانوں سے گفتگو کر کے شکیب جلالی یاد آ گیا ؎
یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا
معین ارشد‘ عمر شیخ اور عثمان سے تو ایک عرصہ سے رابطہ تھا، عمیر چوہدری سے بھی ملاقات ہوئی جو انتہائی متحرک نوجوان ہے۔ یہ نوجوان پاکستانیوں کے ایک بڑے اور مؤثر گروہ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں او رتنظیمی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہونے کے طفیل انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا بھی کر رکھا ہے۔ یہ نوجوان مضطرب ہیں، بے چین ہیں۔ ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ آنکھیں اُس پاکستان کو دیکھنا چاہتی ہیں جہاں احتساب ہو اور بے لاگ ہو۔ یہ اُس نظام کو لانا چاہتے ہیں جس میں نوجوان ملک سے ہجرت نہ کریں بلکہ بیرونِ ملک سے وطن واپس آئیں۔ تحریکِ انصاف سے اور عمران خان سے ان کی رشتہ داری ہے نہ کوئی غرض! انہوں نے عہدے لینے ہیں نہ الیکشن لڑنے ہیں۔ انہیں صرف یہ لگن ہے کہ وہ اور ان کے بچے ترقی یافتہ ملکوں کے جس ماحول میں رہ رہے ہیں، تمام پاکستانیوں کو ملک کے اندر وہی ماحول ملے۔ان کی گفتگو میں تلخی بھی تھی اور شکوے بھی، وزیرستان کے حضرت حسین نے قبائلی علاقوں کے جو آنکھوں دیکھے واقعات سنائے، افسوسناک تھے! جس بے رحمی سے ملک کے وسائل ایک چھوٹا سا طبقہ لوٹ رہا ہے، وہ اِن نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک حقیقت ہے۔ پارٹیوں پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ خاندان کیا ہیں؟ کوئی بزنس مافیا ہے،
کوئی صنعت کاری کی سلطنت ہے، کچھ مذہب کو استعمال کر کے بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمران خان میں ان نوجوانوں کو امید نظر آ رہی ہے۔ کے پی میں، ان کے بقول، تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان پر اقربا پروری کا الزام نہیں لگ سکتا۔ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ختم ہو گئی ہے۔ مجموعی طور پر صوبہ رُول آف لا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ رُول آف لا پورے ملک پر سایہ فگن کیوں نہیں ہو رہا؟
ان نوجوانوں کو پاکستانی میڈیا سے بہت زیادہ شکوے ہیں۔ معصوم اور سادہ دل لوگ میڈیا کو فرشتہ خصلت سمجھ بیٹھے ہیں اور پھر جب توقعات کو ٹھیس لگے تو رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جس معاشرے میں اہل سیاست سے لے کر اہلِ مذہب تک، ڈاکٹروں سے لے کر وکیلوں تک اور تاجروں سے لے کر عام لوگوں تک، سب خود غرضی کے سمندر میں ڈوب رہے ہوں، وہاں صرف میڈیا معصوم نہیں ہو سکتا کہ میڈیا بھی اُسی معاشرے کا حصہ ہے، اس کے باوجود میڈیا، سر ہتھیلی پر رکھے، جو کچھ اس کے بس میں ہے، اُس سے زیادہ ہی کر رہا ہے! میڈیا ہی کرپشن کے سکینڈل بے نقاب کر رہا ہے اور پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کے دوسرے گروہوں کا مؤقف عوام تک پہنچا رہا ہے!
