کووڈ 19 کے پھیلائو نے دنیا کے کونے کونے کو جن الفاظ سے متعارف کیا ہے، ان میں سے ایک لفظ ‘وائرس’ بھی ہے۔ ہم انسان چیزوں کو نام دے کر ہی ان کی شناخت کرتے ہیں۔ اسی طرح وائرس بھی ایک نام ہے جو پہلی بار ایک روسی سائینسدان ‘ڈیمٹری ایوی ناسکی’ نے رکھا۔ لاطینی زبان کے اس لفظ کے معانی ہیں ‘زہر’۔ ڈیمیٹری ایوی ناسکی نے ابتداً 1892 میں یہ نام تمباکو کے پتوں کو تباہ کرنے والے ایک مہین سے مادے کو دیا تھا۔ کسی بھی سائنسی سوجھ بوجھ میں دنیا کے بہت سے سائینسدانوں کی زندگی بھر کی محنت شامل ہوتی ہے۔ وائرس پر ریسرچ بھی اس سے مستثنی نہیں۔ چنانچہ آج ہماری اس دنیا میں کتنے ہی ماہرین سائنس کے اس شعبہ سے وابستہ ہیں جسے ‘وائرالوجی’ کہتے ہیں۔
سال 1930 میں خاص قسم کی حساس خردبین (الیکٹران مائکرو سکوپ) کی ایجاد کے بعد سے وائرس کو سمجھنے کے سلسلے میں تیزی آگئی تھی۔ وائرس دراصل ہے ہی بہت چھوٹی سی جیز۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم اگر اپنے ہاتھ کی چھنگلی کی موٹائی کے دونوں طرف کاغذ پر لکیریں لگا دیں، اور پھر کہیں سے وائرس پکڑ کر انہیں ان دو لکیروں کے درمیان ایک سیدھی قطار میں کھڑا کر سکیں، تو اس کام کے لئے ہمیں کوئی ایک سے دو لاکھ وائرس تلاش کر لانے پڑیں گے۔
ماہرین نے وائرس کی کئی اقسام دریافت کی ہیں ان میں سے ایک ‘کرونا’ بھی ہے۔ اگرچہ 1930 کے لگ بھگ مرغیوں کی ایک بیماری میں اس کا ادراک ہو گیا تھا، لیکن اس وائرس کو یہ نام 1968 میں ملا۔ کرونا کا لفظ یونانی زبان سے لیا گیا ہے، جسکا مطلب ہے تاج یا وہ ہالہ جو کبھی چاند یا سورج کے گرد نظر آتا ہے۔ کرونا کا نام اس وائرس کی ہییت کی بنا پر دیا گیا ہے۔ اس کا بیرونی خول چربی جیسے مادے سے بنا ہوا ایک ہالہ ہے جس میں تاج کی صورت ابھار نظر آتے ہیں۔ کرونا وائرس کی صد ہا اقسام ہیں جو زیادہ تر مختلف جانوروں جیسے مرغیوں، چمگادڑوں، سوروں، چوہوں اور اونٹوں وغیرہ میں اپنا گھر کرتی ہیں۔
انسانوں میں کرونا وائرس پہلے پہل 1960 میں دریافت ہوا تھا۔ تب اس کا اثر ایک عام زکام کی صورت میں تھا، بعد میں اس وائرس کی بہت مضرت رساں اقسام ظاہر ہوئیں، جن میں سارز (2004 – 2002)، مرض (2020 – 2012 ) اور اب کووڈ 19 (2019 سے تا حال) شامل ہیں۔
کسی ایک قسم کے جاندار کے اندر پھلتے پھولتے وائرس کا اپنی ہیئت میں معمولی سی تبدیلی کے بعد کسی دوسری جاندار جنس کے کیمیائی ماحول میں منتقل ہو جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ جیسے کرونا سارز کے وائرس چین کے ایک علاقے کی غاروں میں رہنے والی چمگادڑوں سے، اور کرونا مرض کے وائرس سعودی عرب میں اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔ کرونا کووڈ 19 کے سلسلے میں بین الاقوامی سائنسی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ خیال یہی ہے کہ کووڈ 19 کے وائرس بھی ابتداً ملک چین میں ایک جگہ چمگادڑوں سے ہی انسانوں میں منتقل ہوئے ہیں۔ کاروباری میل ملاپ، رشتہ داری اور دوستی، اور بستی بستی یا ملک ملک کے دور دراز سفر کے عمل میں ہم انسان دنیا میں بسنے والے باقی جانداروں سے کہیں آگے ہیں۔ لہذا انسانوں میں آ جانے کے بعد وائرس کو جگہ جگہ پہنچنے اور ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے دیر نہیں لگتی۔
