ان تمام محبتوں کو سلام،
جن کو ہم دیکھ دیکھ کے جیتے تھے، اور ان کو ہماری خبر تک نہ ہوئی۔
ان محبتوں کو سلام،
جنہوں نے “پتہ نہیں کیوں” کی بنیاد پر ہم جیسوں کو نظر بھر بھر کے دیکھا،
اور ہم انہیں محض اپنی شرافت دکھانے کی خاطر ایک “گھنے بدمعاش” بن کے رہ گئے۔
ان محبتوں کو سلام، جن کو لکھے گئے رقعے راستے میں انکے “مفت کے بھائیوں” کے ہاتھ لگے،
اور اس کے بعد ہم محلے میں “نظر اٹھا کر” چلنے کے قابل نہ رہے۔
ان محبتوں کو سلام،
کہ جنہوں نے “ازراہ مشق” ہم کو پریم پتر لکھے کہ شاید بعد میں کسی بہتر جگہ کام آسکیں،
مگر ہمارے “والد محترم”
ان میں املا کی غلطیاں،
اور بعد ازاں ہماری “ہڈیوں کی گرائمر” درست کرتے رہ گئے۔
ان محبتوں کو سلام،
جو ہماری بچپن کی سہلیاں تھیں،
مگر بعد میں ہماری “بچپن و جوانی کے سنگم” کی نازک عمر کیوجہ سے،
نجانے کیوں؟
بچپن کی وہ “پاک محبتیں” دھیرے دھیرے “ناپاک محبتوں” میں تبدیل ہونے لگیں،
اور ہم معصوم یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ
اب ان کے ساتھ “بچوں والا کھیل” کھیلیں،
یا “بچےبپدا کرنے والا کھیل”
ان محبتوں کو سلام
کہ جنہیں ہم بچپن میں باجی کہا کرتے تھے، اور پیار سے ان کے گلے لگ جایا کرتے تھے،
مگر اچانک ان سے گلے ملنے می شرم محسوس ہونے لگی
اور بلا ارادہ ، بغیر کسی اچھی یا بری نیت کے اور بنا کسی تکلف کے،
اب ہماری نظریں،
ان کی خد وخال، نشیب و فراز، چوٹیوں، کھائیوں اور سطح مرتفع پر الجھنے اور پھسلنے لگی
اور اس پھسلنے لڑکھنے کے چکر میں ہم کئی دفعہ زخمی بھی ہوئے اور خراشیں بھی آئیں
ان محبتوں کو سلام، جو کزن تھیں، اور جنم جنم کا ساتھ نبھانے کے لیے “بغیر کسی وجہ” کے تیار،
مگر “خاندان میں بدنامی” کے ڈر سے ہم ان سے دور ہی بھاگتے رہے۔
ان محبتوں کو سلام،
جو ہمیں فون کے رانگ نمبرز پر ہوئیں،
اور بعد میں سی ایل آئی کے ظالم موجد کیوجہ سے،
حسن کے پہرے داروں کو ہماری گھر کی استقبالیہ راہیں دکھائیں۔
ان محبتوں کو سلام،
جو گھٹیا معیار کی وجہ سے اتفاقا” “دو طرفہ” تھیں،
مگر انکی خبر گھر والوں کو نہ ہونے دی،
کہ کہیں “شریف بچے” کا خاندانی ٹائیٹل “چھچھورے” کے تمغے میں نہ بدل جائے۔
ان محبتوں کو سلام،
جو ہمیں چلمن کی اوڑھ سے وقت کی پابندی کے ساتھ جھانکا کرتی تھیں،
مگر جب جوابا” ہم نے “بےوقت” جھانکا جھانکی کی خاطر،
ان کی در و دیوار کے
چھید و شگاف،
درز و دراز،
جھری و روزن کا استعمال شروع کیا،
تو انھی حسیناوں کی مہربانی و شفقت سے،
اور انھی کے پیاروں کے ہاتھوں،
اپنے چہرے پر “نیل و سرخ” پیار کے نشان لے کر گھر لوٹے۔
اور جو درد سنا تھا کہ صرف دل میں ہوتا ہے،
ہماری آنکھ، جبڑے اور ٹھوڑی پہ ہوتا تھا۔
ان محبتوں کو سلام،
جو فیس بک پر تھیں،
اور اس خوشی میں کہ
اب ” گھر، محلے، خاندان ” کے پاکباز ماحول سے ہمیشہ کےلیے جان چھٹے گی،
اور پوری طرح ” کھلے، گندے، اور پیار بھرے غلیظ ماحول” کی سہولت میسر ہوگی،
مگر خود ان محبتوں نے ہمیں دوبارہ ” آپاوں، خالاوں، اور پھپھیوں” کا پاک محبتوں کی یاد دلا دی،
اور ایڈمن میں بیٹھے ہوئے ” بلا معاوضہ “چاچے مامے بھائیوں” نے ہمیں وہ وہ اذیتیں دیں،
کہ “والد صاحب” کی پٹائیاں کہیں زیادہ بھلی معلوم ہونے لگیں،
گویا اس ظالم ڈیجیٹل سماج نے ہمیں فیس بک پر بھی گھر جیسا ہی ماحول دیا۔
واہ اے مغرب، تیرا یہ ویلینٹائن ڈے،
واہ اے مشرق، تیری یہ پاکیزگی سے بھری ناپاک محبتیں۔
یہ منہ، اور یہ مسور چنے اور ماش کی دال۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...