عالمِ برزخ میں محلہ تقسیم کاراں کا جنم سن 1948 میں ہوا جب یکے بعد دیگرے موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح اپنے اپنے لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو کر عالمِ برزخ پہنچ گئے۔ جناح کی آمد پر ہجرت کے دوران قتل ہونے والے مسلمانوں نے انہیں بتایا کہ 30 جنوری 1948 کو جبسے گاندھی جی اوپر آئے ہیں انہوں نے "مون ورتھ" یعنی چُپ کا روزہ رکھ لیا ہے اور ایک بے آباد جگہ پر سمادھی لگا کر بیٹھ گئے ہیں جو رزق کے فرشتوں کے علاوہ کسی کو انکے پاس جانے کی جرآت نہیں ہے۔ آنے جانے والے شروع شروع میں کئی کئی گھنٹے تک باپُو کو ٹُکر ٹُکر تکتے رہتے تھے کہ کبھی تووے لب کھولیں مگر آج آٹھ مہینے بارہ دن ہوئے انہوں نے کسی کی طرف دیکھا نہ گفتگو کی اجازت دی۔
زمین پر پیچھے رہ گئی فاطمہ جناح کیلئے پریشان حال جناح کو جب گاندھی کی حالتِ زار معلوم پڑی تو بہن کو بھُول بیساختہ اس بے آباد ویرانے کیطرف لپکے کہ دیرینہ ساتھی کی خبر گیری کریں۔ جناح کے پیچھے مقتول مہاجرین نے "پاکستان کا مطلب کیا" کا نعرہِ مستانہ بلند کیا تو جناح نے انگارہ ہوتی آنکھوں اور زھر آلود تاثرات سے پلٹ کر ان کو دیکھا جو وہ سہم کر چپ ہو رہے۔ جناح صاحب تقریباً دوڑتے ہوئے بتائی گئی جگہ پر پہنچے تو گاندھی جی بے چینی سے ٹہل رہے تھے، جناح کو آتے دیکھا تویوں دوڑے جیسے بچہ اپنی ماں کو دیکھ دوڑتا ہے، لاٹھی چھوٹ گئی، سانس بے تال ہوئی اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے دونوں بزرگ رہنما بغلگیر ہوئے تو ہزاروں ساعتوں تک ایک دوسرے سے لپٹے دھاڑیں مار کر روتے رہے۔
آہستہ آہستہ وہاں پر جناح اور گاندھی کے پیروکاروں کا تانتا بندھ گیا۔ وہ لاکھوں لوگ جو بٹوارے کے دوران قتل و غارت گری کا شکار ہوئے تھے اور پچھلے تیرہ مہینے سے ایکدوسرے کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھ بنا دعا سلام گزر جاتے تھے، وہ حیرتوں میں ڈوبے چاروں جانب سے اُمڈے چلے آ رہے تھے۔ نہ کوئی "ہر ہر مہا دیو" کہتا نہ ہی "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه" کی آواز نکالنے کی جرآت کرتا۔ انکے من میں بس ایک سوال تھا کہ اگر
"گاندھی اور جناح اکٹھے ہیں تو اُنہوں نے کس سراب کے پیچھے لگ کر اپنے جان و مآل کی قربانیاں دیں؟"
ہر گزرنے والی ساعت کیساتھ مجمع ہزاروں کی تعداد میں بڑھتا چلا جا رہا تھا جبکہ گاندھی اور جناح انکی موجودگی سے سرفِ نظر کرتے ہوئے روتے روتے اپنے قدموں پر بیٹھ چکے تھے۔ مجمعے میں ہلچل پیدا ہوئی تو محلہ بلّی ماراں کیجانب سے اقبال اور موتی لال نہرو سسکتی ہوئی آنکھوں سے برآمد ہوئے، لاکھوں لوگوں میں یہ پہلے تھے جنہوں نے ان دیکھی لکشمن ریکھا کو لانگھا اور مقتول لیڈروں کیجانب بڑھنے لگے۔ موتی لال نہرو نےجناح کو سہارا دیکر کھڑا ہونے میں مدد کرتے ہوئے انہیں بھینچ لیا جبکہ علامہ ادباّ گاندھی جی سے لپٹ کر پاس ہی بیٹھ گئے۔ رونے بانے کا سلسلہ جو بظاہر تھم چلا تھا علامہ کی ہچکیوں سے پھر بندھ گیا۔ موتی لال نہرو کبھی جناح کا ماتھا چومتے اور کبھی انکے کاندھوں پر بوسہ دیتے اور پھر دونوں لپٹ کر رونے لگتے۔ بٹوارےکے لاکھوں شہدا اس منظر پر ایسے دم بخُود کھڑے تھے کہ کاٹو تو لہُو نہ نکلے۔ انکے خیال میں دشمن نیتاوں کا یہ بھرت ملاپ کوئی انہونی تھی جسے وہ کھُلی آنکھوں دیکھ رہے تھے۔