کرونا سے ہونے والی علالت کے علاوہ اور بھی کئی ایسی بیماریاں ہیں جو وائرس کے ذریعے سے ہی انسانوں میں پھیلتی ہیں، ان میں چیچک، پولیو، خسرہ، ایڈز، یرقان، اور انفلوئنزا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں جانوروں اور پودوں میں وائرس کے ذریعے سے پھیلنے والی کئی بیماریوں کا علم بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکوں کے مابین در آمد اور برآمد میں جو بایوسیکیورٹی کے اصول ہیں ان میں وائرس کے پھیلائو سے بچائو کے معاملات بھی ہیں۔
طبعی زندگی کی ایک بڑی تعریف یہ ہے کہ زندہ جنس میں بغیر کسی بیرونی دخل کے پیدائش اور افزائش کی صلاحیت ہو۔ اسی وجہ سے پیڑوں اور جانوروں کو زندہ گردانتے ہیں۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ سائینسدان وائرس کو زندگی سے عاری ایک جنس سمجھتے ہیں۔ عجیب سی شے ہیں یہ وائرس بھی۔ ان میں افزائش کی ایک ادھوری سی صلاحیت ہے۔ جیسے ایک خواب یا خواہش ہو جسے کوئی از خود پورا نہ کر سکے۔ یہ خواب ایک ڈی۔این۔اے یا ایک آر۔این۔اے کی شکل میں دبا رہتا ہے۔ وائرس کے اندر وہ مختلف خلئیے موجود ہی نہیں جو افزائش کے لئے ضروری ہیں۔ ہاں اگر کہیں سے بیرونی امداد میسر آجائے اور وہ باقی کے ضروری خلئیے مل جائیں تو یہ اپنے جیسے اور بڑی تیزی سے بنا لیتے ہیں۔ اور اگر یہ ضروری خلیے میسر نہ آئیں تو یہ اپنا خواب سمیٹے خاموش پڑے رہتے ہیں۔ وائرس کو ان بقیہ ضروری خلیوں کی بیرونی امداد دوسری جاندار چیزوں، یعنی پودوں، جانوروں اور انسانوں کے اندر داخل ہونے پر ہی مل سکتی ہے، اور وہیں یہ اپنی نسل کو بڑی تیز رفتاری سے بڑھاتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ سازگار ماحول کی فراہمی ہو، یعنی وائرس کی قسم کے لحاظ سے مناسب کیمیائی ماحول اور خلئیے کسی پودے یا جانور میں موجود ہوں۔
انسانوں کے بچے والدین سے کافی مشابہت رکھتے ہیں، مگر سب کے سب کچھ مختلف بھی، اور کبھی کبھی کسی پہلو سے بالکل الگ۔ اسی طرح کا معاملہ وائرس میں بھی ہوتا ہے۔ وائرس کی افزائش کے عمل میں اوپر کی نسلوں سے ایک تعلق بھی ہوتا ہے اور اکثر کچھ نہ کچھ، یا کبھی کبھار بہت کچھ، مختلف بھی۔ چونکہ وائرس نسل در نسل بہت تیزی سے پھیلنے ہیں اسلئے یہ اختلاف چند ماہ یا کچھ سال میں کئی بار نظر آ سکتا ہے۔ اب کرونا کووڈ 19 کی مثال ہی لیں۔ اس کی ایک قسم ‘ڈیلٹا’ 2020 میں انڈیا میں پھوٹی، اور ایک ‘ایمیکرون’ 2021 میں جنوبی افریقہ میں۔ اور دونوں قسمیں بہت جلد دنیا کے اکثر ملکوں تک پہنچ بھی گئیں۔
وائرس کا کسی پودے، جانور، یا انسان میں تیزی سے پھیل جانا ہی اس سے وابستہ بیماری کا سبب بنتا ہے۔ وہ خلیے جو جسم کو اپنا انہظام، خون، تنفس یا کسی اور کاروبار کو چلانے کے لئے درکار تھے اب وائرس کے استعمال میں ہوتے ہیں، اور یوں ان کی کمی جسم کے کسی نہ کسی نظام کو متآثر کر دیتی ہے۔ مثلاً کرونا وائرس انسان کے نظامِ تنفس میں، اور بعض دوسرے جانوروں کے نظامِ انہضام میں خلل ڈالتا ہے۔
