'وادی بوری ' سے فلم نگری تک کا سفر
( اداکار راج کمار کی نذر )
تین جولائی 2017ء کو ' ہند سندھ ' کے ایک ایسے مہان کلاکار کی بائیسویں برسی تھی جس نے 1963ء کی ایک فلم ' دل ایک مندر ' میں ایک کینسر زدہ مریض کا کردار ادا کیا تھا ۔ مینا کماری کے مدِ مقابل کام کرنے والا یہ اداکار راج کمار تھا جو 3 جولائی 1996ء کو اپنی حقیقی زندگی میں بھی اسی موذی مرض کے ہاتھوں ایک کٹھن موت کا شکار ہوا تھا ۔ کینسر ( Hodgkin's lymphoma ) اس کی پسلیوں اور پھیپھڑوں میں کچھ ایسے پھیلا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کے آخری دو برس جانکنی کے عالم میں گزارے تھے ۔
بندہ جنم کہاں لیتا ہے اور اپنے پران کہاں دیتا ہے ؟ یہ ایک ایسا پراسرار سوال ہے کہ انسان اس کا جواب روز اول سے تلاشتا آیا ہے جس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ پا کر اس نے اپنی سہولت کے لئے یہ گھڑ لیا ہے کہ جس جگہ کی مٹی سے اس کا قلبوت بنایا گیا ہوتا ہے موت کا فرشتہ اسے گھیر گھار کر وہیں لے جاتا ہے اور اس کی روح وہیں قبض کرتا ہے اور جسم وہیں دفنانے ، جلائے جانے یا گدھوں و آبی جانوروں کی خوراک بننے کے چھوڑ جاتا ہے ۔
راج کمار ممبئی میں فوت ہوا تھا ۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں اس کی جنم بھومی تو کہیں دور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے تقریباً درمیان میں واقع ' وادی بوری ' ( انگریزوں کا دیا نیا نام ' لورا لائی ' ) میں تھی ۔ وہ ایک کشمیری پنڈت کا بیٹا تھا ۔ اب یہ کشمیری پنڈت کشمیر کی خوبصورت اور ہری بھری وادی چھوڑ کراس اجاڑ و سنگلاخ وادی میں کیسے جا آباد ہوا تھا اس کا پتہ تو شاید راج کمار کے بچوں کو بھی نہ ہو ۔ غالب امکان البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کشمیر جو مغلوں کے زمانے سے بھی بہت پہلے سے ندی نالوں میں آئی طغیانی کی وجہ سے آئے سیلابوں کے بعد بار بار خشک سالی کے ہاتھوں بھیانک قحطوں کا شکار رہا ہے اور کشمیری نقل مکانی کرکے پنجاب اور دیگر علاقوں میں آ کر بستے رہے ہیں تو راج کمار کے آباء بھی ٹھوکریں کھاتے یہاں کہیں آ آباد ہوئے ہوں گے ، دوسری وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ ہندو دھرم کا پھیلاوٗ ان کا مطمع نظر ہو ۔
بہرحال راج کمار جو ' کلبھوشن پنڈت ' کا نام لئے لورا لائی میں پیدا ہوا تھا انیس سو چالیس کی دہائی میں نجانے کس خیال سے بمبئی کا رخ کر بیٹھا ۔ شنید ہے کہ اسے پویس کی نوکری پسند تھی لہٰذا وہ بمبئی پولیس میں بھرتی ہوا تھا ۔ اسی دوران اسے اس شہر میں جڑیں پکڑتی فلم انڈسٹری نے لبھایا ہو گا ، ' رنگیلی ' 1952ء وہ پہلی فلم گردانی جاتی ہے جس میں وہ پہلی بار پردہ سیمیں پر نمودار ہوا تھا ۔ اس فلم میں ' ریحانہ ' نامی ایکٹرس اس کے مدمقابل تھی ۔ ' ایم اینڈ ٹی فلمز کی اس فلم کو نجم نقوی نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اس کے گیت راجہ مہدی علی خان نے لکھے تھے ۔ گیتا دت کے علاوہ لتا ، کشور کمار ، جی ایم درانی اور شمشاد بیگم نے ان گیتوں کو اپنی آواز دی تھی ۔ گیتا دت کی آواز میں ایک گانا ' ہم نے یہ دل کے لگانے کی سزا پائی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ' اب بھی کہیں آپ کو سننے کے لئے مل جائے گا ۔
