وائرس ۔ ایک معمولی وجود جو سائنس کے مطابق نہ جاندار ہے نہ بے جان بلکہ ان دونوں کے بین بین ہے ۔ اس کا وجود صرف ایک “دستور العمل” ہے ، ایک جینیاتی پیغام ۔ ایک انسٹرکشن مینوئل یا اسے انسٹرکشن کوڈ کہہ لیں ۔ یہ اپنے وجود میں اکیلا ہو تو بیکار ہے ، کچھ کرنے کے لائق نہیں۔ اس کا عمل تب شروع ہوتا ہے جب یہ کسی انسان جانور پودے یا کسی اور لائف فارم کے جاندار خلیے( cell) میں پہنچتا ہے ۔
وائرس کسی جاندار کے خلیے میں پہنچ کر اپنا پیغام یعنی اپنی انسٹرکشن اس میں تقسیم در تقسیم کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ یہ اس جاندار خُلیے کا نصب العین بدل دیتا ہے ۔ گویا جو خلیہ ایک جسم کے اندر پہلے خود کو اللہ کا دیا ہوا کردار سنبھالے ہوئے تھا ، اب وہ اس سے روگردانی کر کے وائرس کے ڈی این اے کے احکامات بجا لانے لگتا ہے ۔
یہ سلسلہ ایک خلیے کی خرابی سے شروع ہوتا ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو آخر کار سارا جسم اس کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے ۔ یہ آہستہ آہستہ جسم کے تمام قوانین و ضوابط کو توڑ دیتا ہے اور اس کا انجام موت ہے ۔
اللہ نے جسم میں قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے مدافعاتی نظام بنا رکھا ہے ۔ جو کسی بھی وائرس کے حملے کی صورت میں خودکار نظام کے طور پر کام کرتا ہے ۔ اس میں وہ نیٹ ورک بھی ہے جو وائرس کو خلیوں پر حملہ آور ہونے سے پہلے باہر ہی روکتا ہے ۔ اور ایسے خلیوں کا ایک نیٹ ورک بھی موجود ہے جو سارے نظام میں گھوم پھر کر دیکھتے ہیں کہ کہیں کسی خلیے سے یہ سگنل تو نہیں آرہا کہ اس پر وائرس حملہ کر چکا ہے ۔ وہ خلیے بھی ہیں جو حملے کا علم ہونے کے بعد سارے مدافعاتی نظام کو مقابلے کے لیے متحرک کر دیتے ہیں۔
جس جسم کا مدافعت کا نظام مضبوط ہو، وہ زیادہ نقصان اٹھائے بغیر ہی اس حملے کو ناکارہ بنا دیتا ہے ۔ اس میں یہ بھی اہم ہے کہ حملہ آور وائرس اس مدافعت کے مقابلے میں کتنی دیر کھڑا رہنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ پھر وہ جسم ہیں جن کا مدافعاتی نظام اتنا مضبوط نہ رہا ہو ۔ اس کو باہر سے مدد یعنی ویکسین وغیرہ کی مدد سے اس حملے کو پسپا کرنے کی طاقت فراہم کی جاتی ہے ۔ اور پھر تیسری صورت یہ ہے کہ جسم کا نظام اس قدر کمزور ہو چکا ہو کہ بیرونی مدد بھی کچھ افاقہ نہ کر سکے ۔ اس کا انجام موت ہے ۔ زندگی اور موت دونوں صورتوں میں دوسرے اجسام کے بچاو کے لیے وائرس زدہ جسم سے معاشرتی فاصلہ ( سوشل ڈسٹنسنگ ) ضروری ہے ۔یعنی وائرس کی صحبت سے بچا جائے ۔
اب زرا غور کیجیے ۔قوم بھی ایک جسم ہے ۔ بلکل ویسے ہی جیسے جسم میں خلیے مل کر ٹشو بناتے ہیں (ٹشو کی اردو مجھے معلوم نہیں ) اور یہ ٹشو مل کر عضو بناتے ہیں اور اعضا مل کر جسم بناتے ہیں اور اس میں سب کا کردار مختلف لیکن مساوی اہمیت کا ہے ۔ ایسے ہی فرد ، خاندان ، معاشرہ اور قوم ہے ۔
جن خلیوں پر وائرس قبضہ کر لیتا ہے ، وہ اپنے وجود سے بے بہرہ ہو کر وائرس بن جاتے ہیں ، وائرس کی انسانی شکل بھی ایسی ہے ۔ جس کی ایک مثال “میرا جسم میری مرضی “ والے وائرس ہیں ۔
فرد ، خاندان ، معاشرے اور قوم کا نصب العین “لا الہ الا اللہ “ ہے ۔ اور وائرس حملہ کر چکا ہے ۔ اب قوم کی زندگی یا موت مدافعت پر منحصر ہے ۔
لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