اور ہاں ! سائنس کا کسی چیز کو دریافت کرنا ایک بات ہے، اور اسکا پہلے سے موجود ہونا ایک دوسری بات۔ مثلاً وائرس جیسی شے کا ادراک تو ہمیں بس کوئی ایک صدی پہلے سے ہی ہوا ہے۔ لیکن اس ادراک کی بنیاد پر اگر ماضی کو کھنگالا جائے تو معلوم ہوگا کہ وائرس اس وقت بھی موجود تھے جب ابھی زمین پر انسان کا وجود تک نہیں تھا۔ اور پھر انسانوں کے ساتھ بھی وائرس کا رابطہ بہت پرانا ہے۔ مصر کے کوئی 3000 سال پہلے کے ریکارڈ میں پولیو کے آثار ملتے ہیں۔ لگ بھگ 2000 برس قبل جب رومن سپاہی موجودہ عراق کے علاقے میں معرکہ آرائی سے واپس لوٹے تو چیچک کی بیماری بھی ساتھ میں یورپ لائے۔ 1300 سال پہلے ماہرِ طب الرازی نے خسرہ کے موضوع پر ریسرچ کی۔ الرازی کی تحقیقات میں خسرہ کا ذکر اسکے عربی نام ‘حصبہ’ کے تحت کیا گیا ہے۔
ویسے وائرس کی سب قسموں کو بدنامی کی ایک ہی لاٹھی سے ہانک کر پرے کر دینا درست نہیں۔ ان کی زیادہ تر اقسام بے ضرر ہیں۔ اور ماہرین اب ایسی اقسام بھی دریافت کر رہے ہیں، یا لیبارٹری میں تیار کر رہے ہیں، جن کو انسانی جسم میں داخل کرنا بیکٹیریا کے ذریعے پھیلنے والی شدید بیماریوں کے علاج میں مفید ہوگا۔ یہ وائرس انسانی بدن کے اپنے خلیوں کی بجائے جسم میں پھیلے ہوئے مہلک بیکٹیریا کے خلیوں کو اپنی بڑھوتی کے لئے بروئے کار لائیں گے۔ اور اس طرح جسم پر ان بیکٹیریا کے حملے کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اس ابھرتے ہوئے طریقِ علاج کا نام ‘بیکٹیریوفیج’ ہے۔
آج کی دنیا میں کسی مضرت رساں وائرس کی بات چلے تو اس کے تدارک کے لئے ‘ویکسین’ کی بات بھی ساتھ ساتھ ہی چلتی ہے۔ ویکسین بدن کے اندر ایک سیدھی سادی جنگی مشق ہے۔ جانداروں میں وائرس اور دوسرے حملہ آوروں سے لڑنے کے لئے ایک مدافعتی نظام ہے جو ہمارے وجود کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ہماری بیالوجی کا حصہ بن گیا ہے۔ ویکسین بس اسی نظام کو کسی خاص وائرس کے ممکنہ حملہ کے خلاف چوکنا اور خبردار کر دیتی ہے۔ روائیتی ویکسین کی دوا میں اس وائرس کے کچھ بے ضرر ٹکڑے شامل ہوتے ہیں جس کے خلاف دفاع مقصود ہو۔ اب کچھ نئی قسم کی ویکسین میں بے ضرر ٹکڑوں کی بجائے ایسا مادہ شامل کیا جا رہا ہے کہ لگوانے والے کے جسم میں وائرس کے ایسے ٹکڑے خود ہی جنم لے لیں۔ ان بے ضرر ٹکڑوں کو بدن میں دیکھنے کے نتیجے میں مدافعتی نظام اس وائرس سے لڑنے کے مناسب ہتھیاروں سے اپنے آپ کو لیس کر لیتا ہے۔ ویکسین سو فی صد حفاظت کی ضمانت تو نہیں دے سکتی، اور نہ ہی تمام انسانوں کو لگائی جا سکتی ہے، مگر بین الاقوامی شماریات ان کی کامیابی کی گواہ ضرور ہیں۔ مٹلاً ماضی میں دنیا بھر میں لاکھوں بچے پولیو وائرس کے ذریعے اپاہج کرنے والی بیماری کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کی کامیاب ویکسین 1950 سے استعمال ہونی شروع ہوئی اور تقریباً 70 سال کے بعد ویکسین کے استعمال سے انسانوں نے پولیو پر تقریباَ مکمل قابو پایا۔ 2018 میں پولیو کا شاز ہی کوئی کیس تمام دنیا میں کہیں رپورٹ ہوا تھا۔ مگر اس کے بعد صرف دو ملکوں میں پولیو کے چند واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں اور ان کی وجہ بھی غالباً نامساعد حالات کی بنا پر ویکسین کے استعمال میں کمی ہے۔ اسی طرح ویکسین کے ذریعے ہی انسانوں نے چیچک کو دنیا سے نابود کیا ہے۔
