والد اور والدہ کے خلیوں کے ملاپ سے انسان کی ابتدا ہوئی۔ یہ ایک جنین میں بدلا۔ خاص خلیے بننا شروع ہوئے۔ اپنی والدہ سے غذائیت حاصل کرنے کے لئے نال بننے لگی۔ اس نال کی بیرونی تہہ کے خلیے آپ میں ضم ہو گئے۔ اپنا ڈی این اے اور مالیکیول شئیر کرنے لگے۔ اس نئی جان کا اپنی والدہ سے پہلی بار ملاپ۔ ہم اپنی زندگی کے اس اہم مرحلے کے دوران ۔۔۔ جب ایک نئی انسانی جان برآمد ہو رہی ہوتی ہے ۔۔۔ کچھ جینز کے محتاج ہیں۔ ان سے سطح پر وہ پروٹین بنتی ہے جو یہ انضمام کرواتی ہے۔ اس موقع پر زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ یہ جین وائرس کے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے جینوم کو اپنی حتمی شناخت سمجھتے ہیں۔ ہمارے والدین ہمیں اپنا ڈی این اے دیتے ہیں۔ اس کی ہدایات میں نہ صرف ہماری رنگت یا ذیابیطس ہونے کا امکان جیسی چیزیں ہیں بلکہ ہماری اپنی فطرت کا ماخذ بھی یہی ہے۔ ان جینز کے بارے میں بہت حساس رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اپنا جینوم دیکھتے ہیں تو ہم خود کو وائرس سے الگ نہیں کر پاتے۔ خود اس جینوم کے اندر وائرس پائے جاتے ہیں اور بہت سے وائرس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی وائرس ایسے ہیں جن کا طریقہ واردات خود کو میزبان کے ڈی این اے کا حصہ بنا لینے کا ہے۔ سب سے پہلے ایسا وائرس، ایوین لیوکوسس وائرس مرغی میں دریافت ہوا تھا۔ مرغ کی کئی انواع میں ڈی این اے کا حصہ بن گیا ہے۔ کسی وقت اس وائرس نے مرغ کو انفیکٹ کیا۔ اپنا جینیاتی کوڈ اس کے ساتھ شامل کر دیا۔ یہ پرندے کے کینسر کا باعث بنتا تھا۔ کسی پرندے کے امیون سسٹم نے اس کو قابو میں رکھا لیکن یہ اس کے جنسی اعضاء تک پہنچ گیا۔ جب اس کی اگلی نسل سے انڈے سے چوزہ نکلا تو یہ کچھ حصہ چوزہ تھا لیکن کچھ حصہ وائرس بھی تھا۔ یہ خاموشی سے ہزاروں سال نسل در نسل سفر کرتا رہا ہے۔ کچھ حالات میں یہ متحرک ہو جاتا ہے۔ ٹیومر بناتا ہے اور دوسرے پرندوں تک پھیلتا ہے۔ وائرس کی اس قسم کا نام ریٹرو وائرس رکھا گیا۔ ایسے وائرس ہر قسم کے جانداروں کے ڈی این اے کا حصہ ہیں۔
ہمارے جینوم میں بہت سے ایسے وائرس کی یادگاریں ہیں۔ کئی ملین سال سے جینوم کا حصہ بننے والے، کئی وائرس میوٹیشن کی وجہ سے مفلوج ہو چکے ہیں۔ جینوم میں چلے آ رہے ہیں۔
اینڈوجینس ریٹرووائرس خطرناک پیراسائٹ ہیں لیکن جینوم ان اضافی جینز سے کئی بار اپنی مرضی کے کام نکال لیتا ہے۔ ہم میں اور اور وائرس کے بیچ بھی واضح لکیر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فطرت میں لکیریں لگانا سائنسی لحاظ سے مفید ہے لیکن جب فطرت کو سمجھنا ہو تو لکیریں مصنعوعی حدود ہیں۔ بجائے یہ دیکھنے کے، کہ وارس کیا ہیں اور کیا نہیں، زندہ ہیں یا مردہ، زیادہ مفید اس چیز کو دیکھنا ہے کہ وائرس دوسرے جانداروں کے ساتھ ملکر کیسے زندگی کا تسلسل بناتے ہیں۔ ہم، انسان، بھی وائرس اور ممالیہ کا گٹھ جوڑ ہیں۔ ہمارے جینوم میں آٹھ فیصد حصہ وائرس ہے۔ (جینوم میں جین کا حصہ ڈیڑھ فیصد ہے)۔ وائرس سے آنے والے جین نکال دیں تو ہم افزائشِ نسل نہیں کر سکتے۔ دوسرے وائرس کے خلاف دفاع نہیں کر سکتے۔
