(Last Updated On: )
تحریر : وی ایس نائپال (ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو)
مترم: شیخ نوید (کراچی)
میں کبھی ان کا حقیقی نام نہیں جان سکا، یقیناً ان کا کوئی نام ہوگا لیکن میں نے ان کو سوائے طلائی دانت کے کسی نام سے پکارے جاتے ہوئے نہیں سنا۔ بالکل، ان کے طلائی دانت تھے اور وہ سولہ تھے۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں ایک مالدار شخص سے بیاہ کیا اور شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی اپنے نہایت مضبوط دانتوں کو طلائی دانتوں سے تبدیل کردیا تاکہ وہ دنیا کو جتلا سکیں کہ ان کا شوہر حیثیت والا انسان ہے۔
طلائی دانتوں کے بغیر بھی میری چچی کو نظر اندار کرنا مشکل تھا، ان کا قد گھٹا ہوا بمشکل پانچ فٹ تھا اور وہ خطرناک حد تک کسی عفریت کی طرح موٹی تھیں، اگر آپ دیوار پر ان کا سایہ دیکھتے تو آپ کیلئے اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ ان کا منھ آپ کی طرف ہے یا وہ اپنے اردگرد دیکھ رہی ہیں۔
وہ کھاتی کم اور عبادت زیادہ کرتی تھیں، ایک ہندو خاندان سے تعلق اور ایک پنڈت کی بیوی ہونے کے ناتے وہ خود بھی کٹر ہندو تھیں، ان کا علم ہندوازم کی رسومات اور ممنوعات تک محدود تھا اور یہ ان کیلئے کافی تھا۔ طلائی دانتوں والی آنٹی خدا کو طاقت کی طرح سمجھتی تھیں اور مذہبی رسومات کو عظیم عملی اچھائیوں بلکہ اپنی بہتری کیلئے طاقت کے حصول کے ذرائع جانتی تھیں۔
مجھے ڈر ہے، شاید میں نے یہ تاثر دیا ہے کہ طلائی دانت اس لئے عبادت کرتی تھی تاکہ وہ اپنا موٹاپا کم کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بچے نہیں تھے وہ تقریبا چالیس سال کی تھیں۔ یہ ان کی بے اولادی تھی نہ کہ ان کا موٹاپا، جو ان کو ہر وقت دباؤ میں رکھتی تھی اور وہ اس لعنت سے چھٹکارے کیلئے عبادت کرتی تھیں۔ وہ غیبی طاقتوں تک رسائی کے راستوں پر چلنے کیلئے، کسی بھی رسم اور عباداتی عمل پر عمل پیرا ہونے کیلئے ہر وقت تیار رہتی تھیں، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ چوری چھپے مسیحی رسومات کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئیں۔
اس وقت وہ کیرونی کے مضافاتی گاؤں کونوپیا میں رہتی تھیں، اس مقام پر مسیحی کینیڈین مشن نے غیر مسیحی انڈین کیخلاف لمبی جنگ لڑی اور کئیوں کو بچایا (وہ مسیحی بن گئے)، لیکن طلائی دانت نے اس مشن کا سخت مقابلہ کیا۔ کونوپیا کے وزیر نے اپنی پروٹسٹنٹ مذہبی پن سے زور ڈالا اور یہی کام مشن اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے بھی کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میری چچی نے ایک لمحے کیلئے بھی اپنے مذہب کی تبدیلی کے متعلق نہیں سوچا اور اس خیال نے انہیں بہت ڈرایا۔ ان کا والد اپنے زمانے کا مشہور ہندو پنڈت تھا اور اس کے شوہر کی بھی بطور پنڈت شہرت، کہ وہ سنسکرت پڑھ اور لکھ سکتا ہے، کونوپیا سے باہر بھی پھیل چکی تھی۔ انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ ہندو دنیا کے بہترین لوگ ہیں اور ہندوازم ایک ارفع مذہب ہے۔ وہ اپنی عبادت کو چننے، ان میں ترمیم اور خلائی مخلوق کی رسومات کو شامل کرنے کیلئے تیار تھیں لیکن وہ اپنے مذہب سے دستبرداری پر کسی قیمت پر راضی نہیں تھیں۔