عمیر چوہدری نے ایک شام اُن اصحاب کو جمع کیا جو نوجوان تھے لیکن ماضی قریب میں! ان سابق نوجوانوں میں بھی تحریکِ انصاف کے لیے جوش و خروش اتنا ہی تھا، جتنا ’’حاضر سروس‘‘ نوجوانوں میں! مسعود محمود خان، اقبال خان، نذر خان اور دوسرے احباب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ قابل رشک معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں مگر ساتھ ساتھ ملک کے لیے فکر بھی کر رہے ہیں اور حتی المقدور فلاحی اور تنظیمی میدانوں میں جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ اِن ترقی یافتہ ملکوں میں جب پاکستانی دیکھتے ہیں کہ کوئی مزدوری مزدوری نہیں اور معاشرے میں ہر شخص کو، خواہ وہ بس ڈرائیور ہے یا سکیورٹی کا کام کر رہا ہے یا چوٹی کا سرجن ہے یا چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہے، یکساں حرمت و مقام حاصل ہے تو وہ کڑھتے ہیں کہ ایسا اپنے ملک میں کیوں نہیں ہو سکتا! پاکستانی بچے کب تک ریستورانوں میں برتن مانجھتے رہیں گے۔ ورکشاپوں میں کب تک ہاتھ کالے کرتے رہیں گے اور ننھے ننھے ہاتھوں سے کب تک جوتے پالش کرتے رہیں گے؟ صبح تو آنی ہے مگر کب آئے گی؟ ع
اے زہرِ غم یار! بہت ہو چکی ‘بس بھی!
میلبورن میں نوجوان کاشف بونس
اپنی ذات میں پورا ادارہ ہے! اس نے پہلے تو پاکستانی طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ اب اس تنظیم کے ارکان کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ پھر اس نے ’’شاہین‘‘ کے نام سے تنظیم بنائی جو مسلمان نوجوانوں کو بالعموم اور پاکستانی نوجوانوں کو بالخصوص کھیلوں کے میدان میں آسٹریلیا کے مقامی نوجوانوں کی سطح پر لا کھڑا کر رہی ہے۔ وکٹوریہ صوبے کی حکومت بھی اُس کی اِس مساعی کو تسلیم کرتی ہے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسیم جان، ملک راشد علی اور کئی اور نوجوان معاشی ذمہ داریوں سے وقت نکال کر کمیونٹی کے لیے اور پاکستان کے لیے دردمندی اور دلسوزی سے مصروفِ عمل ہیں۔
تارکین وطن کی اکثریت پاکستان کی پرانی سیاست گری سے تنگ آ چکی ہے۔ جہاں بینی اور دشت نوردی نے اِن تارکین وطن کے اذہان کو وسیع کر دیا ہے یہ جان چکے ہیں کہ جاگیرداروں اور سیاسی جماعتوں پر قابض صنعت کاروں اور تاجروں نے جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ تارکین وطن اپنے ملک میں ووٹ کا حق مانگتے ہیں! آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان کے اہلِ اختیار ان تارکین وطن کو یہ حق دیں گے! نہیں! ان کی پوری کوشش ہے کہ اس حق کے راستے میں کوئی نہ کوئی دیوار کھڑی کرتے رہیں۔ کبھی عدلیہ کی! کبھی نوکرشاہی کی اور کبھی کسی اور عذرِ لنگ کی! ان کا اپنا مفاد ہو تو غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد کو ملک کے اعلیٰ ترین آئینی مناصب پر بٹھا دیتے ہیں مگر تارکین وطن کو یہ ووٹ کا حق نہیں دیتے اس لیے کہ تارکین وطن ان کی سفارشوں اور کرم فرمائیوں کے محتاج نہیں۔ انہیں ترقی اور تبادلوں کے لیے سیاست دانوں کے رُقعے درکار نہیں نہ ٹیلی فون، یہ لوگ ووٹ میرٹ کی بنیاد پر دیں گے۔ انہیں اگر ایان علی سے نفرت ہے تو گلوبٹ سے بھی محبت نہیں!
پردیس میں رہنے والے یہ دردمند پاکستانی مایوس نہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں مستقبل کے گلدستے ہیں! یہ اُس صبح کے منتظر ہیں جب وہ اپنے ملک میں واپس آبسیں گے مگر اُس وقت جب شاہراہوں پر شاہی سواریوں کے لیے شہریوں کو غلاموں کی طرح کھڑا کرنے کی قبیح رسم ختم ہو چکی ہو گی۔ جب ایوانِ وزیر اعظم سے ہیلی پیڈ تک چند فرلانگ کی سڑک پر کروڑوں روپے نہیں جھونکے جائیں گے۔ وہ وقت آئے گا ۔ضرور آئے گا! وقت کے پہیے کو اُلٹا نہیں چلایا جا سکتا۔ دریا نشیب کی طرف بہتا ہے ۔چند خاندانوں کا گٹھ جوڑ، پانی کو واپس بلندی کی طرح نہیں لے جا سکتا ؎
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سربکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“