یہ ایک کیچڑ بھرا میلا قصبہ تھا۔ پیرودھائی یا بادامی باغ جیسا۔ بس فرق یہ تھا کہ سمندر کے کنارے تھا۔ یہاں چپوئوں سے چلنے والی کشتیاں تھیں، انسانی ٹانگوں کے زور سے حرکت کرتے سائیکل رکشے تھے۔ ریڑھیاں دھکیلتی مریل چینی عورتیں تھیں اور چائے بیچتے لکڑی کے غریبانہ کھوکھے تھے۔ حالت یہ تھی کہ سنگا پور کو 1965ء میں ملائیشیا نے الگ کر دیا تو لی کوانگ یِؤ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ الگ ہو کر زندہ کیسے رہیں گے۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔
لیکن سنگا پور خوش قسمت تھا کہ اسے لی جیسا لیڈر ملا ہوا تھا۔ یہ لی کا وژن تھا جس نےچند سالوں میں سنگا پور کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیا۔ کیچڑ بھری بستی زمین پر دمکتا ستارہ بن گئی۔ آج ترقی یافتہ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی کمپنی ہو جس کا دفتر یا ایشیائی ہیڈکوارٹر سنگا پور میں نہ ہو۔
آپ لی کے وژن کا اندازہ لگایئے۔ سنگا پور میں تین بڑے گروہ آباد ہیں۔ چینی 74 فیصد ہیں۔ مَلے (ملا ایشیا کے ہم نسل) تیرہ فیصد اور انڈین تامل نو فیصد۔ لی نے سنگا پور کے لیے چار قومی زبانیں تجویز کیں۔ انگریزی، چینی، مَلے اور تامل۔ نوفیصد ہندوستانی نژاد آبادی کو بھی اتنی ہی اہمیت دی گئی جتنی 74فیصد چینیوں کو۔ لی کو نظر آرہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انڈین اقلیت تامل کے بجائے انگریزی پر انحصار کرنے لگے گی؛ چنانچہ آج بہت سے تامل خاندان اپنے گھروں میں بھی انگریزی بولنے لگے ہیں۔ چینی اور مَلے آبادی بھی انگریزی پر پہلے سے زیادہ انحصار کررہی ہے اور یوں آہستہ آہستہ سنگا پور کثیر القومی ہونے کے باوجود لسانی وحدت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ہے وژن۔ اگر سنگا پور کی سیاسی قیادت صرف انگریزی یا چینی کو قومی زبان قرار دیتی تو فسادات نہ بھی ہوتے تو زیرزمین بے اطمینانی کی لہریں ضرور اپنا تخریبی کام شروع کر دیتیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارا رویّہ کس قدر ناپختہ اور دوراندیشی سے خالی تھا۔ ہم نے بنگالی کو قومی زبان تسلیم کیا لیکن اس وقت جب محرومی کے بیج بوئے جا چکے تھے اور ہماری چونچ اور دم گم ہوچکی تھی۔ نااہلی کا یہ عالم ہے کہ جس اردو کو ہم نے مشرقی پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی، وہ آج چونسٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم خود اپنے اوپر نافذ نہیں کرسکے اور کیا وفاق اور کیا چاروں صوبائی حکومتیں، کاروبار مملکت ہر جگہ انگریزی زبان میں ہورہا ہے!
لی کے وژن کا ایک اور کرشمہ دیکھیے۔ اسے نظر آرہا تھا کہ اگر سنگا پور میں چینیوں، مَلے اور ہندوستانیوں نے الگ الگ بستیاں بسا لیں تو نسلی امن کبھی قائم نہ رہ سکے گا۔ چینی مَلے آبادی کو نفرت سے دیکھیں گے اور دونوں انڈین آبادی کو بدیشی سمجھیںگے۔ اس نے ایسی ہائوسنگ پالیسی بنانے کی ہدایت کی کہ کسی ایک گروہ کو شہر کے کسی حصے میں اکثریت نہ حاصل ہو۔ اس پالیسی کو
Integrated Housing Policy
کا نام دیا گیا۔ ایک ایک بلاک میں چینیوں، مَلے اور ہندوستانیوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا۔ فلیٹوں کی جس بستی میں چینیوں، مَلے یا ہندوستانیوں کی تعداد ایک مقررہ حد تک پہنچ جاتی، اس بستی میں انہیں مزید رہائش گاہیں خریدنے یا کرائے پر رہنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1965ء سے، جب آزادی ملی، آج تک سنگا پور میں نسلی فسادات نہیں ہوئے اس لیے کہ تینوں نسلی گروہ اس ترتیب سے پورے شہر میں پھیلائے گئے ہیں کہ کسی ایک گروہ کا ارتکاز کہیں ہو ہی نہیں سکا۔ سنگا پور کی اس پالیسی کا دنیا کے بہت ممالک اتباع کررہے ہیں۔ بھارت نے آندھرا پردیش میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے مکانوں کا کوٹہ مقرر کیا ہے تاکہ کسی ایک گروہ کا ارتکاز نہ ہوسکے۔
ہائوسنگ پالیسی نہ ہونے وجہ سے ہم نے مشرقی پاکستان میں ٹھوکر کھائی۔ ڈھاکہ میں غیر بنگالیوں نے محمد پور اور میر پور کے ناموں سے اپنی بستیاں الگ بسا لیں۔ یوں کہ ان میں کسی بنگالی کا رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بستیاں الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے نمایاں ہوگئیں۔ نفرت کا نشانہ بنتی گئیں اور پھر ان پر حملہ کرنا آسان ہوگیا۔
