آج اپنی سڑسٹھویں سالگرہ اپنی ماں کے قریب مناتے ہوئے کہ جس نے 67 سال پہلے اپنی پہلوٹی کہ یہ پیشکش دنیا کو دی تھی، مجھے کل اپنے وطن ثانی ہالینڈ روانہ ہونا ہے جہاں ایک وبا نے سڑکیں اجاڑ رکھی ہیں۔ اس لئے پہلا کام ڈچ میڈیا تلاش کرنا تھا کیونکہ
ہالینڈ کے وزیراعظم مارک رٹا Rutte نے کل شام کورونا بحران پر ایک پالیسی تقریر کرنا تھی۔ تقریر ٹی وی اور ریڈیو پر لائیو نشر کی گئی تھی اور ایسا ہالینڈ میں شازونادر ہی ہوتا ہے۔
رٹا نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہم ملک کو تالہ نہیں لگائیں گے۔ انہوں نے وبا کی شدت کا اعتراف کیا اور کہا کہ وبا موجود ہے اور ابھی اور پھیلے گی۔ اس سے انکار ناممکن ہے۔
اس سے نمٹنے کے لئے
ایک راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ سماجی اور معاشی زندگی پر کوئی پابندی نہ لگائی جائے اور وائرس کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے۔
دوسرا یہ کہ سارا کاروبار زندگی ٹھپ کر دیا جائے (جیسا کہ فرانس میں کیا گیا)
اور تیسرا جو ہم اپنا رہے ہیں وہ وائرس کو کنٹرول کرنے کے لئے سائینسی اور طبی حل تلاش کرنے کا راستہ ہے۔ انتظار کیا جائے۔ اس دوران لوگوں میں ایک اجتماعی مزاحمت ( group immunity ) بھی پیدا ہو گی۔
کچھ غیرملکی ماہرین نے اس فیصلے کو خطرناک قرار دیا ہے۔ کہ ایسی کسی اجتماعی مزاحمت کی کوئی سائینسی بنیاد نہیں ہے۔
ہالینڈ کی اجتماعی ذہنیت کو عام طور پر سوداگرانہ غیرجذباتیت کا غماز قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن دل لگتی کہیئے، کیا یہی عقلمندی کا تقاضا نہیں۔
یا ہو سکتا ہے کہ مجھے یہ عقلمندی اس لئے لگ رہی ہو کہ مجھے خوشی ہے کہ میں گھر واپس لوٹ سکتا ہوں۔