ووٹ کو نہیں ووٹر کو عزت دو
حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں قاضی شریح اسلامی مملکت کے چیف جسٹس تھے ۔ امیرالمومنین اور ایک یہودی کے درمیان ایک تنازعہ پیدا ہو گیا ۔ امیرالمومنین کی زرہ کہیں گر گئی تھی جو یہودی کو ملی۔ امیرالمومنین کو معلوم ہوا تو انہوں نے یہودی سے اپنی زرہ واپس مانگی ۔ یہودی نے زرہ دینے سے انکار کر دیا ۔ امیرالمومنین جو اسلامی مملکت کے سربراہ تھے، انہوں نے حکومتی یا ذاتی اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا بلکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چیف جسٹس نے دونوں فریقین کے بیانات سنے ۔ یہودی نے کہا یہ زرہ میری ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ میرے قبضے میں ہے ۔ چیف جسٹس امیرالمومنین سے گواہ پیش کرنے کو کہتے ہیں ۔ وہ دو گواہ پیش کرتے ہیں حضرت حسنؓ اورحضرت قنبرؓ ۔ چیف جسٹس نے قنبرؓ کی گواہی تو قبول کرلی لیکن حسنؓ کی گواہی ماننے سے انکار دیا۔ اس پر حضرت علیؓ کہا ’’ کیا آپ نے رسول اللہﷺ کا ارشاد نہیں سنا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔‘‘ چیف جسٹس نے کہا ’’ بالکل سنا ہے لیکن باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت مجھے قبول نہیں ‘‘
دوسرا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت علی یہ مقدمہ ہار گئے ۔ امیرالمومنین نے نہ تو احتجاج کیا ۔ نہ کوئی آرڈیننس نافذ کیا ۔ نہ کوئی تحریک چلائی۔ وہ چاہتے تو جج کو فوری ہٹا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا بھی نہی کیا ۔ قاضی شریح اموی خلیفہ عبدالمالک کے زمانے تک ساٹھ برس اس منصب پر فائز رہے ۔ حضرت علیؓ کی انصاف پسندی اور ان کی حلم و شرافت دیکھ کر یہودی نے نے اقرار کر لیا کہ زرہ اس کی نہیں ہے ۔ اسلامی اقدار اور نظامِ عدل پر وہ اتنا فدا ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرنے کا علان کر دیا ۔ امیر المومنین نے اس پر ہرجانے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس کے سچ بولنے اور اسلام قبول کرنے کی خوشی میں وہ زرہ اس کو تحفتاَ دے دی ۔ ایسی روشن مثالوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہم ان ہستیوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں ان پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات سے ، ان کی مثالوں سے ہماری زندگیوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ ایک طر ف تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ان برگزیدہ ہستیوں پر ہماری جان و دل قربان ہے، دوسری طرف ہمارے اعمال اور ہماری حیات ان کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں ۔
پاکستان بھی اسلامی مملکت ہے ۔ کیا ہمارے حکمران اپنے آپ کو اس طرح انصاف کے لئے پیش کر سکتے ہیں۔ کیا وہ بھی عدالت کے فیصلے پر اسی طرح سرِ تسلیم خم کرسکتے ہیں ۔ کیا وہ عدالتوں کے فیصلوں پر دل و جان سے عمل در آمد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ ہمارے حکمران خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔ وہ نہ عدالتوں کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ان کے فیصلوں کو ۔ وہ عدالتوں اور ججوں کی تضحیک کرتے ہیں ، ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں، انہیں دھمکیا ں دیتے ہیں اور عدالتوں پر حملے بھی کرتے ہیں۔ یہ کام ڈان ، مافیا کے باس اور مجرم تو کر سکتے ہیں لیکن کوئی سیاسی رہنما ایسا نہیں کر سکتا ۔ سیاسی رہنما تو قانون اور اصول کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ۔ وہ عوام کو قانون کی راہ دکھاتا ہے اور انہیں قانون شکنی سے باز رکھتا ہے ۔ اگر لیڈر ہی قانون کی پرواہ نہ کرے تو عوام کو اس غلط کام سے کون روکے گا ۔ اگر وہ خود ملکی قانون اور انصاف کا باغی بن جائے تو عام لوگوں کو اس سے باز کون رکھے گا ۔ پھر تو پورا ملک انارکی کے راستے پر چل پڑے گا ۔ ہر کوئی قانون کی خلاف ورزی کو جائز بلکہ احسن کام سمجھے گا ۔ اگر کرپٹ لوگوں کو پکڑنا جرم بن گیا تو کرپشن کا بازار مزید گرم ہوگا اور لوگ فخر سے یہ کام کریں گے ۔
یہ کیسی سیاست اور کیسی طرزِ حکمرانی ہے کہ ساری سیاست ، ساری جوڑ توڑ اور ساری کوششیں چند کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لئے کی جارہی ہیں ۔ کہیں پر بھی عوام اور ان کے حقوق ، ان کے مسائل پر بحث نہیں ہوتی ۔ کہیں پر تعلیم ، صحت ، روزگار اور پینے کے پانی کے بارے میں جلسے اور ریلیاں نہیں ہوتیں ۔ کسی جلسے میں کسانوں ، مزدوروں کے مسائل پر نعرے نہیں لگتے ۔ ووٹ کو عزت دو کی بات بار بار کی جاتی ہے جس سے مراد کرپٹ سیاست دانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے روکنا ہے ۔ انہیں کرپشن اور لوٹ مار کی کھلی چھٹی دینا ہے اور انہیں قانون سے بالاتر اور اس کی دسترس سے محفوظ رکھنا ہے ۔ ان کے مسندِ اقتدار کو مضبوط کرنا ہے ۔ انہیں آسمانی مخلوق سمجھ کر تمام قوانین سے مبرا قرار دینا ہے ۔ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے والوں کا مقصد صرف سیاست دانوں کو عزت دینا ہے۔ مجھے کوئی یہ بتائے کہ کیا صرف سیاست دان عزت کے مستحق ہیں۔ ریاست کے بقیہ طبقات کی عزت نہیں ہے کیا ۔ کیا جج ، سپاہی ، استاد، تاجر ، مزدور ، کسان، صحافی ، شاعر ، ادیب ، فن کار، ریڑھی بان اور طالب علم کو اس لئے عزت دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے پاس ووٹ نہیں ہیں ۔ ووٹ کو عزت دو سے تو یہی مطلب نکلتا ہے ۔ اگر عوام کی فکر ہو تو’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے بجائے’ ووٹر کو عزت دو ‘ کا نعرہ لگنا چائیے تھا۔ جب ہمارے حکمران ووٹر کو عزت دینا شروع کریں گے ووٹ کو خود بخود عزت مل جائے گی ۔
tariqmmirza@hotmail.com
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