مجھے جب اس تقریب کے منتظم اعلیٰ جناب سعید اختر ملک نے شرکت کا حکم دیا تو میں اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ میں نے اپنی سی کوشش کی کہ مجھے کچھ نہ کہا جائے لیکن ملک صاحب نہ مانے۔ مجھے یہ بتانے بلکہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میں ایک اُجڈ اور منہ پھٹ دیہاتی ہوں۔ مجھے جہاں کئی اور عوارض لاحق ہیں، دو تکلیفیں، خاص طور پر دوسروں کیلئے، تکلف دہ ہیں۔ ایک یہ کہ میرا تعلق اٹک سے ہے اور دوسرے میں اعوان ہوں۔ اٹک جسے وڈیروں نے نقصان پہنچایا اور وردی نے فائدہ کوئی نہیں دیا۔ ہاں یہ ضر ور ہے کہ اٹک کے علاقے نے فوج کو جوان بہت دیئے اور بہادر جوان دیئے۔ مجھے یاد ہے میں کالج پڑھتا تھا جب 1965ء کی جنگ چھڑی اور میں نے سنا کہ گائوں کا ایک جوان جو کمانڈو تھا مہم پر دشمن کے علاقے میں اُترا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ یہ وہی گائوں ہے جس نے کچھ عرصہ ہوا خادمِ پنجاب کی خدمت میں پریس کے ذریعے فریاد کی ہے کہ ڈسپنسری منظور ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ایک پتّہ بھی نہیں ہلا۔ ابھی تک یہ فریاد سُنی نہیں گئی۔ حالانکہ گائوں والے یہ یقین دلانے کیلئے تیار ہیں کہ اگر یہ ڈسپنسری بن گئی تو طبّی معائنے کیلئے کسی وزیر یا وزیراعلیٰ کو اس ڈسپنسری میں آنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ یہ حضرات حسب سابق… بدستور… تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد طبّی معائنے کیلئے لندن تشریف لے جاسکتے ہیں۔
اٹک سے میرا ہونا اس لئے بھی باعثِ اعزاز ہے کہ جناب شوکت عزیز قومی اسمبلی میں میرے ایم این اے تھے۔ حالانکہ میرے ضلع سے اُن کا تعلق اتنا ہی تھا جتنا پاکستان سے تھا۔ مشہور فارسی شاعر انوری بازار سے گزرا تو چوک پر مجمع لگا تھا اور ایک شاعر شعر سنا رہا تھا۔ انوری نے غور سے سنا تو یہ اُس کے اشعار تھے۔ اُس نے چور شاعر سے کہا کہ یہ تو انوری کے شعر ہیں۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ انوری کے شعر ہیں۔ انوری نے پوچھا کہ پھر تم کیوں سنا رہے ہو؟ چور شاعر بولا کہ میں ہی تو انوری ہوں۔ انوری نے کہا کہ شعر چوری ہوتے تو سنے تھے، شاعر چوری ہوتے پہلی بار سنا ہے۔ اس ملک میں جعلی ڈومی سائل، جعلی پاسپورٹ، جعلی ڈگریاں، جعلی دوائیں، جعلی عدلیہ تو بنتی رہی، جعلی ایم این اے بھی بھگتنا پڑا۔ عائشہ مسعود نے شوکت عزیز صاحب کو MERMAID وزیراعظم کا خطاب دیا ہے۔ مرمیڈ جل پری کو کہتے ہیں جس کا اوپر کا دھڑ انسانی اور نیچے کا مچھلی کا ہوتا ہے۔عائشہ کہتی ہیں کہ ان کا دماغ امریکی تھا اور جسم پاکستانی، مجھے نہیں معلوم اس پر امریکیوں کا ردعمل کیا ہوگا لیکن یہ کالم نگار انہیں پلاسٹک کا وزیراعظم کہا کرتا ہے۔ اُن کے جلسے میں بم پھٹا تو انہوں نے اٹک کی روایتی بہادری کی ’’لاج‘‘ رکھتے ہوئے وزیراعظم ہائوس سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اسلام آباد کی مضافاتی بستی بارہ کہو میں سوئی گیس کا افتتاح موصوف نے اپنے محل میں کیا۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ بارہ کہو میں آج تک سوئی گیس نہیں آئی!
