جاندار اور بے جان چیزوں کے درمیان میں بس پروٹین اور جینیاتی انفارمیشن جو کبھی ہمیں بیمار بھی کر دیتی ہیں۔ اس چیز کا ثبوت کہ انتہائی چھوٹی چیز کا اثر بہت بڑا ہو سکتا ہے۔ یہ جینیاتی چور ہیں جنہیں ہم وائرس کہتے ہیں۔ ان کی کوئی باقیات فوسل کی صورت میں نہیں۔ یک خلوی زندگی کی باقیات رہ جاتی ہے لیکن یہ اس قدر چھوٹے اور نازک ہیں کہ ان کے نشان چٹانوں میں محفوظ نہیں رہتے۔
لیکن ان کے ایک اور طرح کے فاسل ہیں جو یہ کئی بار اپنے میزبان کے ڈی این اے میں چھوڑ جاتے ہیں۔ اور یہ نشان اس وقت ہمارے اپنے اندر بھی موجود ہیں۔ ان کی اس مالیکیولر فاسل کے راستے سے ان کا پیچھا کر کے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ آئے کہاں سے اور کیسے۔ اور یہ تبدیل کیسے ہوتے رہے۔
وائرس کی کامیابی کی کنجی ان کی سادگی رہی ہے۔ ان میں تھوڑی سی جینیاتی انفارمیشن ہوتی ہے جو ڈی این اے یا آر این اے ہو سکتا ہے جو پروٹین کے کیپسول میں لپٹی ہوئی ہے۔ زیادہ تر بہت چھوٹے سائز کے ہیں۔ دس نینومیٹر کے سکیل پر لیکن کچھ حیران کن حد تک بڑے بھی ہیں لیکن اپنی بقا اور آگے پھلنے پھولنے کے لئے یہ سب اپنے میزبان کے محتاج ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ جب سے زندگی رہی ہے، یہ رہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ بیکٹیریا، آرکیا اور یوکاریوٹ سبھی کو انفیکٹ کر دیتے ہیں اور چونکہ یہ سادہ ہیں اس لئے خیال ہے کہ زندگی کے ساتھ ساتھ ہی یہ تبدیل ہوتے رہے ہیں یا شاید پہلے خلیے سے بھی پہلے تھے۔ لیکن فاسلز کے بغیر ان کے بارے میں سوالوں کے جواب کیسے معلوم کئے جائیں؟ یہ شعبہ پیلیو وائرولوجی کا ہے۔
پیلیو وائرولوجی ابھی نیا فیلڈ ہے۔ یہ سائنس کے ایک اور نئے اور ابھرتے شعبے، جینومکس، کے بعد شروع ہوا ہے۔ پرانے وائرس کی سٹڈی کے لئے اس کے میزبان کے جینوم کی سٹڈی کی جاتی ہے۔ کیسے؟ اس کے لئے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وائرس کام کیسے کرتا ہے۔ وائرس کو اپنے میزبان خلئے کو متاثر کرنا ہے تا کہ اس کی مشینری کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکے۔ یہ اس خلئے کی مشینری کو ہائی جیک کر لیتا ہے تا کہ اپنے آپ کو آگے بڑھا سکے۔ اس میزبان خلئے کو مزید وائرس پیدا کرنے پڑتا ہے جو پھر باہر نکل کر مزید خلئے ڈھونڈتے ہیں۔ اس عمل میں کئی بار یہ علیحدگی مکمل طور پر نہیں ہوتی اور کئی بار وائرس کا جینوم اپنے میزبان خلئے کے ڈی این اے میں نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اگر یہ میوٹیشن ایسی نہ ہو جو خلئے کو مار دے تو یہ انفارمیشن اس میں ہمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گی۔ اگر یہ کسی ایسے خلئے میں ہو جائے جو سپرم یا بیضہ بناتا ہے تو وائرس کا یہ جینوم اگلی نسل تک منتقل ہو جائے گا۔ یہ چھوٹی سی معلومات اس وائرس کا فوسل ہے۔ معلومات کے ان قدیم ٹکڑوں سے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ وائرس کتنے پرانے تھے۔ اس کی عمر کا کیسے پتہ لگتا ہے؟ وہ اس طرح کے وائرس اپنے آپ کو عام طور پر تیزی سے بدلتے ہیں اور صرف چند سو سال میں اپنے آپ کو بالکل تبدیل کر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان کا ڈی این اے کسی میزبان میں رہ جائے تو وہ میزبان اتنی تیزی سے نہیں بدل سکتا۔ اس کی میوٹیشن کی رفتار وائرس کے مقابلے میں انتہائی سست ہوتی ہے۔ اس سے پرانے وائرسز کی شناخت، جو اب نہیں رہے، کرنا ممکن ہے۔
اگر دو الگ جانوروں میں ایک ہی وائرس کا ڈی این اے سیکیونس مل جائے تو اس کا مطلب یہ کہ اس وائرس نے ان دونوں کے مشترکہ جد کو متاثر کیا تھا اور یہ فاسل اب دو الگ جگہ پر دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی مثال سرکووائرس کی جو وائرس کا ایک گروپ ہے جو کتوں میں پیٹ کی خرابوں کا باعث بنتا ہے۔ پہلے خیال تھا کہ اس وائرس کی اپنی عمر پانچ سو سال کی ہے لیکن جب اس وائرس کے فاسل نہ صرف کتے میں بلکہ بلیوں میں اور پانڈا میں بھی ملے جس کا مطلب یہ کہ یہ وائرس کم سے کم اتنا پرانا ہے کہ ان کے مشترک جد کو اس نے متاثر کیا تھا جو پونے سات کروڑ سال پہلے کی بات ہے۔
سب سے پرانے وائرس کونسے ملے؟ 2011 میں ایک سٹڈی نے براکووائرس کی تاریخ کو دیکھا جو بھڑ کو انفیکٹ کرتا ہے۔ اس سے پتہ لگا کہ یہ کم سے کم کاربونیوفرئیس دور تک یعنی اکتیس کروڑ سال قبل کا ہے۔ 2009 میں ممالیہ میں پائی جانے والی ایک جین سی جی آئی این ون ملی۔ یہ جین تیرہ سے اٹھارہ کروڑ برس پرانی ہے اور یہ جین وائرس سے آئی تھی۔ کیونکہ یہ آر این اے کے ریٹرو وائرس جیسی تھی۔ یعنی ایک وقت میں ممالیہ کے جد کو ہونے والی بیماری سے بچی جین اب دنیا کے تمام ممالیہ جانداروں میں موجود ہے۔ اس وقت ہمارے ڈی این اے کا آٹھ فیصد حصہ وہ ہے جو اسی طرح وائرس سے آیا ہے۔
سائنس کے اس نئے شعبے سے ہم وائرس کی تاریخ کے پچھلے کچھ کروڑ سال سے تو واقف اب ہو رہے ہیں لیکن ان وائرسز کا آخر آغاز اربوں برس پہلے کہاں سے ہوا؟
ابھی اسے کے لئے کچھ مختلف ماڈل موجود ہیں۔
پہلا ماڈل وائرس فرسٹ ماڈل ہے۔ اس کے مطابق چونکہ وائرس خلیاتی زندگی کے مقابلے میں اس قدر سادہ ہیں تو یہ خلیاتی زندگی سے پہلے تھے اور پہلی یک خلوی زندگی سے پرانے ہیں۔ خلیاتی زندگی سے پہلے زندگی اپنے آپ کی کاپیاں بنانے والے سادہ یونٹس پر مشتمل تھی جو شاید صرف آر این اے پر تھا۔ زندگی کی پیچیدہ شکل جب شروع ہوئے تو انہوں نے اپنا شکار اس خلیاتی زندگی کو بنانا شروع کیا۔
