فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کا ناول کبڑا عاشق
The Hunchback of Notre-Dame
ایک پری رو اور ایک بدصورت کبڑے کی داستان عشق
اگر کوئی بدصورت شخص اور وہ بهی ایک آنکھ سے کانا اور پهر کبڑا کسی ایسی نازک سی پری پر عاشق ہوجائے، جس کے گیتوں کے ساته لگتا ہے کہ بلبل اور فضائیں بهی مل کر گاتی ہوں اور تمام کائنات مستی کا اظهار کرتی ہو، تو تب کیا ہوگا۔ یہی وکٹر ہیوگو کے موجودہ ناول کی کہانی ہے۔
اس ناول کی ایک عجیب سی داستان ہے۔ ہیوگو کو کسی ایسے ناول کو لکهنے کا شوق تو نہیں تها، جس پر وہ کل کو دنیا کا بڑا ادیب کہلائے بلکہ ان کی یہ دلی خواہش تهی کہ وہ یورپ کے مخصوص عمارتوں کے گوتک آرٹ کو کسی ایسی کتاب میں جگہ دے، جس پر یہ آرٹ اس کتاب کی وجہ سے کل کو زندہ رہے۔ اسی لیئے انہوں نے 1831 میں اپنا ناول The Hunchback of Notre-Dame لکها، لیکن اپنے شاندار پلاٹ، کردار نگاری اور بنت کے باعث یہ کتاب آگے چل کر دنیا کا ایک شاہکار ناول کہلایا، جس پر بعد میں بہت ساری فلمیں اور ڈرامے بهی بنے۔
قویزومونڈو، یہ ہے اس ناول کا کبڑا ہیرو، جس کے ناول کی ابتدا میں صرف دو ہی کام ہیں، اپنے پالنے والے پادری کلاڈ فرولو سے پیار کرنا اور پهر عبادت کے وقت اس بڑے سے گرجے کی گهنٹیاں بجانا، جہاں وہ پیدائش کے وقت سے رہتا ہے۔ ناول بہت ہی دلچسپ انداز میں شروع ہوتا ہے، جب شہر کے تمام لوگ ایک سالانہ جشن کے موقع پر جمع ہوتے ہیں اور دوسری تفریح کے ساتھ ساتھ ان کا کام کسی بے ہودہ شخص کو شہر کے بیوقوفوں کا بادشاہ بنانا بهی ہوتا ہے۔ اس طرح کرہ قویزومونڈو کے حق میں نکلتا ہے، اسے جوتوں کا ہار پہنایا جاتا ہے اور لوگ اسے کندهے پر بٹها کر ادهر ادهر بهاگ رہے ہوتے ہیں اور محصوم سا کبڑا اپنی اس شاندار اہمیت اور عزت افزائی پر پاگلوں کی طرح خوش ہو رہا ہوتا ہے اور تالیاں بجارہا ہوتا ہے۔ اسی طرح ناول میں ایک دوسرا خوبصورت کردار میرالدا کا ہمارے سامنے آتا ہے، جو ایک جپسی حسینہ ہے، ایک اس کی بکری ہے ، انتہائی خوش آواز ہے، گاکر اور ناچ کر بهیک مانگتی ہے اور شہر کے فقیروں کی بستی میں ان بهیک منگوں کے ساته رہتی ہے۔ میرالدا کو اللہ نے ایک خوبصورت دل بهی دیا ہے اور یہی نیک دل اس کے لیئے مصیبتوں کی وجہ بنتا ہے۔ پہلے تو وہ ایک پاگل قسم کے ڈرامہ لکهنے والے کو موت سے بچاتی ہے، جب وہ بدبخت فقیروں کے رسم و رواج سے بے خبر جشن کی رات وہاں ان کی بستی میں رات گزارنے کا ارادہ کرتا ہے۔ ان بهیک منگوں کی یہ رسم ہوتی ہے کہ وہ کسی اجنبی شخص کو اپنے درمیان پاکر اسے موت کی سزا دیتے ہیں ، لیکن جس وقت اسے پهندہ ڈال کر پهانسی پر لٹکایا جارہا ہوتا ہے، تو اچانک یہ حور شمائیل سامنے آتی ہے کہ اسے چهوڑ دو، میں اعلان کرتی ہوں کہ آج سے یہ میرا شوہر ہے۔ اس طرح وہ ڈرامہ نگار موت کے منہ سے بچ جاتا ہے، جبکہ بعد میں وہ اس ہونک کو دهتکارتی ہے کہ بهاگ جاو، میں کہاں سے تمہاری بیوی ہوں، میں نے تو صرف تمہاری زندگی بچانی چاہی۔ میرالدا کی اس نیک دلی کا اظہار اس وقت دوبارہ ہوتا ہے، جب کبڑا اپنے آقا پادری کلاڈ فرولو کے حکم پر اسے اغوا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو اپنی بڑی عمر کے باوجود اسے چاہتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی نفسانی خواہشوں کی آگ کو بجهانا چاہتا ہے، لیکن سپائی اسے پکڑتے ہیں اور اس طرح سزا کے طور پر اسے شہر کے سب سے بڑے چوراہے پر کوڑے لگوائے جاتے ہیں۔ قویزومونڈو جب زخمی حالت میں پیاس سے مررہا ہوتا ہے اور وہ پانی کے لیئے چیختا ہے، تو یہی میرالدا اس بڑے اور بے حس ہجوم کے درمیان سے نکل کر، جو تماشہ کے لیئے وہاں جمع ہوتا ہے اور خوش ہورہا ہوتا ہے، اسے پانی پلاتی ہے۔ اس کی اس رحم دلی پر کبڑا حیران رہ جاتا ہے اور اس ماہ جبین کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ کلاڈ فرولو اپنی ناکامی اور پهر میرالدا کی بے اعتنائی پر آگ بهگولہ ہورہا ہوتا ہے۔ اب وہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹهاکر اس معصوم پر جادوگرنی ہونے کا الزام لگاتا ہے اور یوں اسے موت کی سزا دی جاتی ہے، لیکن عین پهانسی کے وقت اس کا نیا عاشق کبڑا، جو انتہائی طاقت ور بهی ہوتا ہے، بهاگ کر اسے بچاتا ہے اور اسے کسی گڑیا کی طرح اٹها کر سیدها چرچ کا رخ کرتا ہے۔ اس زمانے میں یہ رواج تها کہ جو بهی مجرم چرچ میں پناہ لیتا، اسے کوئی بهی سزا نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ کے لیئے سزا سے بچ جاتا۔ اس بڑے سے گرجا میں کبڑے کی سچی محبت میرالدا کے سامنے آتی ہے ، وہ چرچ کی چهت پر عجیب عجیب سی بندروں والی حرکتیں کرتا ہے اور میرالدا اس کی ان حرکتوں پر روزانہ خوش ہورہی ہوتی ہے، لیکن ظالم کلاڈ فرولو کو یہ سب کچھ اچها نہیں لگتا۔ اب وہ تمام اچهی اقدار کو توڑتا ہے اور مذہبی عدالت اور بادشاہ وقت کے ذریعے سپاہیوں کو چرچ پر حملے کی دعوت دیتا ہے۔ اب طاقتور کبڑا سخت مزاحمت کا اظہار کرتا ہے، جس میں بہت سارے لوگوں کے ساتھ ساتھ کلاڈ فرولو بهی مارا جاتا ہے۔ اس طرح میرالدا کو آخر کار طاقت کے ذریعے چرچ سے نکالا جاتا ہے، اسے سزائے موت دی جاتی ہے اور اس کی لاش کو دوسرے سزا یافتہ مجرموں کے قلعے میں پهینکا جاتا ہے۔ عرصہ دراز کے بعد جب لوگ اس بند قلعے کا رخ کرتے ہیں، تو ہڈیوں کے ایک ڈهانچے سے ایک دوسرا بے جوڑ ڈهانچا لپٹا ہوتا ہے، جنہیں الگ بهی نہیں کیا جاسکتا اور یہ کبڑے کا ہوتا ہے، جو اپنی محبوبہ کی موت کے بعد وہاں آکر اس سے لپٹتا ہے اور تب بهوک اور پیاس کی وجہ سے اس کی موت بهی واقع ہوجاتی ہے۔
وکٹر ہیوگو کے ناول The Hunchback of Notre-Dame کو آج دنیا کے ایک کلاسک کا درجہ حاصل ہے اور اسے اس کی دلچسپ کہانی، کرداروں اور انوکهے واقعات کی وجہ سے خوب پسند کیا جاتا ہے۔ اس ناول کے ذریعے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ نیکی اور برائی کی جنگ ہمیشہ رہی اور اس میں ہر وقت برائی کو نفرت کی نگاہ سے دیکها گیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