ووٹ غریب کا، حکومت اُمرا کی
’’ووٹ کو عزت دو‘‘، اس سیاسی مہم کا آغاز میاں نوازشریف نے اپنی پارٹی کی حکومت کے آخری سال کے آخری مہینوں میں کیا۔ سینٹ میں انتخابات میں اُن کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی شکست کے بعد موجودہ انتخابات سے چند ماہ پہلے، یعنی سینٹ میں اپنی پارٹی کی بالادستی کا خواب چکناچور ہونے کے بعد۔ اس سیاسی مہم ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے پیچھے وہ کشمکش کارفرما ہے جس کو وہ اشاروں کنایوں میں ’’سول سپریمسی کی جنگ‘‘ قرار دے رہے تھے۔ یعنی منتخب حکمرانوں کی سول سپریمسی Civil Supremacy۔ یہ ایک سیاسی حکمران کا سیاسی نعرہ ہے جو تقریباً پینتیس سال سے اکیلا حکمران نہیں بلکہ اُن کے چھوٹے بھائی شہباز شریف بھی اس حکمرانی میں حصہ دار رہے اور پچھلے پانچ سالوں سے اُن کی غیرمنتخب بیٹی بھی، جو حکومت میں کسی بھی وفاقی اور طاقتور منتخب وزیر سے بہت زیادہ اثرورسوخ رکھتی تھیں۔بلکہ اس رہبر کے خاندان کے پینسٹھ کے قریب افراد حکومت کے مالک تھے۔ ایک بھتیجا جناب حمزہ شہباز شریف، پنجاب اور وفاق میں حکومتی اثرورسوخ کی اپنی مثال آپ ہیں۔ یقینا مریم نوازشریف اور حمزہ شہبازشریف نے کبھی بندۂ مزدور کی اوقات کا تجربہ نہیں کیا ہوگا۔ حقیقت میں میاں نوازشریف اور شہبازشریف نے بھی نہیں۔ ووٹ ڈالنے والے سب مزدور اور محنت کش لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے ہاتھوں سے رزق تلاش کرتے ہیں اور ووٹ لینے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کے لیے دوسرے رزق پیدا کرتے ہیں، وہی لوگ حکمرانی بھی کرتے ہیں۔
مغرب کے لاتعداد احسانات ہیں، سائنسی ایجادات سے لے کر سیاسی تصورات تک۔ یہ جو جدید جمہوریت ہے، یہ بھی موجودہ مغرب ہی کی دین ہے۔ اس جمہوریت کا حقیقی تصورحکمرانی کی تقسیم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ ہمارے بڑے مذہبی لیڈروں نے کروشیا کی صدر کو ایک عام آدمی کی طرح اپنی فٹ بال ٹیم کا میچ دیکھتے ہوئے دیکھا۔ مجھے لاتعداد کلپس اُن لوگوں نے بھیجے جو آج کے اُن مسلمان حکمرانوں کے مداح ہیں جو ایک ہزار سے زائد کمروں کے محل میں رہتے ہیں، جن کے داماد اور بیٹے بیٹیاں قوم کی دولت لوٹتے ہیں۔ ایسے ایسے حکمران جن کی بیگمات کے حجاب ہزاروں ڈالرز کے اور اسی طرح ہینڈ بیگز بھی اور اُن کی جعلی کہانیوں کے کارخانے کھلے ہیں کہ دنیا کے فلاں مسلم حکمران کا باپ تربوز بیچتا ہے۔ دنیا کے فلاں موجودہ حکمران کا باپ ورکشاپ میں مزدوروں کی طرح کام کرتا ہے۔ اپنی جھوٹی کہانیوں کا یقین دلانے کے لیے جس طرح حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں، اللہ اللہ۔ اور کفار کے حکمرانوں کی حقیقی زندگی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ جی، اسی مغرب نے روحانی جمہوریت کا تصور دیا تھا، جس کو مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے آج سے تقریباً ایک سو سال قبل اپنے موضوعات میں سرفہرست رکھا۔ اقبالؒ کے اشعار پر سیاسی تشریح کرنے والوں، خوابوں سے اپنی تعبیریں پیش کرنے والوں کو، اقبال کے فلسفے کو اپنی زندگیوں، سیاست اور حکمرانی میں لانا چاہیے۔اسی مغرب نے جمہوریت کی جو تشریح کی، کاش وہ ہمارے تک پہنچ جاتی۔ وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ حکمرانی کو نچلی سطح تک شہر، قصبے، گائوں، گلی، محلے، مرد، عورت اور ہر ایک فرد تک منتقل کردو۔ سیاسی حکمرانی سے لے کر معاشی حکمرانی تک۔