کراچی ہماری کوتہ نظری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اگر ہمارے لیڈروں میں بھی اتنا ہی وژن ہوتا جتنا لی کوانگ یئو میں تھا تو سہراب گوٹھ وجود میں آتا نہ لالو کھیت اور نہ عزیز آباد۔ حماقت کی انتہا ہے کہ پٹھانوں کے علاقے الگ ہیں، بلوچوں کے الگ، ہزارہ والوں کے الگ اور سرحد پار سے آنے والوں کے الگ ہیں۔ جو بویا تھا آج کاٹا جارہا ہے۔ انتخابی حلقوں کے جھگڑے بھی اسی وجہ سے ہیں۔
لیکن ہم نے ڈھاکہ سے سبق سیکھا نہ کراچی سے۔ اب ہم ایک اور ڈھاکہ‘ ایک اور کراچی بنا رہے ہیں اور اس کا نام لاہور ہے۔ ہم ایک نیا گڑھا کھود رہے ہیں۔ قتل و غارت کا نیا بیج بو کر اس میں کھاد ڈال رہے ہیں تاکہ کل لاشوں کی فصل کاٹ سکیں۔ اس کالم نگار نے کئی مضامین میں اس صورتحال کی طرف اشارہ کیا لیکن نقار خانے میں طوطی کی کسی نے نہ سنی۔ اب پانی سر سے اتنا گزر چکا ہے کہ دوسروں نے بھی چیخنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک معاصر میں ایک معروف کالم نگار نے لکھا ہے: ’’لاہور شہر کے اندر غیر ملکیوں کی باقاعدہ بستیاں نہ صرف آباد ہوچکی ہیں بلکہ خوب مستحکم بھی ہوچکی ہیں۔‘‘ آگے چل کر کالم نگار لکھتے ہیں: ’’چند سال کے اندر اندر لاہور بھی کراچی کا سا منظر پیش کررہا ہوگا۔‘‘
یہ صورت حال پورے پنجاب میں ہے۔ اخبار نویس یہ اطلاع دے چکے ہیں کہ راولپنڈی کو چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے کلرکہار گئے تو وہاں ’’انجمن حقوق تحفظ پختوناں کلرکہار‘‘ نے انہیں سپاسنامہ پیش کیا اور ایک مخصوص گروہ کے استعمال کے لیے ایمبولنس کا مطالبہ کیا۔ وژن کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں بتایا جاتا کہ مطالبہ سر آنکھوں پر لیکن ایمبولنس یا اس قسم کی سہولتیں میونسپلٹی یا لوکل گورنمنٹ کو دی جائیں گی اور کیا پختون اور کیا غیر پختون سب استعمال کریں گے‘ لیکن ان حساس پہلوئوں کا ادراک تب ہوتا ہے جب سوچ سطحی نہ ہو اور گہرائی میں جا کر سارے مضمرات کا اندازہ لگایا جائے۔ یہ لسانی آبادیاں جہاں جہاں ہیں وہیں ان میں ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ کا رجحان پایا جاتا ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے اردگرد جتنی آبادیاں ہیں، ان کے جھگڑے جرگوں میں چکائے جاتے ہیں۔ کالم نگار سب جانتے ہیں کہ لاہور میں ایسی مارکیٹیں وجود میں آچکی ہیں جن میں مقامی شخص دکان کھول سکتا ہے نہ چلا سکتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایسی ہی ایک مارکیٹ میں صرف ایک دکان مقامی آبادی سے تعلق
رکھنے والے کی تھی۔ جب دبائو کے باوجود اس نے اس مارکیٹ کو خیرباد نہ کہا تو اسے قتل کردیا گیا۔ اس پر مقامی آبادی کو ہوش آیا اورمارکیٹ خالی کرا لی گئی۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے کوئی پالیسی بنائی ہے یا نہیں؟ اگر بنائی ہے تو وہ کیا ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے شہروں کے اس اس حوالے سے اعداد و شمار موجود ہیں؟ کیا انہوں نے کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ کیا انہیں اندازہ ہے کہ ان بستیوں میں کتنا اور کس قسم کا اسلحہ ہے؟ کل کو اگر سہراب گوٹھ کاڈرامہ لاہور میں دہرایا گیا تو اس کا وزیراعلیٰ نے کیا توڑ سوچا ہے؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ ہر روز پنجاب میں بالخصوص لاہور میں دریائے سندھ کے اس پار سے خاص طور پر وزیرستان اور قبائلی علاقوں سے کتنے افراد داخل ہوتے ہیں؟ اور ان میں سے کتنے واپس جاتے ہیں؟ اور کتنے یہیں آباد ہوجاتے ہیں؟ وزیراعلیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ساری ذمہ داریاں بنیادی نوعیت کی ہیں اور ناگزیر ہیں۔ میٹرو بس، دانش سکول اور اس قبیل کے دوسرے منصوبے اس صورت میں مفید ہوسکتے ہیں جب آپ کی حاکمیت کو چیلنج کرنے والے عناصر صوبے میں موجود نہ ہوں۔ پاکستان کے سارے شہر پاکستانیوں کے اپنے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی اور پنجاب کے دیگر شہروں پر تمام پاکستانیوں کا حق ہے لیکن ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک گروہ اپنی عدلیہ الگ کیوں قائم کرے؟ پھر آنے والوں کو مقامی آبادی میںگھل مل کر رہنا چاہیے۔
الگ بستیاں جو کل کو ’’نو گو ایریا‘‘ میں تبدیل ہوجائیں، ہرگز نہیں بسنی چاہئیں۔ کسی منڈی بازار مارکیٹ میں کسی لسانی گروہ کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ جوافراد یا خاندان باہر سے آ کر آباد ہورہے ہیں، انہیں مسلح نہیں ہونا چاہیے۔
جاری ہے