کونوپپا میں رہنے والے اچھے ہندؤں کیلئے مسیحی مشن واحد خطرہ نہیں تھا، اس کے ساتھ انہیں ہمیشہ سے موجود کھلی مسلم جذباتیت کا بھی سامنا تھا۔ کیتھولک افراد کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جاتا تھا۔ ان کے پمفلٹ ہر طرف تھے اور ان سے بچنا مشکل تھا۔ ان پمفلٹ سے طلائی دانتوں والی چچی نے نووینا (قدیم مسیحی عبادت)، روزاریز(مسیحی عبادت)، ولیوں کے اور فرشتوں کے گروہ کے متعلق جانا۔ یہ وہ چیزیں تھی جن کو میری چچی سمجھتی تھی اور ان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات بھی محسوس کرتی اور یہ اشیا ان کو مزید حوصلہ دیتیں کہ وہ ان کے بارے میں تلاش جاری رکھے۔ انہوں نے مذہبی اسرار، معجزوں، کفاروں اور بخشش کے متعلق پڑھا۔ ان کے شکوک و شبہات کم ہوگئے اور انہوں نے اسے جلدی سے جو ش و خروش کے ساتھ تسلیم کرلیا۔
ایک صبح انہوں نے تین میل کے فاصلے پر، دو سٹیشن اور بیس منٹ دور، چیگواناس ٹاؤن جانے کیلئے ٹرین پکڑی۔ سینٹ فلپ اور سینٹ جیمز کا چرچ چیگواناس میں کیرونی سوانا روڈ کے آخر میں اپنی مرعوب کن حیثیت کے ساتھ ایستادہ تھا۔ اگرچہ طلائی دانت چیگواناس سے اچھی طرح واقف تھیں لیکن چرچ کے بارے میں ان کی معلومات اس کی گھڑی تک محدود تھیں اور ہر مرتبہ ریلوے اسٹیشن جاتے ہوئے وہ اس گھڑی پر اچٹتی نظر ڈال لیا کرتیں۔ وہ اب تک زیادہ توجہ گھڑی کے سامنے دوسری طرف سے موجود مٹیالے اور گہرے بادامی رنگ کی بڑی عمارت پر دیتی تھی جوکہ پولیس اسٹیشن تھا۔
وہ احترام اور ذاتی نڈرپن کے ساتھ چرچ کے صحن میں داخل ہوئیں، اس احساس کے ساتھ جیسے کوئی مہم جو آدم خوروں کی سرزمین میں داخل ہوتا ہے۔ انہیں اطمینان ملا کہ چرچ خالی تھا، یہ اتنا ہولناک نہیں تھا جتنا انہوں نے توقع کی تھی۔ اس نے وہاں تصویریں اور درخشاں کپڑے پائے جس نے اسے ہندو مندر کی یاد دلائی۔ ان کی محتاط نظریں ایک سائن بورڈ پر پڑیں: دو سینٹ کی ایک موم بتی۔ انہوں نے اپنی چادر کے کونے سے گرہ کھولی جہاں وہ اپنی رقم رکھتی تھیں اور تین سینٹ نکالے اور ان کو باکس میں ڈال دیا، ایک موم بتی اٹھائی اور ہندوستانی زبان میں ایک دعا پڑھی۔ انتہائی مسرت کے ایک لمحے نے ان کے دل سے جرم کے احساس کو دور کردیا اور وہ گبھراہٹ کے ساتھ چرچ سے باہر نکلیں، اتنا تیز جتنا ان کے وزن نے اجازت دی۔
انہوں نے گھر کیلئے ایک بس لی اور موم بتی کو اپنے صندوق میں چھپا دیا، وہ خوفزدہ تھیں کہ ان کے شوہر کی برہمنی جبلت اپنی غیب دانی سے ان کی چیگواناس کے سفر کو بے نقاب کردے گی۔ چار دن گزر گئے لیکن ان کے شوہر نے کچھ نہیں کہا، ان چار دنوں کو انہوں نے زیادہ سے زیادہ عبادت میں گزارا تھا، چچی کو لگا کہ اب موم بتی کو جلانا محفوظ ہوگا۔ انہوں نے رات کے وقت، چوری چھپے، اپنے ہندو مذہب کی تصاویر کے سامنے اس موم بتی کو جلایا اور اپنی دعاؤں کو دگنی خشوع و خضوع کے ساتھ مانگا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا مذہبی شیزو فرینیا بڑھتا گیا اور انہوں نے ایک صلیب پہننی شروع کردی، جس کے متعلق نہ ان کے شوہر اور نہ ہی ان کے پڑوسیوں کو خبر ہوئی۔ چین ان کی چربی بڑھی گردن کی میں گم ہوگئی جبکہ صلیب نے خود کو ان کے جسیم پستانوں کے درمیان دفن کردیا۔ بعد میں انہوں نے دو مقدس تصویریں بھی حاصل کرلیں، جن میں سے ایک کنواری مریم جبکہ دوسری مصلوب مسیح کی تھی اور احتیاط سے انہیں اپنے شوہر سے چھپا کر رکھ دیا۔ ان مسیحی اشیاء کے سامنے دعاؤں نے انہیں دباؤ سے نکال کر ان میں نئی امید جگادی، ان کو مسیحیت کا نشہ سا چڑھ گیا، پھر ان کے شوہر رام پرساد بیمار پڑگئے۔
