ایک شکاری جنگل سے برآمد ہوا۔ ایک ہاتھ میں بندوق، ایک میں شکار کیا ہوا بندر۔ وہ کیمرون میں اپنے گاوٗں میں داخل ہوا۔ یہ منظر روزانہ کا ہے جو دیہاتوں میں جاری رہتا ہے۔ صرف افریقہ میں نہیں، دنیا بھر میں۔ شکاری جنگلی جانوروں کو مارتے ہیں اور انہیں گھر میں اپنی فیملی کے کھانے کے لئے یا آگے بیچنے کے لئے لے کر آتے ہیں۔ آج اس منظر میں ایک موڑ آنا ہے۔ شکاری نے اسے اپنی بیوی کے حوالے کیا کہ وہ اس کا گوشت بنا دے۔ اس کی بیوی نے کاٹ دینے کے بعد اس کی ٹانگ ایک لفافے میں ڈالی جس پر پانچ دائرے بنے تھی۔ یہ بیگ سائنسدانوں کی ایک ٹیم کے حوالے کر دیا جو یہ لینے آئے تھے۔ یہ “گلوبل وائرل” کی ٹیم ہے جو اس میں موجود وائرس کا تجزیہ کرے گی۔
اس عالمی گروپ کا کام آئندہ آنے والی وباوٗں سے مقابلہ کرنے کا تھا۔ کبھی کسی روز کوئی وائرس نمودار ہو گا، جو بڑے پیمانے پر تباہی مچائے گا۔ ایسا کئی بار ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اس ٹیم کا کام آنے والے خطرات کی قبل از وقت تیاری کرنا تھا۔
یہ ٹیم ان وائرس کی تلاش میں ہے جو ممکنہ طور پر جانوروں سے انسانوں میں آ سکتے ہیں۔ ان کو دیکھنے کی بہترین جگہ جانور ہیں جیسا کہ یہ بندر جسے کیمرون کے شکاری نے شکار کیا۔
یہ ادارہ 2007 میں امریکی وائرولوجسٹ نیتھان وولف نے قائم کیا۔ چین، کیمرون، کانگو، ملیشیا، مڈغاسکر سمیت کئی ممالک میں سو سے زیادہ سائنسدان یہ کام کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی وباوٗں پر متعدد ہالی وُڈ فلمیں بن چکی ہیں۔ Andromeda Strain میں ایک شہابیہ گرتا ہے اور نئی بیماری لے کر آتا ہے۔ Outbreak میں افریقہ سے آیا ہوا بندر کیلے فورنیا کے شہر میں تباہی مچاتا ہے اور شہر کو بم سے اڑانا پڑتا ہے۔ 28 Days Later میں وائرس متاثرین کو قاتل جنونیوں میں بدل دیتا ہے۔ Contagian میں دنیا کرونا وائرس کا شکار ہوتی ہے۔ ویکسین دنیا کو بچا لیتی ہے۔
حقیقت ان خیالی کہانیوں جیسی نہیں۔ یہ اس سے زیادہ خوفناک ہے۔ مختلف جانوروں سے انسانوں تک وائرس پھلانگتے رہے ہیں۔ پچھلی صدی میں کئی بیماریاں ایسے آئی ہیں۔ ایچ آئی وی جو چمپنیزی سے آیا اور خون کے خون سے رابطے سے پھیلا۔ SIVcpz وائرس نے انسان میں HIV کی صورت میں گھر بنایا۔
ایک بار یہ انسانوں میں آ جائیں تو جلد نہیں پھیل جاتے۔ یہ آسان نہیں ہے۔ اور یہ وائرس انسانوں میں متعدد بار آتے ہیں۔ کبھی کسی میں گھر کرتے ہیں۔ میوٹیٹ ہوتے ہیں۔ پھر وبا بڑی ہوتی ہے۔ نظر آتی ہے۔
ایچ آئی وی کی اس چھلانگ کا اس کے ساٹھ سال بعد پتا لگا۔ اگر یہ پہلے پتا لگ جاتا جب یہ صرف تھوڑی علاقے تک محدود تھی۔ چند سو لوگوں تک۔ کروڑوں زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم بیماریاں جلد شناخت کر لیتے ہیں۔ 2002 میں ایک چینی کسان ہسپتال داخل ہوا اور تیز بخار کے بعد وفات پا گیا۔ اس علاقے کے دوسرے لوگوں میں علامات نظر آنے لگیں۔ ایک ہانگ کانگ کا بزنس مین اس بیماری سے متاثر ہوا اور جہاز راستے میں اتارنا پڑ گیا اور اس کا وہیں پر انتقال ہو گیا۔ دنیا میں یہ کرونا وائرس کی پہلی مہلک وبا تھی جس میں مرنے کا امکان دس فیصد تھا۔ یہ سارس کی وبا تھی۔
