جب بات کی جائے عشق،محبت اور پیار کی تو ترتیب ان کی کچھ یوں کی جاتی ہے پیار،محبت اور عشق ان میں سے پیار پہلی سیڑھی ہے محبت دوسری سیڑھی اورعشق وہ سیڑھی ہے جو آپکو بلندی پر پہنچا دیتا ہے
تصوف میں عشق کو بنیادی مقام حاصل ہے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں؛ تصوف میں پہلا درجہ حسن کے ظہور سے متعلق سے عام زندگی میں بھی بقائے نسل کا سلسلہ اِسی جذبے کا مرہون منت ہے جو محبوب کے سراپا کو دیکھ کر عاشق کے دل میں کروٹ لیتا ہے محبوب کی کشش محض جسم کی حد تک رہے تو جنبی کشش کہلا ئے گی اور اگر اِس کی تہذیب ہو جا ئے تو محبت کی لطا فت میں تبدیل ہو جا ئے گی بہت سارے اہل دانش نے عشق مجازی کو عشق حقیقی کا زینہ بھی قرار دیا ہے.
یعنی عشقِ حقیقی سے پہلے عشق مجا زی کی لذتوں سے بھی گزرنا ہو گا عشقِ مجا زی بہت حساس راستہ ہے قدم قدم پر راہنما ئی کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ با طن کا آئینہ بے غبا ررہے اور سالک دائمی مسرتوں سے بھی ہمکنار ہو جائے اِس خطرے کے پیش ِ نظر اہل حق نے محبت کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ایک جنس سے محبت ایسی محبت نفس پرستی بھی کہلا تی ہے اِس وادی میں طالب محبوب کی ذات کا اسیر ہو جا تا ہے دوسری قسم ایک جنس کی محبت کسی غیر جنس کے ساتھ ہو اِس محبت میں اپنے محبوب کی کسی ادا پر سکو ن وقرار حاصل کر نا ہو تا ہے تاکہ وہ آرام و راحت پا ئے؛
عاشقوں کے سرتاج جلال الدین رومی نے عشق مجازی کو اپنی حکا یت میں اِسطرح بیان کیا ہے؛ عارضی حسن معشوق بنا نے کے قابل نہیں ہے عشق اِسی ذات سے ہونا چاہیے جو لا زوال انسان کی ابتدا وہی ہے اور انتہا بھی وہی ہے اللہ ہی شروع میں پیدا کر تا ہے پھر وہی دوبا رہ پیدا کر ے گا پھر کم اس کے پاس لو ٹ کر جا ئے گا اللہ کے وصل کے بعد پھر کسی معشوق کا منتظر نہ بن وہی ظاہر ہے وہی باطن عاشق خدا احوال پر حاکم ہو تا احوال کا محکوم نہیں ہو تا جو شخص احوال کے تابع ہے وہ کامل نہیں فنا کے درجے پر پہنچ کر احوال عاشق کے تا بع ہو جا تے ہیں جس حال کی اس کو خوا ہش ہو وہ پیدا ہو جا ئے گا وہ چاہے تو موت جیسی تلخ چیز بھی شیریں بن جا تی ہے اور کانٹے پھول بن جاتے ہیں عشق کیسا جذبہ ہے کہ جب تیر بن کے کسی کے دل میں پیوست ہو جا ئے تو محبت جب اپنے کمال کو پہنچ جا ئے تو عاشق محبوب کا قیدی بن جاتا ہے اب تصور محبوب ذکر محبوب کے بغیر اس کا کہیں بھی دل نہیں لگتا پھر محبوب کے چہرے پر تبسم دیکھنے کے لیے وہ ہر طرح کی قربا نی کے لیے تیا ر ہو جا تا ہے عزت شہرت مال و دولت اپنی جان تک محبوب کے قدموں میں نثار کر نے کو تیا ررہتا ہے؛ کائنات میں ہر طرف عشق و محبت کے جلو ے بکھرے ہو ئے ہیں کائنات کی ہر چیز میں عشق کا نور نظر آتا ہے یہ نظر کیوں نہ آئے کیونکہ خالقِ کائنات نے اِس جہاں رنگ و بو نظاروں سے سجا دیا اِس کا ئنات کی تخلیق کے پیچھے بھی یہی جذبہ عشق یہی تو تھا جب خدا نے کائنات میں رنگ و نور کے کروڑوں جلوے ہر طرف بکھیر دیے
انسانی معاشرت کی تاریخ میں کچھ الفاظ ایسے ملتے ہیں جن کی معنویت میں ایک جہان آباد ہے۔ ان کی تشریح کرنے کے لیے مختلف فنون کا سہارا لینا پڑجاتا ہے مگر تب بھی اس کو بیان کرنے کی تشفی نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ایک لفظ ’محبت‘ یا ’رومان‘ ہے۔
مذکورہ لفظ کے مزید مترادفات میں عشق، پیار، لَوّ اور چاہت جیسے الفاظ شامل ہیں، جن سے اس لفظ کی معنویت میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے اور تفصیل سے اس جذبے کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