سبھ کے من میں سوال تھے مگر جرآتِ اظہار کسی ایک میں بھی نہیں تھی کہ اتنے میں مجمعے کے پیچھے سے پہلی آواز نقارےپر چوٹ کیطرح پڑی،
"راستہ دو، لالا جی آ رہے ہیں۔۔"
سارے نیتا کھڑے ہو کر اس جانب دیکھنے لگے جس طرف سے مجمع کِلبلا رہا تھا۔ لالا جی لاجپت رائے، سفید کُلاہ اور تہبند میں تمکنت سے بڑھتے ہوئے پہلے نکلے۔ انکے پیچھے، اشفاق اللہ خان، رام پرساد بِسمل، چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گُرو فخریہ چلتے ہوئے برآمد ہوئے۔ سارے نیتاوں نے آگے بڑھ کر لالا جی اور ہندوستان ریپبلیکن آرمی کے مجاہدوں کا سواگت کیا۔ لالا جی جس جس سے گلے ملتے، اسکے آنسو پونچھتے اور حوصلہ کرنے کی تلقین کرتے۔ یہ منظر دیکھ کر مجمعے سے ایک آواز اُبھری "لالا جی ان سے پوچھیں یہ سارے روتےکیوں ہیں"لالا جی نے پلٹ کر آوازے کی سمت میں دیکھا تو یہ سوال ہزاروں چہروں پر کندہ تھا۔۔
آپ پلٹے، اور گاندھی جی کے کان میں کچھ کہا، گاندھی جی نے جناح کیطرف اشارہ کیا تو لالا جی جناح کے پاس آئے۔ جناح جو اسوقت بھگت چہرے کو تعویز کیطرح چوم رہے تھے۔ لالا جی کا ہاتھ کاندھے آنے پر قائد متوجہ ہوئے اور چاروں جانب مجمعے پر نگاہ دوڑائی۔ لالا جی نے خطاب کا کہا تو انہوں نے بھگت سنگھ کے کاندھے پر رکھے ہاتھ کو۔ہلکا سا دبایا اور اپنی گردن کو غیر محسوس طریقے سے اُچک کر تقریر کا کہا۔ بھگت نے لالا جی کیطرف دیکھا تو انہوں نے بھرائی ہوئی آنکھوں کو بھینچ کر اجازت مرحمت فرما دی۔۔
سارے لیڈران زمین پر بیٹھ گئے تو بھگت سنگھ گویا ہوئے۔۔
"ہم سبھ نے جس بھارت میں آنکھیں کھولیں، وہ ذات پات اور دھرم کے نام پر قائم ایک ایسا سماج تھا جس میں ہندو اور مسلمان ایک ہزار سال سے اکٹھے رہتے آئے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1740 اور 50 کی جنگوں میں بنگال پر قبضہ کیا اور محض ایک سو سال میں پورے ملک سے ہمارے راجاوں، مہاراجاوں سے انکے راج پاٹ چھین کر ہمیں مطلق غلامی میں دھکیل دیا گیا۔ سید احمد خان سے لیکر مسٹر جناح تک اور بال گنگا دھر تِلک سے لیکر گاندھی جی تک ہمارے سارے نیتاوں نے اپنے اپنے رنگ میں آزادی کے سفر کو آگے بڑھایا جس کی (رام پرساد بِسمل کیطرف دیکھتے ہوئے) ہم لوگوں نے اپنے لہو سے آبیاری کی۔
ہمارے باہمی تفرقات سیاسی یا پھر انتظامی نوعیت کے رہے اور ہم سارے جب تک زندہ رہے اپنی اپنی دانست میں ہندوستان کی آزادی کیلئے مخلص رہے۔ اگر 1937 کی وزارتیں دھرم کے نام پر مسلم اقلیت کا استحصال نہیں کرتیں تو مسٹر جناح شائید کبھی بھی الگ ریاست کے مطالبے پر اتنا اسرار نہیں کرتے نیز یہ کہ اگر ہم لوگوں سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں تو وے ہماری سمجھ بوجھ میں کمی کے کارن ہو سکتی ہیں مگر ہم لوگوں میں سے بدنیت کوئی نہیں تھا۔