ایچ آئی وی کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ماہ میں سارس کا ارتقائی درخت اور تاریخ بنائی جا چکی تھی۔ چمگادڑوں سے مشک بلاوٗ کے سفر کا معلوم ہو جائے کے بعد اس کے خطرات کا علم ہوا۔ بروقت اقدامات سے اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد نو ہزار رہی۔
نیپاہ وائرس جو دماغ میں سوجن پیدا کرتا ہے، جنوب مشرقی ایشیا میں چمگادڑ سے آیا۔
ایبولا خوفناک بیماری ہے۔ اس کا شکار ہونے والا اپنے منہ، ناک، کان، آنکھ سے خون کے نکلنے کے بعد ہلاک ہو جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا شکار۔ چونکہ یہ سرعت سے اپنے میزبان کو ختم کرتا ہے اس لئے وبا زیادہ نہیں پھیلتی۔ یہ کئی برس کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔
انسان جنگلوں میں جا رہے ہیں۔ درختوں کی لکڑی کے لئے، کان کنی کے لئے، نئے کھیتوں کے لئے۔ یہاں پر جانور کئی ملین سال سے وائرس کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کی منتقلی کے امکان میں اضافہ اور خطرہ زیادہ ہو رہا ہے۔ ہم وائرس کی دنیا کو زیادہ نہیں جانتے۔ لیکن یہ جانتے ہیں کہ وبائیں آتی رہیں گی۔
ایبولا جیسے وائرس خوفناک لگیں لیکن یہ انسانوں کے لئے اتنا بڑا خطرہ اس وجہ سے نہیں۔ بڑا خطرہ ان سے ہے جو پھیلنے کے ماہر ہیں۔ وقت سے پہلے شناخت اور وقت آنے پر بڑے ایکشن نقصان کو کم رکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارس کرونا واائرس 2 انسانوں میں 2019 میں آیا۔ اپنی خاصیتوں کے سبب یہ عالمی پیمانے پر بہت بڑے جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن جہاں ہمارا رہنے کا طریقہ وبائیں لانے کا خطرہ بڑھاتا ہے، وہاں اس سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے ہتھیار روز بروز بہتر ہو رہا ہیں۔ نئی بیماری کی اور اس کی وجہ کی بہت جلد شناخت کر لی گئی۔ معلوم ہو گیا کہ یہ کونسا وائرس ہے۔ بہت جلد اس کی خبر دنیا بھر میں ہو گئی۔ اس کے پھیلنے اور پھیلاوٗ کو روکنے کے طریقوں کا علم تھا۔ جلد ہی یہ دنیا بھر میں اپنا لئے گئے۔ عام زندگی کی معطلی نے اس وائرس کی پیشقدمی میں بہت رکاوٹ ڈالی ہے۔
وائرس بمقابلہ انسان۔ انسان کو اب ایک برتری حاصل ہے۔ چین کا کرونا وائرس اور امریکہ کا کرونا وائرس آپس میں انفارمیشن کا تبادلہ نہیں کر سکتے۔ چینی اور امریکی کر سکتے ہیں۔ اطالوی ڈاکٹر جو میلان میں معلوم کرتے ہیں، اس کا فائدہ اٹھا کر ایرانی ڈاکٹر تہران میں کسی کی جان بچا سکتے ہیں۔ جو پالیسی کوریا میں کامیاب رہتی ہے اس کو برطانیہ میں اپنایا جا سکتا ہے۔ یہ آپس میں رابطے کی طاقت ہے۔ اگرچہ اس نئے وائرس سے ہونے والی ہلاکتیں بڑی تعداد میں ہوں گی، طرزِ معاشرت پر اس کے لگائے گئے زخم گہرے ہوں گے۔ لیکن عالمی تعاون، بھروسہ اور عمل یہ ممکن بنا سکتے ہیں کہ یہ وبا آنے والی تاریخ میں ایک فُٹ نوٹ ہو۔
اگر انفارمیشن کی شئیرنگ نہ ہوتی، معلوم نہ ہوتا کہ کرنا کیا ہے، بروقت اقدامات نہ لئے جاتے تو اس وقت تک بھاری جانی نقصان ہو چکا ہوتا۔ یہ لڑائی ابھی جاری ہے۔
وائرس بمقابلہ انسان۔ کرونا وائرس کی حالیہ وبا اس قدیم کشمکش کا ایک اور باب ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...