سہراب مودی کی فلم ' نوشیرواں ِ عادل ' 1957ء میں اس کے ساتھ کام کرنے تک کے سفر میں راج کمار حسرت لکھنئوی کی فلم ' آبشار' 1953ء میں دلیپ کمار اور نمی ، سندھی ہدایتکار دھرم کمار کی فلم ' گھمنڈ ' 1955ء میں کمل مہرا ، شیلا کرمانی اور شیاما اور ہدایت کار ہیرا سنگھ کی فلم ' لاکھوں میں ایک ' میں کام کر چکا تھا ۔ ' نوشیرواں ِ عادل ' وہ پہلی فلم تھی جس نے راج کمار کو فلم بینوں میں مشہور کیا تھا ۔ اس نے اس فلم میں ' نوشازاد' ولی عہد ِ نوشیرواں ( سہراب مودی ) کا کردار ادا کیا تھا اور اس کے مد مقابل مالا سہنا تھی ۔ اسی برس محبوب خان کی فلم ' مدر انڈیا ' میں رادھا ( نرگس ) کے خاوند شامو کے کردار ، جو تھا تو مختصر ، نے اسے شہرت کی سیڑھی پر ایسا چڑھایا کہ وہ اپنے فلمی کیرئیر میں ستر کے لگ بھگ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاتا رہا ۔ جن میں ایس ایس وسن کی ' پیغام ' 1959ء ، سی وی شریدھر کی ' دل ایک مندر ' 1963ء ، یش چوپڑا کی 'وقت ' 1965ء ، بی آر چوپڑا کی ' ہمراز ' 1967ء ، چیتن آنند کی 'ہیر رانجھا ' 1971ء ، ' لال پتھر ' 1971ء ، کمال امرہووی کی ' پاکیزہ ' 1972ء ، چیتن آنند کی ' قدرت ' 1981ء ، کے بالاچندر کی ' ایک نئی پہیلی' 1984ء ، میحول کمار کی ' مرتے دم تک ' 1987ء ،پرکاش مہرا کی ' مقدر کا فیصلہ ' 1987ء ، میحول کمار کی ' جنگ باز ' 1989ء اور سبھاش گائے کی ' سوداگر ' 1991ء اہم ہیں ۔ ' سوداگر ' وہ فلم ہے جس میں اس نے دلیپ کمار کے ساتھ 32 سال بعد کام کیا تھا ۔ یہ فلم ویسے تو شیکسپیئر کے ڈرامے ' رومیو اینڈ جولیٹ ' سے ماخوذ تھی لیکن عمدہ سکرپٹ ، عمدہ اداکاری اور ہدایت کاری نے سبھاش گائے کو فلم فیئر ایوارڈ دلا دیا تھا جو شاید اسے ملا واحد ایوارڈ ہے ۔ اسماعیل شیروف کی فلم ' گاڈ انیڈ گن ' 1995ء اس کی آخری فلم تھی ۔
چیتن آنند کی فلم ' ہیر رانجھا ' اور کمال امروہووی کی' پاکیزہ ' وہ فلمیں ہیں جو راج کمار کی یادگار فلمیں گردانی جاتی ہیں گو اسے دو فلم فیئر ایوارڈ دلانے والی فلمیں وقت اور دل ایک مندر تھیں ۔ راج کمار کی ڈائیلگ ڈلیوری منفرد تھی جو ' ہند سندھ' کے کچھ ہی اداکاروں کو نصیب ہوئی ۔
راج کمار بطور کینسر مریض فلم ' دل ایک مندر ' میں نہ صرف انسانی جیوری کو بھایا بلکہ قدرت کو بھی پسند آیا فرق صرف اتنا تھا کہ فلم کے برعکس اس نے یہ فصیلہ موت کے فرشتے کے ہاتھ تھما دیا تھا جس نے 8 اکتوبر 1926ء کو پیدا ہونے والے ' کلبھوشن پنڈت ' کو مڑ کر ' لورالائی ' کی طرف دیکھنے بھی نہ دیا اور بمبئی سے ہی اچک کر ہمراہ لے گیا ۔ موت کے فرشتے کے ساتھ اس دنیا سے اٹھتے سمے وہ 69 برس کا تھا ۔
آئیے فلم ' دل ایک مندر ' کا یہ گیت سنیں ؛
" رک جا رات ، ٹہر جا رے چندا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
گیت؛ حسرت جےپوری/ شیلندر
موسیقی؛ شنکر جے کشن
گلوکارہ ؛ لتا
مینا کماری اور راج کمار پر فلمایا گیا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