مگر ایک بات طے ہے، کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس لفظ کا طلسم ٹوٹا نہیں ہے۔ عشق و محبت کے اظہار کے لئے ہزاروں سالوں سے تقریبات منائی جاتی رہی ہیں مثلاً زمانہ قدیم کا ویلنٹائن ڈے "سپند ارمذگان” کے نام سے منایا جاتا تھا جشن سپند ارمذگان ایک قدیم ایرانی تیوہار ہے جو خواتین، زمین اور عشاق کا دن ہونے کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس تیوہار کا آغاز ہخامنشی دور میں ہوا۔ سپنتہ آرمیتی نامی مونث فرشتے سے منسوب اس دن کو قدیم زمانے کا ویلنٹائن ڈے بھی کہا جاتا ہے۔ آرمیتی اوستائی زبان کا لفظ ہے، پہلوی زبان میں اس فرشتے کو سپند ارمت کہا جاتا تھا جس کے معنی کامل دانائی ہیں۔ جب کہ جدید فارسی میں اسے خاتون فرشتے کا نام ”سپندارمذ“، ”اسفندارمذ“ اور ”اسفند“ ہے۔ آرمیتی کے مختلف نام ہونے کی وجہ سے اس تیوہار کو جشن اسپندگان اور جشن اسفند گان جیسے کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔مزدیسنی تقویم جسے خورشیدی تقویم بھی کہتے ہیں، کے بارہویں مہینے کا نام ، ا ور ہر مہینے کے پانچویں دن کا نام سپندارمذ(اسفند) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ چنانچہ جب مہینے اور دن کا نام ایک ہی ہو تو تب اس تیوہار کو منایا جاتا تھا۔ اس تیوہار کا ذکر ابو ریحان البیرونی نے اپنی کتاب ” آثارالباقیہ“ میں بھی ذکر کیا ھے اس لفظ کی اپنی طے شدہ کیفیت ہوتی ہے، جس میں مبتلا فرد کبھی اس کے سحر سے باہر نہیں آنا چاہتا۔
14 فروری کا دن پوری دنیامیں ویلنٹائن ڈے(Valentine Day) کے نام سے منایاجاتاہے ۔ اس کومحبت کاعالمی تہوارکہاجاتاہے ۔ عوام وخواص قوم وملت کی تقسیم سے بالاتر ہوکر اس تہوارکو بڑے جوش وخروش سے منانے لگے ہیں۔ اس دن کو محبت کے اظہارکادن کہاجاتاہے۔ اس روز تحائف بانٹے جاتے ہیں،خوشی کااظہارکیاجاتاہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج ویلنٹائن ڈے اور ”یوم حیا“ایک ساتھ منائے جارہے ہیں ۔ ایک طبقہ سرخ پھولوں کا تبادلہ کر رہا ہے تو وہیں پر ملک میں دوسرا طبقہ ’’یوم حیا ‘‘ کے عنوان سے حجاب ، شرم و حیا اور اسلامی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف تقریبات منعقد کررہا ہے اس مغربی تہوار سے مشرق کا ہر نوجوان بذریعہ میڈیا، سوشل نیٹ ورکنگ کے باعث پوری طرح سے واقف ہوچکا ہے۔ پاکستان میں جب ویلنٹائن ڈے کی روایت عروج پر پہنچی تو مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اس کی مخالفت میں اس کو یوم حیا کے طور پر منانا شروع کردیا ۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ ’’یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ 9 فروری 2009ءکو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیا گیا ۔ ویلنٹائن کے مقابلے میں اس روز کو ’’یوم حیا ‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے دیا انہوں نے اعلان کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14فروری 2009 کو ویلنٹائن کی بجائے ’’یوم حیا ‘‘ منایا جائے گا ۔ اگلے سال جب قیصر شریف اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’یوم حیا ‘‘ کو 14 فروری 2010 کے روز پورے صوبے میں جوش وخروش سے منانے کا فیصلہ کیا اور پھر 2011ءمیں پورے پاکستان میں ٰ’’ یوم حیا‘‘ منایا گیا ۔ لبرل ،سیکولر اور آزاد خیال عام پاکستانی اسے ”یوم محبت“ کے طور پر منا رہے ہیں جبکہ مذہبی سوچ کے حامل افراد اسے”یوم حیا“کے طور منا رہے ہیں فیصلہ تو دل نے کرنا ہے کہ کس صف میں شامل ہونا ہے؟
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب جو ھمارے لیے اسلام کا مرکز کہلاتا ہے وہاں ویلنٹائن کے دن پھولوں کی دکانوں، چاکلیٹ سٹورز اور ریستورانوں کے کاروبار میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں تک کہ جو ریستوران صرف فوڈ ڈیلیور کر رہے ہیں ان کی بھی اس موقع پر چاندی ہو گئی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے لوگ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو پھول اور چاکلیٹ ضرور دیتے ہیں۔
ماہرِتعلیم، سوشل ورکر اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی جو اقوام متحدہ سے مشیر برائے گلوبل ایجوکیشن کی حیثیت سے بھی وابستہ ہیں۔ اس موضوع پر اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ؛ ہر سال 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔ اس کے تاریخی پس منظر کی سب سے معروف اور مقبول روایت یہ ہے کہ سلطنت روم کی دوسری صدی عیسوی کے سینٹ ویلنٹائن ایک نیک، پرہیزگار اور بزرگ مذہبی پیشوا تھے۔ ہوا یوں کہ اس زمانے میں روم کے بادشاہ کلاڈئیس دوم نے سوچا کہ غیر شادی شدہ نوجوان ہی بہترین سپاہی ہوتے ہیں۔ اس لئے اپنی حربی اور دفاعی قوت کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے ایک شاہی فرمان کے تحت نوجوان لڑکوں کی شادیوں پر پابندی عائد کردی۔