میں نے کہا تھا کہ مجھے دوعارضے لاحق ہیں۔ ایک کا بیان ہو چکا۔ دوسرے کا قصہ یہ ہے کہ اعوان کی دو نشانیاں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ بُھکّا ہوتا ہے (امیر اعوانوں سے معذرت کیساتھ) دوسری یہ کہ آکڑا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ ماضی کا قصہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اعوان کا لفظ اعانت اور تعاون سے بنا ہے۔ جب سے ایک سابق صدر نے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ نچھاور کر دینے کا فیصلہ کیا تو پوری قوم ہی تعاون کرنے والی یعنی اعوان بن گئی۔ پھر اب تو ہم بھُکّے بھی نہیں رہے۔ آکڑ ختم ہو جائے تو کھانے کیلئے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ ہم نے اپنے بندے تک پکڑ پکڑ کر بیچے۔ جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی تھی وہ ایمان اور غیرت بیچ کر پوری کردی۔ محبوب خزاں یاد آگئے…؎
کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر
تھوڑی بہت اُنہی سے شرافت خریدئیے
یہاں شرافت کی جگہ غیرت پڑھیے۔ اس سے شعر کا وزن تو خراب ہوگا لیکن کوئی مضائقہ نہیں۔ بطورِ قوم ہمارا وزن یوں بھی کم ہو چکا ہے!
سعید اختر ملک نہ مانے اور میں اس بزم میںحاضر ہونے کیلئے تیار ہوگیا۔ لیکن کل صبح ایک اور سیاپا پڑگیا۔ مجھے دورے پڑنے لگ گئے۔ یہ دورے غشی کے نہیں بلکہ ہنسی کے تھے۔ میں نے ہنسنا شروع کردیا۔ یوں کہ ہنسی بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑنے لگے۔ کمر دُہری ہونے لگی اور آنکھیں اُبل کر باہر آنے لگیں۔ بیگم کسی بدحواسی کے بغیر… نہایت اطمینان کے ساتھ… ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور کہا کہ ’’اس بار دورہ ہنسی کا ہے‘‘۔ ٹیسٹ، ایکس رے، الٹرا سائونڈ، سی ٹی سکین اور نہ جانے کیا کیا ہوا (کافر فرنگیوں نے بھی کیا کیا آلات ایجاد کئے ہیں) بالآخر تشخیص ہوئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ صبح صبح میں نے جناب وزیراعظم کا بیان پڑھا جس میں انہوں نے اعلان فرمایا کہ ’’سرمایہ کاری کے ذریعے ہی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹا جاسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بات سرمایہ کاری بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے فرمائی۔ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق ہنسنے کی وجہ بیان کا وہ حصہ ہے جس میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان نہ صرف غذائی اشیا میں خودکفیل ہوگا بلکہ زرعی مصنوعات کی برآمد کیلئے علاقائی مرکز کے طور پر ابھرے گا۔ اب پتہ نہیں کہ چینی اور آٹا غذائی اشیا میں شامل ہیں یا نہیں۔ لیکن میرا ڈاکٹروں کی تشخیص سے اختلاف تھا۔
