علی بڑی بے صبری سے 14فروری کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ اُس اجنی لڑکی نے جو گزشتہ آٹھ ماہ سے اُس سے فون پر گھنٹوں بات کرتی تھی اِس بار اُسے اکیلے میں ملنے اور پھول پیش کر کے سرِ عام اظہارِ محبت کا کہا تھا وہ دن بھر مضطرب رہتا اور خود کو بنانے سنوارنے کے ساتھ ساتھ اس چیز کی بھی مشق کرتا کہ کہ اُس لڑکی کے ساتھ بات کیسے کرنی ہے کون کون سے الفاظ استعمال کر کے اس کا دل جیتا جا سکتا ہے وہ بھی اس طرح کہ وہ لڑکی اس کی گرویدہ بن جائے گو اُس نے ہزاروں جتن کر ڈالے اور جو کچھ سعی کر سکتا تھا کی تاکہ وہ لڑکی اُس کی ہمیشگاں کیلئے ہو جائے ۔۔۔۔وقت کہاں رکتا ہے یہ تو برق رفتاری سے گزر رہا ہے، آخر 14 فروری بھی آ گئی وہ بڑا تیار ہو کر کالج کیلئے روانہ ہوا اور اپنی بہن سے بھی جلدی تیار ہونے کو کہا ،پر پتہ نہیں کیوں، وہ بھی آج کچھ خاص تیار ہو کر باہر نکلی علی نے نوٹ کیا کہ آج اس کی بہن بھی بہت خوش ہے، خیر دونوں جانبِ کالج روانہ ہوئے، اب کوئی دن کو 11 کے قریب علی نے اجنبی لڑکی کو کال کی اور استفسار کیا کہ وہ کہاں ہے؟ اور ملنے کہاں آنا ہے؟ لڑکی نے چونکا دینے والا جواب دیا کہ "میں تمہارے کالج کی ہی ہوں اور ملنے بھی آ جاؤ گراؤنڈ میں "علی بڑی جلدی جلدی جماعت سے نکلا اور گراؤنڈ کی جانب بڑھا، گراؤنڈ میں اس نے دیکھا کہ بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اسی کام میں محو تھے جس کیلئے وہ جا رہا تھا اچانک اس کی نظر گراؤنڈ کی نکڑ پر پڑی اور جو منظر اس نے دیکھا اس کے بعد اد کا دل چاہا کہ زمین شق ہو اور وہ اس میں غرق ہو جائے کیونکہ اس کی بہن بھی کسی لڑکے سے پھول وصول کر رہی تھی اور دونوں باہم بغل گیر ہو کر اظہارِ محبت کر رہے تھے اس سے رہا نہ گیا اور اس نے غیض وغضب میں آ کر بہن کو پکارا اور خود بھی اس جانب برق رفتاری سے بڑھا وہ لڑکا علی کو دیکھ کر رفو چکر ہو گیا اور اس کی بہن علی سمت بڑھی، علی نے دریافت کیا کہ کون ہے لڑکا؟ اور یہ کیا ہو رہا تھا؟، اس کی بہن نے کہا ہے "،محبت "، علی نے کہا سب کے سامنے بے غیرتی یا محبت؟ اس کی بہن نے بھی جواب دیا کہ جو آپ کرنے آئے تھے وہی ،اِسے اب جو بھی نام دیں آپ کی مرضی، علی کے پاس اپنی بہن کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔۔۔علی کی بہن نے کہا کہ بھیا بیٹھو میں سارا قصہ سناتی ہوں اور میں آپ جیسی نہیں ہوں امی ابو کی عزت کا خیال ہے مجھے، بھیا جس لڑکی سے تم روز بات کرتے ہو وہ لڑکی اِس لڑکے کی بہن ہے اور اسے آپ دونوں کے بات کرنے کا چند دن پہلے پتہ چل گیا اور آپ کے نمبر کے بارے میں بھی، یہ لڑکا بہت شریف اور اچھا ہے بھیا اس نے مجھ سے بات کی میں نے کہا کہ اپنے طریقے سے سمجھاؤں گی تمہیں تاکہ لڑائی جھگڑے میں دونوں کا مستقبل داؤ پر نہ لگ جائے سو بھیا ہم نے ایسا جان بوجھ کر منصوبہ بنایا تھا اور ملنے وغیرہ کا بھی اس لڑکی کو ہم نے کہا تھا بھیا اور یہ سب جو آپ نے دیکھا یہ بھی آپ کو سبق سکھانے کیلئے تھا باقی بھیا میں حلفاً کہتی ہوں کہ وہ لڑکا مجھے تمہاری طرح ہے مطلب بھائی ۔۔۔علی تمہیں یاد ہے بابا جی نے کہا تھا کہ "ہم نے انگریز سے بہت پہلے آزادی تو حاصل کر لی مگر ہماری سوچ آج بھی ان کی یرغمال ہے ہم آج بھی بہت سی رسومات میں ان کے محتاج ہیں اور بہت سے غلط کام بھی ان کی تقلید میں کرتے ہیں اس بات سے ماورا ہو کر کہ ہم مسلمان ہیں سلام کی بجائے "ہائے، خدا حافظ کی جگہ"گڈ بائے"وغیرہ اور پھر کہا تھا کہ بیٹا، یہ ویلنٹائن ڈے جیسی قبیح رسم بھی انگریز کی ہی ہے گوروں کے پیچھے لگ کے ہم نے اپنی ماں، بیٹیوں کی عزت کا جنازہ سرِ عام نکال دیا بیٹا، کسی کو یوں اکیلے میں بلا کر یوں پھول پیش کر کے ایک دن کی محبت جتلا کر کیا حاصل؟ محبت کیلئے بھی دن مقرر کر دیا ہم نے پھر محبت ماں، باپ، بہن، بھائی سے بھی تو کی جا سکتی ہے یہ کیا کہ کسی کی عزت یوں اجاڑ دینا، یہ کاہے کی عقلمندی ہے، بیٹا، ہم یہ پسند کریں گے کہ ہماری ماں، بیٹی کو کوئی یوں بلا کر پھول پیش کرے، بغل گیر ہو کر پیار کا اظہار کرتا پھرے، بالکل نہیں بیٹا، بالکل نہیں، تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ دوسری کی بھی تو عزت ہوتی ہے"علی نے بہن سے کہا کہ غلطی ہو گئی اور معاف کر دیں اس لڑکے سے بھی معافی مانگ لی اور دونوں بہن بھائی ہنسی خوشی اپنی اپنی جماعت میں چل دیے اور علی نے وہ پھول بھی بہن کو دے دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...