دوسرا ماڈل ایسکیپ ہائپوتھیسز ہے۔ اس کے مطابق وائرس خلیاتی زندگی کے بعد آئے اور یہ اس خلیاتی زندگی سے الگ ہونے والی جینز ہیں۔ ہمارے جینوم میں ٹکڑے ہیں جو اپنے آپ کو کاپی پیسٹ کر لیتے ہیں۔ کچھ ماہریں کا خیال ہے کہ ان میں سے اگر کوئی ٹکڑا اپنے گرد ایک پروٹین کا کور بنا سکے تو وہ اس خلیے سے الگ ہو سکتا ہے اور وائرس بن سکتا ہے۔
تیسرا ماڈل بڑے وائرسز کو دیکھ کر بنایا گیا ہے۔ ان بڑے وائرسز کو پہلے بار 2003 میں دریافت کیا گیا اور یہ میمی وائرس کہلاتے ہیں یعنی جراثیموں کی نقل کرنے والے وائرس۔ وائرس کے سٹینڈرڈ کے حساب سے یہ بہت بڑے ہیں اور ان کا سائز 750 نینومیٹر ہے۔ یہں تک کہ چھوٹے بیکٹریا سے بھی زیادہ سائز کے۔ یہ وائرس صرف یک خلوی امیبا کو متاثر کرتے ہیں۔ اس میمی وائرس میں عام وائرس سے بہت زیادہ جینز ہوتی ہیں جن میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو پروٹین بنا سکیں۔ دوسرے وائرسز میں ایسا نہیں ہوتا لیکن ان تمام جینز کے باوجود ان کو اپنی نسل آگے بڑھانے کے لئے میزبان پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ جینز ان میں کیوں؟ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پہلے وائرس بڑے اور پیچیدہ ہوا کرتے تھے اور خلیاتی زندگی کی طرز پر ان کی زندگی بھی پیچیدہ ہوتی تھی۔ لیکن جب ان کو اپنے زندگی کا نظام چلانے کے لئے میزبان مل گئے۔ شروع میں ان کا تعلق باہمی فائدے کا رہا لیکن پھر یہ طفیلی تعلق میں بدل گیا۔ جس طرح ان کا انحصار اپنے میزبان پر ہونے لگا، اسی طرح ان کی اپنی صلاحیتیں ماند پڑنا شروع ہو گئیں اور ان کی پیچیدگی کم ہونا شروع ہو گئی۔ یہ ریگریسو ماڈل ہے لیکن یہ ماڈل زیادہ مقبول نہیں کیونکہ متبادل خیال یہ ہے کہ میمی وائرس کی ایکسٹرا جینز وہ ہیں جو یہ کسی میزبان کی لے کر فرار ہوئے۔
اب اس سے اگلا بڑا سوال۔ کیا وائرس زندہ ہیں؟ اسکا جواب پیلیو وائرولوجی سے شاید مل جائے۔ کچھ سائنسدان اس کو نیم زندہ تصور کرتے ہیں جبکہ کچھ ان کو زندگی کے درخت میں جگہ دینے کے حق میں ہیں لیکن اس سوال کا تعلق اس سے ہے کہ آخر زندگی کی تعریف کیا ہے۔ زندگی وہ ہے جو اپنی نسل آگے بڑھا سکے، اپنے لئے توانائی کا بندوبست کر سکے، اپنے خلیوں کے اندر مستحکم ماحول بنا سکے اور ارتقا کر سکے۔ وائرس اپنی نسل آگے بڑھا سکتے ہیں، لیکن کسی کا سہارا چاہیے۔ ارتقا کر سکتے ہیں لیکن ان کے پاس توانائی پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں اور اپنے اندرونی ماحول کو کنٹرول کرنے کا طریقہ نہیں۔ اس لئے یہ زندگی کے درخت پر تو نہیں لیکن اس کے گرد لپٹی ہوئی بیل ہیں۔ ان کا زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ضرور ہے۔