پاکستان کی پارلیمانی تاریخ بھی عجیب ہے۔تقسیم ہندکےبعداسمبلی بھی دوحصوں میں تقسیم ہوئی۔پاکستان کی اسمبلی میں کل ممبران69تھے۔بعدمیں10اراکین کااضافہ ہوا۔یہ اراکین بغیرکسی الیکشن کےگورنرجنرل کےحکم سےاسکاحصہ بنےتھے۔اسمبلی میں اپوزیشن جماعت پاکستان نیشنل کانگریس تھی۔جسکےممبران ہندوتھے۔
1947میں ہندکی تقسیم کیساتھ اسمبلی بھی تقسیم ہوئی اورسیاسی جماعتیں بھی تقسیم ہوئیں۔انڈین نیشنل کانگریس کےبنگالی ممبران نےانڈین نیشنل کانگریس سےالگ ہوکرپاکستان نیشنل کانگریس بنائی۔اسمبلی میں اسکے10اراکین تھے۔بھارت میں پہلےعام انتخاب آزادی کے4سال بعدہوئے۔پاکستان میں24سال بعدہوئے۔
پاکستان کی اسمبلی20-21ستمبر1954کی درمیانی شب توڑی گئی۔اسکی وجہ یہی تھی کہ اسمبلی گورنرجنرل کےغیرقانونی اختیارات ختم کرناچاھتی تھی۔یادرھےاسمبلی کےسپیکراوروزیراعظم دونوں بنگالی تھے۔جس سےبنگالیوں میں نفرت نےجنم لیا۔21جون کودوسری اسمبلی وجودمیں آئی۔اسےصوبائی اسمبلیوں نےمنتخب کیاتھا۔
پاکستان کی دوسری اسمبلی کادلچسپ پہلویہ تھااس میں منتخب کئی اراکین پرحکومت غداری کےمقدمات والزامات لگاچکی تھی۔بعدمیں یہی غدارآرمی چیف ایوب کساتھ کابینہ اجلاس میں شامل رھے۔سہروردی کووزیراعظم بننےسےروکنےکیلئےسکندرمرزانےفضل الحق سےخفیہ ڈیل کی۔فضل الحق کوسکندرمرزاغدارقراردےچکےتھے۔
پاکستان کےپہلے6وزرائےاعظم کسی حلقےسےجیت کرنہیں آئےتھے۔بلکہ انکوصوبائی اسمبلیوں نےمنتخب کیاتھا۔پاکستان میں پہلےعام انتخاب مارچ1951میں پنجاب میں ہوئے۔جس میں مسلم لیگ کوفتح حاصل ہوئی مگران الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔اس کیخلاف حسین شھیدنےتحریک چلانےکااعلان کیا۔ووٹ کوعزت دوکی پہلی تحریک۔
پنجاب کےبعددسمبر1951میں خیبرپختونخواہ میں الیکشن ہوئے۔وزیراعلی خان قیوم تھے۔انہوں نےحسین شھیدکےصوبہ آنےپر6ماہ کی پابندی لگادی۔اپنےمخالف امیدواروں کونااہل قراردیکربلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ایک امیدوارماسٹرعبدالکریم کوجیل بھی بھیجاگیا۔نتیجہ یہ ہوامسلم لیگ نےالیکشن جیت لئے۔
مئی1953میں سندھ اسمبلی کےصوبائی الیکشن ہوئے۔یادرھےسندھ میں گورنرراج نافذتھا۔مسلم لیگ کوجتانےکیلئےبھرپورکام کیاگیا۔112میں اکثریت مسلم لیگ نےحاصل کیں۔اسوقت اپوزیشن لیڈرجی۔ایم۔سیدتھےجوسیہون سےمنتخب ہوئےتھے۔اسمبلی نےپہلےپیرذادہ عبدالستارکووزیراعلی چنااسکےبعدایوب کھوڑوکو۔
مارچ1954میں بنگال میں الیکشن ہوئے۔جس میں مسلم لیگ کوجگتوفرنٹ کےہاتھوں بدترین شکست ہوئی۔مگرجگتوفرنٹ کی حکومت کوصرف ڈیڑھ ماہ بعدگھربھیج دیاگیا۔صوبےمیں گورنرراج نافذکیاگیا۔1958تک قومی اسمبلی کوصوبائی اسمبلیوں کےراکین منتخب کرتےرھے۔صوبائی اسمبلیوں کوعوام برائےراست منتخب کرتےتھے۔
بنگال اورپنجاب کی تحریک کےبعدبااثرحلقےیہ جان چکےتھےبرائےراست الیکشن میں دھاندلی نئےفسادکوجنم دیتی ہے۔سواسکاخاتمہ ضروری ہے۔1958میں ایوب خان نےمارشل لالگایا۔27اکتوبر1959کوبنیادی جمہوریت کاقانون نافذہوا۔جنوری1960میں80ہزار بنیادی جمہوریت کےاراکین منتخب ہوئے۔600ووٹرپرایک رکن تھا۔
لوگ14فروری کوویلنٹائن ڈےمناتےہیں۔اسی دن سےپاکستان کی جمہوریت کاتاریک دن بھی جڑاہے۔14فروری1960کوپاکستان میں ایوب خان نےپہلاریفرنڈم کروایا۔جس میں80ہزاراراکین نےایوب کو10کروڑعوام کانمائندہ چن لیا۔انکو96%ووٹ حاصل ہوئے۔ہرچندانکوتوقع100%کی تھی۔ہماراویلنٹائن بھی آمریت کیلئےخوشی لاتاہے۔
اپریل1962کو80ہزاربنیادی اراکین نےمشرقی اورمغربی اسمبلیوں کےممبران کومنتخب کیا۔سیاسی جماعتوں کوکالعدم قراردیکرالیکشن لڑنےسےروک دیاگیاتھا۔جبکہ اس سےپہلے600نمایاں سیاستدانوں کونااہل قراردےچکےتھے۔عوام کوان الیکشن میں صرف جلسوں میں نعرہ لگانےکی اجازت تھی۔ووٹ کاسٹ کرناانکاحق نہیں تھا۔
جنوری1965میں انہی 80ہزاراراکین نےپہلےایوب خان کوصدرمنتخب کیا۔بعدازاں صوبائی اسمبليوں کےاراکین کوبھی منتخب کیا۔یعنی پاکستان میں دواسمبلیاں ایسی بھی تھیں جن کوعوام نےبرائےراست منتخب نہیں کیاتھا۔بنیادی جمہوریت کاامیدواروہی بن سکتاتھا جوسرکارکی مقررکردہ حدکےمطابق جاگیررکھتاہویاپیسے۔
یادرھے1947سے1971تک بلوچستان میں کوئی الیکشن نہیں ہوئے۔بلکہ اراکین کووفاق کےزیرانتظام کنٹرول علاقےکےطورپرچلایاگیا۔اس دوران مکران،خاران،لسبیلہ اورقلات سےاراکین کونامزدکیاجاتاتھا۔جواسمبلی کاحصہ بنتےتھے۔یہ سلسلہ1969تک جاری رہا۔ون یونٹ کےخاتمےکےبعدبلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال ہوئی۔