رام پرساد کی اچانک اور گنتی میں نہ آنے والی بیماری نے طلائی دانتوں والی چچی کو خبردار کردیا، ان کو یہی سمجھ آیا کہ یہ عام بیماری نہیں اور اس کی وجہ ان کا مذہبی انحراف ہے۔ چیگواناس کے ڈسٹرکٹ میڈیکل افسر نے کہا کہ یہ ذیابیطس ہے لیکن میری چچی اس سے زیادہ جانتی تھی۔ پہلی احتیاط کے طور پر انہوں نے مجوزہ انسولین کو استعمال کیا اور مزید احتیاط کیلئے انہوں نے صوفیانہ طبیعت رکھنے والے مالشی گنیش پنڈت سے رابطہ کیا جو ایک روحانی معالج کے طور پر مشہور تھا۔
گنیش نہایت عاجزی اور پریشانی میں طلائی دانتوں والی چچی کے شوہر کیلئے فیونتے گرو سے کونوپیا چلا آیا، چچی کا شوہر برہمن پانڈے تھا جو کہ پانچوں وید جانتا تھا جبکہ گنیشن محظ چوبے تھا اور وہ صرف چار وید جانتا تھا۔
بے داغ سفید کرتے کے ساتھ اُس کی دھوتی احتیاط سے بندھی جبکہ سبز رنگ کی جھالردار چادر اس کی نفاست کی گواہی دے رہی تھی، پیشہ ورانہ صوفی پن کا اعتماد اُس کی شخصیت سے ٹپک رہا تھا، اُس نے بیمار پر نظر ڈالی، اُس کے زرد چہرے پر غور کیا اور تفتیشی انداز میں میں کمرے کی ہوا کو سونگھا۔ ’’یہ شخص‘‘، اس نے آہستہ سے کہا ’’آسیب کا شکار ہے، سات بدروحوں نے اس پر قبضہ جمایا ہوا ہے‘‘۔
’’لیکن آپ کو بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘‘، گنیش نے مزید کہا ’’ہم اس گھر کو روحانی حصار میں باندھ دیں گے اور کوئی بدروح اس گھر میں داخل نہیں ہوسکے گی‘‘۔
طلائی دانتوں والی چچی بغیر کچھ مانگے ایک کمبل لے آئی، اسے لپیٹا اور زمین پر بچھا کر گنیش کو دعوت دی کہ وہ اس پر بیٹھ جائے۔ پھر وہ تازہ پانی سے بھری ہوئی پیتل کی صراحی، آم کے درخت کا پتہ اور جلے ہوئے کوئلوں سے بھری ایک پلیٹ لے آئیں۔’’میرے لئے تھوڑا سا گھی لے آؤ‘‘ گنیش نے کہا اور جب چچی گھی لے آئی تو وہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
ہندوستانی زبان میں بڑبڑاتے ہوئے وہ پیتل کی صراحی سے پانی اپنے اردگرد اور پتے پر چھڑکتا رہا، پھر اس نے آگ کے اوپر گھی کو پگھلایا تو کوئلوں سے تیز سسکاریاں نکلیں۔ اسی وقت گنیش کھڑا ہوا اور بولا ’’تم کو اس آگ کی راکھ ضرور بضرور اپنے شوہر کی پیشانی پر ملنی چاہئے، اگر وہ یہ پسند نہ کرے تو پھر تم اس راکھ کو اس کے کھانے میں شامل کردینا۔ پانی اسی صراحی میں رہنا چاہئے اور روزانہ رات کو اسے مرکزی دروازے کے سامنے رکھ دیا کرنا‘‘۔
طلائی دانتوں والی چچی نے اپنی چادر کو پیشانی تک کھینچا۔ گنیش کھانس کر کہنے لگا’’یہ کافی ہے‘‘، پھر اس نے اپنی سبز چادر کو سنبھالا اور کہا، ’’ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کرسکتا، بھگوان باقی معاملات کو بہتر کرے گا‘‘۔