انسان بارہا وبائوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ان وبائوں کے دوران جہاں انسانی بقا کے لئے احتیاط کی حتی الوسع کوششیں، بحالیِ صحت کے لئے انتھک محنت، اور بیماری کو سمجھنے کی ریسرچ جیسے کام ہوئے ہیں، وہاں ان وبائوں کی وجوہات پر مختلف آرا کا اظہار بھی ہوا ہے۔ شاید یہ انداز انسانوں کی پہلو در پہلو اجتماعی سوچ کا ایک عکس ہے جو کسی بھی آفت کے وقت کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 1918 میں جب دنیا میں انفلوئنزا وائرس کی وبا پھیلنی شروع ہوئی تو بعض انسانوں نے کہا کہ یہ بیماری دراصل جرمنی کی ایک دوا ساز کمپنی نے اپنی کمائی کے لئے پھیلائی ہے۔ اسی طرح 1350 میں طاعون کی زبردست تباہی کے دوران یہ بات پھیل گئی کہ یہ بیماری یہودی مذہب والوں کی ایک سازش ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ یہودیوں کا قتلِ عام ہوا۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ یہودی شہری جو ایک مذہبی اقلیت تھے، باقی آبادی کی نسبت زیادہ صفائی پسند تھے، لہذا ان کے محلّوں اور بستیوں میں جراثیم نسبتاً کم پھیلے اور وبا نے زور نہیں پکڑا۔ اسی طرح پہلی جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے سیاسی حالات کچھ اس طور کے تھے کہ ایک ملک کے لوگوں نے 1918 میں انفلوئنزا کی وبا کا منبع بلا تحقیق کسی دوسرے ملک کو بتایا۔ اس وبا کا آغاز سپین سے نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود کئی ملکوں میں اس کو ‘سپین کا فلو’ بتایا گیا۔ سپین میں اسے ‘فرانس کا فلو’ کہا گیا۔ برازیل میں اس بیماری کا نام ‘جرمن فلو’ اور سینیگال میں ‘برازیل کا فلو’ تھا۔ مذہبی اعتقاد بھی انسانی معاشرت کا ایک حصہ ہے۔ شاید اسی لئے مختلف علاقوں میں وبا کے وقت اعتقاد کی بنیاد پر مختلف قسم کی آرا اور دعویداریاں بھی رہی ہیں۔
وبائوں میں ہونے والی اموات کا صحیح اندازہ تو مشکل ہے۔ 1350 کی طاعون کی وبا وائرس کے ذریعے نہیں پھیلی تھی، مگر غالباً انسانوں کی تقریباً تیس فی صدی آبادی کو لے گئی۔ گویا دنیا کا ہر تیسرا انسان لقمہ اجل ہوا۔ 1918 کے انفلوئنزا میں دنیا کے ایک سے پانچ فی صد انسان مرے۔ بین الاقوامی ادارہ صحت (World Health Organisation) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 کے آغاز تک دنیا میں بسنے والے تقریباً ہر دسویں انسان کو کووڈ ہوا ہے۔ کووڈ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کل انسانی آبادی صرف صفر اعشاریہ ایک فی صد یا اس سے کم ہے۔ شاید کل کا مورخ وبائوں کی تاریخ لکھتے وقت کووڈ 19 کی تباہ کاریوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی کوششوں کو سراہے گا۔ کس طرح ہم نے محنت اور لگن سے وائرس کی ساخت اور اس کے طریقِ واردات کو سمجھا۔ اور پھر دن رات کی کوششوں سے اس کے مضرت رساں اثرات کو کم کرنے میں کامیابیاں حاصل کیں۔
بس اپنا خیال رکھیے دوستو۔ ہمت نہ ہارئیے اور اپنی قوت پر بھروسہ کیجئے۔ یہ دھرتی آپ کی محبت اور لگن کی پیاسی ہی تو ہے۔
نوٹ: اس مضمون کے لئے بنیادی معلومات مختلف بین الاقوامی تحریروں سے حاصل کی گئی ہیں۔ یہ مضمون ماہنامہ کائنات کے مارچ 2023 کے شمارے، اور ایک کتاب شہرِ تنہائی میں بھی طبع ہوا ہے۔