ہم سب نے سمے کے ساتھ بہت کچھ سیکھا۔ جیسے میرے ساتھیوں اور گاندھی جی کے درمیان سواراج (برطانیہ کے زیر انتظام اقتدار) اور پُورن سواراج (مکمل آزادی) کو لیکر اختلافِ رائے تھا۔ ہمارے بعد کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ گاندھی جی نے جان بوجھ کر ہماری پھانسیاں رکوانے میں سستی سے کام لیا یہاں تک کہ انہیں لاکھوں ہندوستانیوں نے بہت برا بھلا بھی کہا۔ میرے خیال میں یہ گاندھی جی کیساتھ سراسر زیادتی ہے۔ ہماری تنظیم کا مقصد جہاں لالا جی کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تھا وہیں ہم گاندھی جی کے آہِنسا وادی (Non Voilent) اصولوں کیساتھ حریت پسندی کے فوائد بھی تیس کروڑ ہندوستانیوں پر آشکار کرنا چاہتے تھے تا کہ مکمل آزادی کا رستہ نزدیک سے نزدیک تر آ جائے۔ اسکے لیئے میں نے اپنے والد کو میری پھانسی کیخلاف رحم کی اپیل کرنے تک سے روک دیا تھا، اب اگرگاندھی جی کیوجہ سے یہ رُک جاتی تو دراصل ہماری ساری جدوجہد ہی اکارت چلی جاتی۔ بالکل اُسی طرح جیسے چند ناعاقبت اندیش لوگوں کیوجہ سے بٹوارا ہمارے لاکھوں لوگوں کیلئے پیغامِ اجل بن گیا۔ کیا پاکستان کے لوگ نہیں جانتے کہ نتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو پاکستان کے حصے میں آنے والے ایک کروڑ روپے اور جنگی ساز و سامان پاکستان کے حوالے کرنے کے مطالبے اور بچے کھُچے انڈیا میں مسلمانوں کیخلاف مظالم بند ہونے تک تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کرنے کیوجہ سے قتل کیا؟ آج جب جناح بھی رائل انڈین آرمی کے تربیت یافتاوں کی سازشوں کا شکار ہو کر ہمارے بیچ آن پہنچے ہیں تو غم نہ کرو کیونکہ یہی'وِدھی کا وِدھان' ہے۔
ہم نے جن حالات میں آنکھیں کھولیں، ان سے بہتر حالات پیدا کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔ کل اگر باقی رہ گئے لوگوں پر کوئی مسلط ہو جائے تو انکے پاس گاندھی، جناح اور لالا جی لاجپت رائے تینوں کی زندگیاں بطور نمونہ ہیں۔ جسکے سامنے جو حالات ہوں، وہ اپنے لیئے ویسے طرزِ عمل کا انتخاب کر سکتا ہے۔ گاندھی، جناح اور بھگت سنگھ کسی ایک نہیں بلکہ دونوں ملکوں کا تاریخی ورثہ ہیں۔اقبال جو ابتک چُپ تھے، اُٹھ کھڑے ہوئے، انکا اُٹھنا تھا کہ چاروں جانب شور پڑ گیا۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی ذات پات سے بے نیاز ملکر
"سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا"
گانے لگے۔ نظم ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اقبال نے ٹھیک اسی جگہ پر مل جُل کر رہنے کی قرار داد پیش کی جسے لاکھوں شہدا کیطرف سے اسی وقت قبول کر لیا گیا۔ اقبال کی اس حرکت پر گاندھی جی نے قہقہہ مارا اور بولے لیکن اسکا نام 'کوچہ ہندوستانیاں' نہیں بلکہ "کُوچہ تقسیم کاراں" ہو گا جسے جناح صاحب نے علی العلان منظور فرمایا۔ سب لوگ ک دوجے سے خوشی خوشی گلے مل رہے تھے کہ سُکھ دیو نے مسٹر جناح کی توجہ زمین کی جانب مبذول کروائی جہاں انکے قاتل سرکاری پروٹوکول میں انکے فانی جسم کو قبر میں اتار رہے ھے۔ پاس ہی ڈری سہمی فاطی (فاطمہ جناح) کھڑی ایک رشتہ دار خاتون کے کان میں کہہ رہی تھی۔
"یہ جلد مجھے بھی قتل کر دیں گے، ایسا ہوا تو مجھے بھائی کیساتھ دفن کرنا"
(ختم شُد)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...