بیساکھ یا ویساکھ پنجابی کیلنڈر (شمسی) کا پہلا مہینہ جبکہ (قمری) کا دوسرا مہینہ ہے۔ بکرمی کیلنڈر (شمسی) کا پہلا مہینہ جبکہ (قمری) کا دوسرا مہینہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ نانک شاہی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے۔ پنجاب کے کسان بیساکھی کو بطور تہوار مناتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت بہار اپنے عروج سے اختتام کی طرف بڑھتی ہے۔ پھول اپنی خوشبو بکھیر رہے ہوتے ہیں اور آم کے درختوں پر بُور اور کلیوں کی بہتات ہوتی ہے۔
21 ویں صدی میں بیساکھی ہر سال 13 یا 14 اپریل کو منائی جاتی رہے گی۔ تاہم 1801ء میں بیساکھی 11 اپریل کو منائی گئی تھی۔ 2999ء میں بیساکھی 29 اپریل کو ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیساکھی کی تاریخ آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ 2021ء میں بیاسکھی 14 اپریل کو ہوگی۔
یکم بیساکھ یعنی 13 یا 14 اپریل کو بیساکھی کا میلہ منایا جاتا ہے۔ اس دن فصلوں کی کٹائی کے موقع پر نوجوان کھڑی فصلوں کو کاٹنے سے پہلے کھیتوں میں جاکر ڈھول کی تھاپ پر لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ خوشی مناتے ہیں۔ یہ تہوار زبردست جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔اس دن لنگر کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ بیساکھی کے تہوار کے حوالے سے پنجاب بھر کے شہروں میں میلے لگائے جاتے ہیں اور ہر کوئی اپنی عقیدت کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔
پنجاب کی سر زمین کو "دل والوں کا آشیانہ" کہا جاتا ہے۔ اس میں رہنے والے آج بھی لگن کے ساتھ اپنی ثقافت اور دریا دلی کے ساتھ اپنے تہواروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ بیساکھی کا تہوار تقسیم شدہ پنجاب کے دونوں جانب کے پنجابیوں کے لیے "ملن کا بہانہ" بن جاتا ہے اور ہر سال اپریل کے مہینے میں ہزاروں سکھ پنجابی بیساکھی منانے پاکستان چلے آتے ہیں۔
بیساکھی کا دن سکھوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سکھوں کے مشہور رہنما گرو گوبند سنگھ کے قائم کردہ خالصہ سلسلے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جس کا آغاز انہوں نے 1699ء میں کیا تھا۔ سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ نے پانچ پیاروں کا امتحان لیا تھا اور سکھ مذہب میں ذات پات کے تصّور کو ختم کیا تھا۔ جبکہ گرو امر داس کے سکھوں کے لیے چنے گئے تین تہواروں میں سے بیساکھ ایک تھا-
اپریل کے وسط میں پنجاب میں گندم کی فصل کی کٹائی کے ساتھ بیساکھ کا آغاز بھی ہوجاتا ہے۔ اس مہینے میں راولپنڈی کے قریب حسن ابدال شہر میں سکھوں کے تہوار بیساکھی کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ مشرقی پنجاب سے ہزاروں سکھ خصوصی ٹرینوں کے ذریعے مغربی پنجاب پہنچتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد امریکا ' کینیڈا اور یورپ سے بھی آتی ہے۔
پاکستان کے قیام اور پنجاب کی تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب میں بیساکھی کا تہوار اپنی پوری آب و تاب اور خوشیوں کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ گندم کی کٹائی کے موقع پر پنجاب کے گھبرو جوان ڈھول کی تھاپ پر کٹائی شروع کرتے۔ الہڑ مٹیاریں بھی سج دھج کر بیساکھی کے گیت گاتیں۔ ماضی میں بیساکھی کا میلہ کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں تھا۔ بڑے بوڑھوں کے مطابق 1947ء سے پہلے پنجاب کے تمام کسان مذہبی تقسیم سے بالا تر ہوکر گندم اور دیگر ربیع کی فصلوں کی کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے اور میلے منعقد ہوتے تھے۔ فصلاں دی مک گئی راکھی۔ جٹا آئی وساکھی ' آئی وساکھی۔ زبان زد عام نعرے ہوتے تھے۔
مگر وقت بدلا تو بیساکھی کا تہوار سکھوں کے مذہبی تہوار کا رتبہ حاصل کر گیا۔ بیساکھی کا دن سکھوں کے لیے خالصہ کا جنم دن کہلاتا ہے۔ سکھ خالصہ جنم دن کا تہوار پاکستان کے شہر حسن ابدال کے گوردوارہ پنجہ صاحب میں منایا جاتا ہے۔ تین روزہ تقریبات میں بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھ یاتری یہاں آتے اور مذہبی رسومات اداکرتے ہیں۔
بیساکھی کے تہوار کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں “گرنتھ صاحب” کے پاٹ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں۔ سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے انکے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں۔ گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترہ پر نہ آسکیں وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ تقریبات کے آخری دن بھوگ کی رسم اد ا کی جاتی ہے۔ سکھ یاتری بابا گورو نانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں۔گوردوارے کے اندر پرساد پکائے جاتے ہیں۔ گوردوارہ پنجہ صاحب میں تقریبات سے فارغ ہوکر سکھ لاہور اور ننکانہ صاحب کا رخ کرتے ہیں۔