(رنگوں سے شاعری کرنے والا اپنی زندگی میں رنگ نہ بھر سکا)
*"میرا خیال ہے لوگوں سے محبت کرنے سے زیادہ سچا کوئی آرٹ نہیں ہے۔
میں رنگوں سے شاعری سنتا ہوں۔
مجھے کوئی حسین خواب آتا ہے اور پھر میں اس خواب کو پینٹ کر دیتا ہوں۔
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بہت زیادہ چیزوں سے محبت کی جائے۔
مجھے تاروں بھری رات دن سے زیادہ بارونق اور رنگین نظر آتی ہے۔"*
۔۔۔یہ سب باتیں اس رنگین مصور کی ہیں جس کے آرٹ کے فن پاروں کی تعداد 2100 ہےاور جن میں سے 800 سے زائد آئل پینٹگز oil paintings ہیں۔کسانوں؛مزدوروں؛کوئلے کی کان میں کام کرنے والے بچوں اور گندم کاٹ کر کھیتوں میں سوئے دیہاتی جوڑوں سے لیکر تاروں بھرے آسمان اور لہروں سے اچھلتے سمندروں کا یہ مصور؛ اتنا مشتاق تھا کہ صرف کسانوں کے جوتوں کو لگی مٹی پینٹ کرنے کیلئے کئی رنگوں کی شیشیاں استعمال کرتا تھا۔ نیدر لینڈ جو کہ اسکا آبائی وطن تھا اس کے دیہاتوں میں پھرتا اور گاؤں کی زندگی میں اپنے رنگ بھرتا ۔لیکن پھر آخر کیا ہوا کہ یہ رنگین آرٹسٹ ذہنی تناؤ کا شکار ہو گیا اور لوگ اسے مجنون سمجھنے لگے۔اس کا دماغ اس کی افلاس زدہ زندگی کا کرب نہ سہہ سکا؛ مالی بدحالی اور ذہنی پاگل پن کے ہاتھوں مجبور اس نے 37 برس کی عمر میں خود کو گولی مار کر ختم کرلیا۔سورج مکھی کے پھول اور بادام کی کونپلیں پینٹ کرنے والا ریوالور کی گولیوں تک کیسے پہنچا؟
جب وانسٹ وان گو نے زندگی کو حد سے زیادہ شوخ اور رنگین سمجھا تو سوائے رنگوں کو ملانے اور برش چلانے کہ اس نے زندگی کو اور کچھ نہ سمجھا۔دیہاتی کسانوں کی خوبصورت پینٹنگز بناتا، اور نیدر لینڈ کے گاؤں پھرتا۔لوگوں کے غموں اور مسرتوں کو وہ اپنے رنگوں اور برش سے دیکھتا۔"Potato eaters" اس کی بہت مشہور پینٹنگ ہے جس میں اس نے چند کوئلے کی کان میں کام کرنے والے بچوں کی تصاویر بنائی ہیں جو رات کے کھانے میں ابلے آلو کھا رہے ہیں۔اس کے آرٹ نے اس کو مالی طور پر کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ بدحال ہو گیا۔اس مفلسی میں کچھ عرصہ اسکا بھائی تھیو Theo اس کی مدد کرتا رہا۔لیکن وانسٹ کی غربت اس کی خودکشی تک ختم نہ ہوئی۔
اس بےکار فن سے اس کو وحشت ہو گئی لیکن وہ پھر بھی مصوری کرتا رہا۔ اس کو جنون کا اثر پڑ گیا اور درماندہ زندگی نے اس کے ذہن کو تباہ کر دیا۔اس کا ایک عزیز دوست اس سے اس لیے دور بھاگ گیا کہ ایک بار غصے میں وان گو نے بلیڈ سے اپنا کان کاٹ ڈالا تھا۔
اس نفسیاتی اذیت سے نجات پانے کی خاطر اس نے مذہب میں بھی پناہ ڈھونڈی اور کئی سال عیسائی پروٹسٹنٹProtestant فرقے کے پادریوں کے ساتھ مشنری میں بھی رہا۔لیکن اس کا ذہن پھر بھی نفسیاتی اذیت سے آزاد نہ ہو سکا۔کچھ عرصہ نفسیاتی ہسپتالوں میں رہا وہاں بھی کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر فرانس کے ایک طبیب سے علاج کرواتا رہا۔لیکن بے سود۔آخر پھر اس نے طویل عرصہ دماغی اذیت اور اپنی غربت کے ہاتھوں جگہ جگہ ذلیل ہونے کے بعد خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ وہ تاروں بھری راتوں میں ڈوب کر خواب دیکھتا تھا اور سورج مکھی کے پھولوں کے کنارے بیٹھ دیہاتوں کو اپنے کینواس میں اتارتا تھا لیکن اس کو یہ نہیں تھا پتہ یہ دنیا ایک حسین خواب نہیں اور زمانے کی حقیقت سے آنکھیں بند کر کے جینے والے آخر بے یارو مددگار مر جاتے ہیں۔وان گو نے برش کا استعمال کر کے رنگوں کو ایسے سطحی زاویے دیے جو کہ جدید آرٹ کی بنیاد ہیں۔آج اس کی پینٹگزpaintings دنیا کے ہر آرٹ میوزیم میں ہیں۔ایمسٹرڈمAmsterdam کے میوزیم میں لگی اس کی سینکڑوں رنگین تصویریں اور پھولوں کے عکس جو دنیا میں مہنگے ترین فن پارے Art pieces ہیں؛ اہل نظر کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ زندگی ایک بہت بڑی زندہ حقیقت ہے اور صرف خواب دیکھنے سے نہیں گزرتی اپنی اس روح کو جو تنہا آئی تھی اور تنہا جائے گی ؛اپنے لیے اور دوسروں کے لیے عمل کر کے آسودہ کرنا چاہئیے وگرنہ جوں جوں عمر گزرتی جائے گی کرب بڑھتا جائے گا۔وان گو جن رنگوں کے سپنے بُنتا رہا اس معلوم نہ تھا کہ انہیں رنگوں میں اس کی موت پنہاں ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...