لیکن بشپ ویلنٹائن نوجوانوں کے اس بنیادی حق کے حامی تھے اور انہوں نے نوجوانوں کو جنگوں سے بچانے کے لئے ان کی خفیہ شادیاں کرانا شروع کیں۔ شادی شدہ جوڑوں کو پھول وہ اپنے باغوں سے دیتے تھے۔ اس لئے پھول ویلنٹائن ڈے کا سب سے خوب صورت تحفہ ہے۔ بادشاہ کو جب پتا چلا تو شاہی حکم عدولی کی پاداش میں سینٹ ویلنٹائن کا سر قلم کر دیا گیا اور یوں وہ تاریخ کے صفحات میں امر ہو گئے۔ تاہم ویلنٹائن ڈے کا باقاعدہ طور پر ہر سال منانے کا آغاز چودھویں صدی کے آخر میں ہوا۔
اس مختصر کہانی کے پس منظر میں جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کسی بھی صورت بے حیائی کا نہیں بلکہ شادیوں، محبتوں اور امن کی خوب صورتیوں کا ایک حوالہ اور علامت ہے۔ اب ویلنٹائن ڈے کے مقابلے میں اسی دن کو حیا ڈے کے طور پر منانے کا کیا تک بنتا ہے؟ کیوں کہ اس دن کی تاریخ اور پس منظر کا بے حیائی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ سینٹ ویلنٹائن نے اسے ایک فطری اور جائز رشتے میں بدلنے کی شعوری کوشش کی تھی۔ اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ بے حیائی کا نہیں بلکہ محبتوں کا عالمی تہوار ہے؛
ہمارے یہاں عام لوگوں میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نے بغیر نکاح زنا کو جائز قرار دیا جو کہ سراسر ایک بہتان ہے۔ حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔
انیسیوں صدی کے آغاز کے قریب سینٹ ویلنٹائن ڈے پر پرنٹرز نے رومانی کارڈوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور یوں ویلنٹائن ڈے وہ کمرشل تہوار بنتا چلا گیا جو آج ہمیں نظر آ رہا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ کیتھولک چرچ کی تاریخ میں کم از کم 3 مختلف افراد ہیں جن کے نام ویلنٹائن یا ویلنٹینوس تھے اور ان تمام نے ہی اپنے نظریات اور اصولوں کی خاطر جان دی۔
Valentine’s Day is celebrated throughout the world and is widely considered as the beautiful day dedicated for the celebration of love. However, very few of us know, and very few like you feel the need to know about the incredible saga that surrounds the legend of the original Valentine. Read this book to know more about the Valentine’s Day.
ایک داستان یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں جب رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے لشکر تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا ، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن پادری نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی ، بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی۔
دیگر داستانوں کے مطابق ویلنٹائن کو اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ اس نے مسیحیوں کو رومیوں کی جیلوں سے فرار کروانے میں مدد کی کوشش کی تھی جہاں ان مسیحیوں کو مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
تیسری کہانی یہ ہے کہ جیل میں قید پادری ویلنٹائن کو قید خانے کے جیلر کی کم عمر بیٹی سے محبت ہو گئی جو جیل میں اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔ پھانسی پانے سے قبل اس نے جیلر کی بیٹی کو خط لکھا جس کے آخر میں لکھا "تمہارا ویلنٹائن”. یہ واقعہ 14فروری 270ء کا ہے۔ یہ طریقہ بعد میں محبت کرنے والوں میں رواج پاگیا اور وہ آج تک اس دن محبت کے اظہار کے لیے کارڈز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ تاہم ان تمام کہانیوں کے باوجود ویلنٹائن ڈے کی حقیقت آج تک پراسرار ہی سمجھی جاتی ہے۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...