پاکستان میں بھی Civil Supremacy کی جنگ یا جدوجہد یقینا سیاسی لوگوں، سیاسی لیڈروں اور سیاسی جماعتوں نے بھی لڑنی ہے۔ کیا انہوں نے اس جنگ یا جدوجہد کو اس انداز میں لڑا کہ حکمرانی، منتخب لوگوں سے ہوتی ہوئی، منتخب کرنے والوں یعنی ووٹرز تک آجائے؟ ایسے ہی 1970ء کے انتخابات میں پی پی پی کا سیاسی نعرہ تھا، ’’طاقت کاسرچشمہ عوام ہیں‘‘ بلکہ یہ پی پی پی کے چار بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بھی اس وقت کے سیاسی حکمران طبقات نے تشریح اپنے انداز میں کی کہ طاقت عوام سے لو اور حکمرانی خود کرو جبکہ اس سیاسی نعرے کی حقیقی تشریح یہ ہے کہ اقتدارِاعلیٰ کے مالک عوام ہیں۔ وہی منتخب کریں اور اسی منتخب نظام میں ہر انداز میں حصہ دار بھی رہیں۔ اس نعرے کے خالق کی نظر میں بھی یہی تشریح تھی۔ مغرب نے حکمرانی کی طاقت کا مالک ووٹر کو بنایا کہ اس کے ووٹ سے نہ صرف حکومت بنے بلکہ وہ حکومت کا حصہ ہوتا ہے۔ ہر فرد کو طاقت کی تقسیم اوپر سے نیچے تک بلکہ عملاً طاقت کا اہرام نیچے سے اوپر جاتا ہے یعنی حکمرانی نیچے سے اوپر، نہ کہ اوپر سے نیچے۔ پاکستان میں Civil Supremacy کی جنگ کرنے والے اپنی طاقت ((ووٹرز) کے ساتھ کیا ایسا کرنے کا تصور رکھتے ہیں، کیا اس پر یقین رکھتے ہیں؟ افسوس ، وہ نہ تو ایسا تصور رکھتے ہیں اور نہ ہی یقین اور اگر تلخ حقیقت جانیں تو وہ اس فلسفے کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔
جو سطور میں نے اوپر لکھیں، کیا مریم نوازشریف اور حمزہ شہباز شریف اور جو جدید نسل کے نمائندے ہیں، کیا اس فلسفۂ جمہوریت کا ادراک رکھتے ہیں۔ ایسے حکمران اور اُن کے ’’چشم وچراغ‘‘جن کے لیے کھانوں کی پلیٹیں بھی دوسرے لوگ پکڑتے ہوں، کیا اُن کو اس فلسفۂ جمہوریت کا ادراک بھی ہے جو انسان کو یہ درس دیتا ہے کہ جمہوریت ایک طرزِزندگی ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بہت خوب! آپ نے اصطلاحوں کے استعمال سے، ڈھکے چھپے الفاظ میں حکمرانی کے مراکز کے خلاف علم ِبغاوت سربلند کررکھا ہے۔ ’’خلائی مخلوق‘‘ جیسے الفاظ گھڑے گئے۔ آپ کے دربار میں خلعت پانے والے قلم کاروں کو میں نے واہ واہ کرتے اور داد دیتے دیکھا کہ میاں صاحب، کمال اصطلاح گھڑی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر آپ کھل کر لڑائی کرتے، مگر آپ کر نہیں سکتے، اس لیے کہ آپ جمہوریت کے تصور سے آگاہ ہی نہیں۔ آپ کے نزدیک جمہوریت میٹرو بس، فلائی اوور، اورنج ٹرین کے بطن سے نکلتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت انسانوں کے اجتماعی بنیادی حقوق سے جنم لیتی ہے۔ تعلیم، روزگار، صحت اور رہائش، اس کے بعد سب سہولیاتِ زندگی بونس ہیں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی جنگ آپ جیت سکتے تھے، اگر آپ نے اقتدار کا ارتکاز نہ کیا ہوتا۔ اگر آپ اقتدار خاندانوں سے نکال کر انسانوں تک پھیلا دیتے۔صوبہ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ ، تمام صوبوں میں بلدیاتی حکومتیں ہیں، مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ کون ہیں بلدیاتی حکمران؟ وہی کامونکی کا حکمران ہے جو پنجاب کا وزیراعلیٰ ہے۔ وہی رتوڈیرو کا حکمران ہے جو سندھ کا وزیراعلیٰ۔ وہی ہشت نگر کا حکمران ہے جو صوبہ خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ۔ وہی دالبدین کا حکمران ہے جو بلوچستان کا وزیراعلیٰ۔ جدید مغربی جمہوریت میں لندن کا حکمران اور برطانیہ کا حکمران مختلف ہوتا ہے۔ اور اسی طرح لندن اور برطانیہ کا حکمران اس کے شہری اور پوری قوم ہے۔ میئر لندن یا وزیراعظم برطانیہ تو ایک ذمہ داری ہوتی ہے بس۔ لوگ اپنا ایک نمائندہ چنتے ہیں جو وہ نیچے سے جیتتے چلے جاتے ہیں، یعنی اقتدار کا اہرام نیچے سے اوپر۔ جمہوریت میں جب خاندان ، بیٹے، بیٹیاں، بہن، بھائی اور پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں آجائیں تو اسے جمہوریت نہیں کہتے۔ وردی کے بغیر ان حکمرانوں کو تصور کرنے والے، یقین دلانے والے، جمہوریت کی تعریف میں آتے یہ لوگ دراصل آلیگارک(Oligarch) ہوتے ہیں۔ ووٹ کے ذریعے وردی کے بغیر حکمرانی۔ اس لیے آپ وردی کی حکمرانی کے خلاف کس طرح اپنے آپ کو جمہوری لیڈر قرار دے سکتے ہیں؟ پاکستان میں ایسی حکمرانی وردی میں ہویا بغیر وردی کے، دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ یعنی اقتدار عوام تک پہنچا ہی نہیں۔ جمہوریت میں خاندانوں کی حکومت ممکن ہی نہیں۔ جمہوریت میں حکومت کا تصور عوام کی ہی حکومت ہوتی ہے، نہ کہ سب عوام پر ایک فرد، اس کے خاندان یا اس کے سول گروہ کی حکومت۔
افسوس کہ پاکستان کے بائیں بازو کا ایک طبقہ جو کبھی انقلاب کو سابق اشتراکی ممالک کے سفارت خانوں سے برآمد کرنا چاہتا تھا، پھر این جی اوز کے بطن سے انقلاب لانا چاہتا تھا، اب یہ شکست خوردہ بایاں بازو آپ جیسے Financial Capitalist کی قیادت میں انقلاب لانا چاہتا ہے۔ یعنی آپ میاں نوازشریف اور اہل خانہ Industrial Capitalists بھی نہیں۔ سرمایہ کاری کرنے والا سرمایہ دار طبقہ، صنعتوں کی بجائے مختلف پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے والا طبقہ۔ فنانشل سرمایہ دار۔ آج کے عالمی سرمایہ داری نظام میں ملک اور قوم کی سرحدوں کے آرپار مختلف پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے والا یہ طبقہ تو کسی ایک قوم وملت کا اثاثہ ہی نہیں ہوتا۔ وہ اپنا سرمایہ آج اس ملک تو کل دوسرے ملک میں لگاتا ہے اور یوں عالمی سرمایہ داری کا ایک عالمی دُم چھلاّ ہوتا ہے۔ ہمارا ناکام بایاں بازو اس Financial Capitalist سے سول حکمرانی اور سول حکمرانی کے بطن سے عوامی جمہوریت کے جنم کا خواب دیکھ رہا ہے۔
’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی درج بالا تشریح اگر غلط ہے تو راقم بحث کے لیے تیار ہے، آپ کی صاحب زادی مریم نواز کے ساتھ یا آپ کے بھتیجے حمزہ شہباز شریف کے ساتھ، کیوں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے سے مستقبل میں یہی مستفیض ہوں گے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن۔۔۔
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
عوام کو ایک نئے سراب میں جھونکنے والاپاکستانی طبقۂ امرا، ووٹرز سے ووٹ لے کر اس کے بدلے اُن کو کیا دیتا ہے؟ اُمرا کی حکمرانی، خاندانوں کی حکمرانی، اپنے بیٹے بیٹیوں کی حکمرانی۔ اگر آپ اُمرا ،سول حکمرانی قائم کرنے میں مخلص ہوں تو کس عسکری قوت نے روکا تھا آپ کو تعلیم لازم اور مفت کرنے سے؟ کس جی ایچ کیو نے روک رکھا ہے ہاریوں، کسانوں، دہقانوں کو غلام داری نظام سے نکال کر آزاد کرنے کے لیے؟ کس عسکری ادارے نے آپ کی سول حکومتوں کو روک رکھا تھا عوام کو مفت اور جدید علاج کی سہولیات کی فراہمی سے؟ Civil Supremacy قائم ہو سکتی ہے، اگر آپ سول (یعنی عوام) کو اُن کے بنیادی حقوق دینے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ آپ اُمرا کا طبقہ جو ووٹ لے کر حکومتوں میں آتا ہے، آپ ’’بندۂ ووٹ‘‘ کے تلخ اوقات سے آگاہ ہی نہیں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ’’حکمرانی کریں امرا‘‘ یہ ہے پاکستان کے ریاستی اور سماجی نظام کے بطن سے نکلنے والی جمہوریت کی حقیقت۔