ہم جو آکسیجن سانس میں لے کر جاتے ہیں اس میں سے کچھ سمندر میں بیکٹیریا او وائرس کے ملاپ سے پیدا ہوئی ہے۔ اور یہ مکسچر فکسڈ نہیں، ہر وقت تبدیل ہو رہا ہے۔ سمندر جینز کا جیتا جاگتا میٹرکس ہیں۔ میزبان اور وائرس کے مابین سفر کرتے ہوئے جینز کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کیسے شروع ہوئی؟ یہ عقدہ ابھی حل طلب ہے لیکن ایک چیز واضح ہے۔ یہ کسی ایک بڑے آفاقی سوئچ کے آن ہونے سے اچانک نہیں ہو گیا۔ کسی عمل کے ذریعے ہوا ہے۔ رفتہ رفتہ ہوا ہے۔ زندگی کے اجزاء، جیسا کہ شوگر اور فاسفیٹ ابتدائی زمین میں بڑھتی پیچیدگی کے ساتھ ملے۔ ممکن ہے کہ آر این اے کی زنجیر پہلے بنی اور کاپیاں بنانے کا فنکشن حاصل کیا۔ یہ سوال کہ اچانک یہ “زندہ” کب ہو گیا ۔۔ زندگی کے تدریجی عمل سے توجہ ہٹاتا ہے۔
وائرس کو زندگی کے کلب سے نکال دینا ہمیں زندگی کی ابتدا کے سوال کے اہم سراغوں سے محروم کرتا ہے۔ وائرس کے بارے میں ہونے والی بڑی حالیہ دریافتوں میں ان کے جین کا بے پناہ تنوع ہے۔ جب سائنسدان کوئی نیا وائرس ڈھونڈتے ہیں، ان کے جین نت نئے ہی نکلتے ہیں۔ ایسے بہت سے جین جو دوسری زندگی کی اقسام میں نہیں ہیں۔ کئی سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ وائرس وہ جیناتی لائبریری ہے جو اربوں سال سے زمین کا چکر لگا رہی ہے۔ جب ان کے مشترک جد کی طرف کا نقشہ بنائیں تو لگتا ہے کہ یہ وقت خلیاتی زندگی کے مشترک جد سے پہلے ہے۔ شاید وائرس خلیاتی زندگی سے قبل تھے۔ جب زندگی چند جینز کی کلکشن تک محدود تھی جو کبھی پھلتے پھولتے تھے، کبھی طفیلیوں کا روپ دھار لیتے تھے۔ فرانسیسی وائرولوجسٹ پیٹرک فورٹرے نے تجویز کیا ہے کہ وائرس نے آر این اے سے ڈی این اے ایجاد کیا تا کہ اپنے جین کو حملے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ پھر، ان کے میزبانوں نے ان کا ڈی این اے لے لیا اور پھر دنیا کی باگ ڈور سنبھال لی۔ شاید زندگی کی ابتدا کے لئے وائرس کی ضرورت پڑی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس کے لفظ کے اپنے معنی زندگی دینے والے مادے کے بھی ہیں اور مہلک زہر کے بھی۔ وائرس یقیناً ہلاک کرنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے دنیا کو سب سے اہم جدتوں کا تحفہ بھی دیا ہے۔ شاید زندگی کا تحفہ بھی۔
تخریب اور تخلیق ایک ہی لفظ میں۔ اکٹھے ملے ہوئے۔ یہی لفظ ان پر جچتا ہے کیونکہ یہی ان کا کردار ہے۔
یہ ہمارے سیارے کے وائرس ہیں۔ یا پھر شاید یہ سیارہ ان کا۔