میرا خیال ہے کہ مجھے ہنسی کے دورے اس لئے پڑے کہ وزیراعظم نے سرمایہ کاری بورڈ میں تقریر کی اور کہا کہ سرمایہ کاری کے ذریعے ہی دہشت گردی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یہ تو اتفاق ہے کہ دہشت گردی کے زمانے ہی میں اُنہیں سرمایہ کاری بورڈ میں تقریر کرنا پڑی۔ ورنہ یہ تقریر اگر وہ وزارت صحت میں کرتے تو بیان یہ ہوتا کہ صحت کے ذریعے ہی دہشت گردی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا اگر یہ تقریر ٹکسال میں کی جاتی جہاں پیسے بنتے ہیں تو یہ کہا جاتا کہ پیسے بنانے سے ہی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹا جاسکتا ہے! بہر طور میں نے دوا کھائی اور یہاں حاضر ہونے کے قابل ہوگیا۔
اس تمہید کے بعد میں اب اس کتاب کی طرف آتاہوں جس کی پذیرائی میں اس خوبصورت اور متین تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ عائشہ مسعود کی تحریر میں ادبی حُسن تو ہے ہی، جو پہلو چونکاتا ہے وہ موضوعات کا تنوع ہے۔ اندرونی مسائل سے لے کر بیرون ملک پاکستانیوںکی قدرو قیمت تک اور شاہ ایران کے جنازے سے لے کر غریب قوموں کی خود مختاری کی تدفین تک۔ عائشہ نے بے شمارموضو عات پر قلم اٹھایا ہے اور موضوع پر اس کی قوت تحریر اور معلومات متاثر کرتی ہیں۔ لیکن خواتین و حضرات! مجھے افسوس ہے کہ جیسے میں اوپر عرض کر چکا ہوں میں ایک اجڈ اور منہ پھٹ انسان ہوں بلکہ سچ پوچھئے تو میں طوطا چشم بھی واقع ہوا ہوں۔ قابل احترام مصنفہ نے مجھے اس بزم میں بُلا کر میری عزت افزائی کی لیکن میں اب پینترا بدل کر اُس کیخلاف ہونے لگا ہوں‘حالانکہ نہ وہ اقتدار سے محروم ہو رہی ہے اور نہ میں پاکستانی سیاست دان ہوں!
اس کتاب میں کچھ حساس قومی رازوں کو فاش کرنے کا جرم کیا گیا ہے۔ متعلقہ محکموں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ مثلاً عائشہ لکھتی ہیں…’’جب بھٹو نے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو ضیاء الحق سے زیادہ سینئر افسران اس عہدے کیلئے موجود تھے۔ چنانچہ ضیاء الحق کے عہدہ سنبھالتے ہی پانچ جرنیلوں نے استعفے دے دیئے۔‘‘ اصل میں مصنفہ جس راز سے پردہ اٹھانا چاہتی ہیں وہ یہ ہے کہ جب جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا تو یہ فیصلہ مکمل ’’میرٹ‘‘ پر کیا گیا تھا!
ایک اورجگہ لکھتی ہیں…’’بنو عباس کی خلافت کے دوران ترک جرنیل اس قدر طاقت پکڑ گئے کہ عملاً خلیفہ گر بن گئے۔ جسے چاہتے خلیفہ بناتے اور جب چاہتے معزول کردیتے۔ جب ایک بار نیا خلیفہ مسند نشین ہوا تو اس کے درباریوں نے جوتشیوں سے پوچھا کہ بتائو نیا خلیفہ کب تک برسراقتدار رہے گا؟ ایک مسخرا بھی وہاں موجود تھا کہنے لگا مجھے اس کا جواب جوتشیوں سے بہتر معلوم ہے۔ اس کی خلافت اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک جرنیل چاہیں گے‘‘
آپ کا کیا خیال ہے یہاں کون سا قومی راز فاش کیا گیا ہے؟ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ واقعی اشارہ جرنیلوں کی طرف ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ یہ بھُول رہے ہیں کہ بنو عباس کے زمانے میں تو امریکہ دریافت ہی نہیں ہوا تھا!!
عائشہ مسعود ملک کی کتاب ’’وڈیروں سے وردی تک‘‘ کی افتتاحی تقریب میں پڑھا گیا)