(Last Updated On: )
انسانی جسم پیدائش سے ہی اپنی بقا کا ایک مؤثر اور خودکار نظام لے کر آتا ہے۔ جب بھی کوئی بیماری انسانی جسم پر حملہ آور ہوتی ہے، تو خون میں موجود سفید سیل ایسا مواد بنانا شروع کر دیتے ہیں، جو حملہ آور بیماری کا خاتمہ کر سکے۔ پروٹین پر مشتمل اس مواد کو اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز انسانی قوت مدافعت کا اہم حصہ ہیں۔ انسانی جسم حملہ آور بیماری کو پہچاننے میں کچھ وقت لگاتا ہے۔ اور پھر اینٹی باڈیز پیدا کرکے اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ بیماری کے خلاف جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہو جانے پر، جسم اس قابل ہوتا ہے کہ آئندہ اس بیماری کے حملے میں اینٹی باڈیز کی فوج کو متحرک کرتے ہوئے بیماری پر قابو پا سکے۔
سینکڑوں سالوں پہلے بدھ بھکشو سانپ کا زہر پی لیتے، تاکہ سانپ کے کاٹنے کیخلاف جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوسکے۔ قریب ہزار سال پہلے چین کے باسی چیچک سے بچاؤ کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار کرتے تھے کہ چیچک کے زخم کی خشک جلد باریک پیس کر صحت مند شخص کے ناک میں داخل کی جاتی، تاکہ چیچک سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ اس عمل کو طب کی زبان میں ویرولیشن کہا جاتا ہے۔ صحت مند شخص چیچک سے بچاؤ کیلئے یہ عمل کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔ کیونکہ اگر ایک دفعہ چیچک کا نشانہ بننے پر موت سے بچ گئے تو چہرے پر چیچک کے زخم کے نشانات، بینائی کا بالکل چلے جانا یا پھر کمزور ہو جانا شامل تھا۔ اٹھارہویں صدی میں جدید ویکسینیشن کے بانی ڈاکٹر ایڈورڈ جینر کے مطالعہ میں یہ بات آئی، کہ چین میں اب بھی گائے کے تھنوں پر پائی جانے والی بیماری cowpox سے متاثرہ جلد کو ویرولیشن کے عمل کے لیے استعمال کیا جاتا۔ دوسری طرف تجربات سے ثابت ہوا کہ گائے کا دودھ نکالنے والی خواتین چونکہ cowpox (چیچک کی کمزور قسم) کے وائرس ویکسینیا کا شکار ہوکر چیچک کیخلاف قوت مدافت حاصل کر لیتی ہیں۔ اسی باعث چیچک کے حملے سے محفوظ رہتی ہیں۔ یوں سادہ سا قانون قدرت سمجھ میں آگیا کہ اگر بیمار نہ کر سکنے کے قابل مرض کی کمزور قسم انسانی جسم میں داخل ہو، تو ہمارا جسم خودکار طریقے سے اس بیماری کو شناخت کرکے اینٹی باڈیز بنا لیتا ہے اور یوں ہم مستقبل میں بھی اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
1796ء میں ڈاکٹر جینر نے ایک 13سالہ لڑکے کے جسم میں ویکسینیا وائرس داخل کیا اور دو سال تک کے تجربات اور مشاہدے کے بعد باقاعدہ طور پر چیچک کی پہلی کامیاب ویکسین بنانے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں فرانسیسی ماہر طب لوئی پاسچر نے انیسویں صدی کے اوائل میں ہیضہ اور انتھراکس کی ویکسین بنی۔ اب تک 26 مختلف جان لیوا امراض کی ویکسین دستیاب ہیں۔ ویکسین کے تجربات، تیاری، فروخت اور استعمال کیلئے سختی سے سے طے شدہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے۔
ویکسین کی دریافت سے نسل انسانی ہیضہ، طاعون، خسرہ، چیچک، کالی کھانسی، پولیو جیسی خوفناک بیماریوں سے نجات ملی ہے۔ وائرس کی شناخت کے بعد مختلف ویکسین کی دریافت کا یہ سفر کئی کئی سالوں پہ محیط تھا۔ مثلاً ٹی۔بی کی ویکسین سو سال، اور سپینش فلو کی 28 سال بعد دریافت ہوئیں۔ جبکہ کئی معلوم وائرس کی ویکسین تاحال دریافت نہ ہو سکی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے باقاعدہ طور پر ویکسینیشن کے حوالے سے باقاعدہ طریقہ کار طے کیا ہے۔ جس کے تحت نوزائیدہ بچوں کو ابتدائی دو سالوں میں حفاظتی ٹیکے گانے کا کورس ہمارا روزمرہ مشاہدہ ہے۔ لیکن اگر ابتدائی عمر میں کسی وجہ سے یہ کورس مکمل نہ ہوا ہو تو بھی طریقہ کار اور ویکسین دستیاب ہیں۔
بات اتنی سادہ بھی نہیں، ویکسین بنی، فوائد سامنے آئے اور ہم انسانوں نے لگوانی شروع کردی۔ نہیں بالکل نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور ایسا ہوا بھی نہیں ۔ ۔ ۔
1970ء کے اواخر میں ویکسین بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے کے خلاف مغربی عدالتوں میں مقدمات چلے۔ بہت سے سماجی اور مذہبی طبقات نے ویکسین نہ لگوانے کی رعائیت حاصل کی۔ کئی مغربی ممالک نے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے مذہبی و سماجی بنیادوں پر ویکسین نہ لگوانے کی قانونی رعایت دی۔
لیکن خسرہ، ہیضہ اور پولیو جیسی بیماریوں کے بار بار پھوٹ پڑنے پر بہت سے ممالک میں طبی وجہ کے علاوہ ویکسین نہ لگوانے کی رعایت کے قوانین ختم کردیے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے اب بھی دنیا کے کئی خطوں میں مذہب، قدامت پسندی یا مختلف قسم کے منفی پروپیگنڈا کی وجہ سے نہ صرف ویکسین کے استعمال سے اعراض برتا جاتا ہے۔ بلکہ طبی عملہ پر حملہ آور ہونے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال وطن عزیز پاکستان میں بھی ہے۔ جہاں پولیو ویکسین کے خلاف قدامت پسند سوچ مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہتی ہے۔
جون 2019 میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویکسین بارے ہچکچاہٹ کو درپیش دس بڑے عالمی چیلنجز میں سے ایک قرار دیا گیا۔ یہ حقائق اپنی جگہ کہ ویکسین کی ایجاد کے بعد بہت سی بیماریاں ماضی کا حصہ بن گئیں۔ ویکسین نہ لگوانے والوں میں بیماری کی شرح خوف ناک حد تک بلند رہی۔ ویکسین پر ایک ڈالر خرچ کرکے صحت کے شعبہ پر خرچ ہونے والے 16 ڈالر کی بچت آئی۔ عالمی ادارہ صحت اور معاون عالمی اداروں اور مقامی حکومتوں کی کوششوں کی بنا پر ہر 10 میں سے 9 افراد کو ویکسین لگ چکی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ویکسین سے انکاری یہ دسواں شخص یقیناً عقل کُل ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث دیگر ہم جنسوں کے لئے بھی خطرے کا سامان کررہا ہے۔