گنیش اپنی خدمات پر کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا، یہ تو میرے لئے عزت کا مقام ہے، وہ کہنے لگا کہ اسے پنڈٹ رام پرساد کی خدمت کرنے کا موقع ملا اور طلائی دانت خوش قسمت ہے کہ اسے قابل قدر شوہر نصیب ہوا۔ چچی کو ایسا تاثر ملا کہ گنیش کے پاس قسمت اور اس کے ڈیزائن کے متعلق براہ راست معلومات ہیں اور ان کا دل فانی اور ڈھیلے گوشت کے اندر مزید گہرائی میں تھوڑا سا ڈوب گیا۔
’’بابا‘‘وہ ہچکچاتے ہوئے کہنے لگیں،’’محترم باباجی! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے‘‘، لیکن وہ اس کے علاوہ کچھ نہ بول سکیں اور یہ دیکھ کر گنیش کی آنکھوں میں ہمدردی اور محبت امڈ آئی۔
’’وہ کیا، میری بچی؟‘‘۔
’’میں نے ایک بہت بڑی غلطی کردی ہے بابا‘‘۔
’’کس قسم کی غلطی؟‘‘، اس نے پوچھا اور اس کا لہجہ اشارہ دیتا تھا کہ چچی کبھی کچھ غلط نہیں کرسکتی۔
’’میں نے مسیحی اشیاء کے ساتھ دعائیں مانگی ہیں‘‘۔
چچی کو حیرت ہوئی کہ گنیش ہنسنے لگا اور پھر بولا ’’اور بیٹی تمہارا خیال ہے کہ اس سے خدا ناراض ہوگیا ہوگا؟ خدا صرف ایک ہی ہے اور مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اس کی عبادت کرتے ہیں، مسئلہ یہ نہیں کہ تم کس طریقے سے عبادت کرتی ہو بلکہ خدا اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ تم اس سے دعا مانگو‘‘۔
’’یعنی میرے شوہر میری وجہ سے بیمار نہیں ہوئے ہیں!‘‘
’’یقینی طور پر، بالکل نہیں میری بچی‘‘۔
اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں گنیش کا واسطہ مختلف عقائد والے افراد سے پڑتا تھا، اپنے صوفیانہ طرز عمل اور ہندوازم کی کشادگی کے باعث نے تمام لوگوں کیلئے راستہ نکال لیا تھا اور اسی وجہ سے اس کے بہت سارے گاہک بن گئے جنہیں وہ ’بہت سارے مطمئن گاہک‘ کہا کرتا تھا۔
اس دن کے بعد طلائی دانتوں والی چچی نے نہ صرف رام پرساد کی پیشانی پر راکھ کو ملنا شروع کردیا بلکہ وہ راکھ کی کافی مقدار اپنے شوہر کے کھانے میں بھی ڈال دیتی۔ رام پرساد خوش خوراکی جو بیماری میں بھی قائم تھی بالکل ختم ہوگئی اور تھوڑے عرصے بعد ہی اس کی حالت وگرگوں ہوگئی جس نے اس کی بیوی کو بھی شک میں ڈال دیا۔
اس نے شوہر کو پہلے سے زیادہ راکھ کھلانا شروع کردی اور جب تک راکھ ختم ہوئی رام پرساد ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا، پھر چچی نے ایک ہندو بیوی کی طرح اپنی آخری پناہ گاہ کی طرف رجوع کیا، وہ اپنے شوہر کو اس کی ماں کے گھر لے آئیں۔ وہ معزز خاتون، میری دادی، ہمارے ساتھ پورٹ آف اسپین وڈ بروک میں رہتی تھیں۔
سرمئی چہرے کے ساتھ قدآور رام پرساد ڈھانچہ بن چکا تھا۔ اس کی وجیہہ آواز جو ہزاروں مذہبی نکات سمجھا سکتی اور سیکڑوں پراناز (ہندو اسطوری کہانیاں) سنا سکتی تھی اب ایک کمزور سے سرگوشی میں تبدیل ہوگئی۔ ہم نے اسے اٹھا کر اس کمرے تک پہنچادیا جسے نعمت خانہ کہا جاتا تھا۔ اس کمرے کو کبھی نعمت خانے کے طور پر استمعمال نہیں کیا گیا اور دیکھنے والا سمجھ سکتا تھا کہ چالیس سال قبل کسی مخصوص قبائلی سوچ کی بنا پر اسے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اگر کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے آپ کو اس کمرے میں داخل ہونا پڑجائے تو جیسے ہی آپ داخل ہو گے تم پلنگ پر چڑھ جاؤ گے، محسوس ہوتا ہے کہ پلنگ کو کسی معجزے کے ذریعے کمرے میں بچھایا گیا ہو۔ دیواروں کا زیریں نصف اینٹوں کا اور اوپری حصہ لکڑی کی جالیوں سے بنا ہوا تھا اور وہاں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔
میری دادی کو ایک مریض کیلئے ایسے کمرے میں رہنے پر تحفظات تھے، ان کو لکڑیوں کی جالیوں سے پریشانی تھی کیوں کہ اس سے ہوا اور روشنی اندر آسکتی تھی اور وہ یقینی طور پر رام پرساد کو کسی ایسی شے سے نہیں مرنے دے سکتی تھیں جس پر وہ اس کی مدد نہ کرسکیں، کارڈ بورڈ، تیل والے کپڑوں اور ترپال سے انہوں نے کمرے کو ائرپروف اور لائٹ پروف بنادیا۔
صرف ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں رام پرساد کی بھوک اپنی حرص اور اصرار کے ساتھ واپس لوٹ آئی۔ میری دادی نے اس کو اپنا کارنامہ سمجھا اگرچہ چچی کا خیال تھا کہ جو راکھ وہ اپنے شوہر کو کھلاتی رہی ہیں یہ اس کا اثر ہے۔ چچی کو اچانک یہ خوفناک احساس ہوا کہ وہ ایک اہم شے نظر انداز کربیٹھیں۔ کونوپیا والے گھر کو گنیش نے حصار میں باندھ دیا تھا اور اب وہاں بدروحیں داخل نہیں ہوسکتی تھیں لیکن ووڈ بروک والے گھر کو ایسا کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا اور اس میں بدروحیں اپنی مرضی سے آنا جانا کرسکتی تھیں۔ مسئلہ نہایت اہم تھا۔
گنیش سے رابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اپنی خدمات مفت پیش کرکے اس نے چچی کیلئے دوبارہ رابطے کو ناممکن بنادیا تھا لیکن گنیش کے طریقے پر سوچتے ہوئے انہیں اس کے الفاظ یاد آئے، ’’مسئلہ یہ نہیں کہ تم کس طریقے سے عبادت کرتے ہو لیکن خدا اس بات سے خوش ہوتا ہے جب تم اس سے دعا مانگتے ہو‘‘۔
کیوں نہ، پھر مسیحیت کی طرف دوبارہ رخ کیا جائے؟
وہ اس مرتبہ کوئی چانس نہیں لینا چاہتی تھیں چنانچہ انہوں نے رام پرساد کو بتانے کا فیصلہ کیا۔
رام پرساد سہارے سے پلنگ پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، جب چچی نے دروازہ کھولا تو وہ رک گئے اور غیر معمولی روشنی کی طرف دیکھ کر آنکھیں جھپکانے لگے۔ چچی نے دروازے کے راستے پر کھڑی ہوکر اسے گھیر لیا، رام پرساد نے دوبارہ کھانا شروع کردیا، چچی نے اپنی ہتھیلیوں کو پلنگ پر رکھا تو چرچراہٹ پیدا ہوئی۔
’’مین ‘‘ انہوں نے کہا۔
رام پرساد نے کھانا جاری رکھا۔
’’مین‘‘ انہوں نے انگلش میں کہا، ’’میں چرچ میں جاکر دعا کرنے کا سوچ رہی ہوں، تم کو نہیں پتہ لیکن بہتر یہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ گھر حصار میں بندھا ہوا بھی نہیں ہے‘‘۔
’’میں چرچ میں دعا نہیں کرنا چاہتا‘‘ رام پرساد نے سوگوشی کی۔
طلائی دانت نے وہی کیا جو وہ کرسکتی تھیں انہوں نے رونا شروع کردیا۔
وہ تین دن لگاتار چرچ جانے کی اجازت مانگتی رہیں اور ہر مرتبہ انکار پر ان کے آنسو بہنے لگتے۔ رام پرساد بھوک لوٹنے کے باوجود کسی بھی شے کی مخالفت کرنے کیلئے بہت کمزور ہوگیا تھا، وہ اب بھی بہت ناتواں تھا اورہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔ چوتھے دن اُس نے چچی سے کہا کہ وہ اپنے دل و دماغ کیلئے سکون کیلئے چرچ میں دعا کیلئے جاسکتی ہے۔
چچی نے فوری طور پر اپنے دلی سکون کیلئے کام شروع کردیا، وہ ہر صبح ہولی روزری چرچ کیلئے بس پکڑتی تاکہ وہاں جاکر اپنے خاص طریقے سے عبادت کرسکیں، پھر انہوں نے مزید جرات دکھائی اور صلیب کے ساتھ کنواری مریم اور مسیح کی تصاویر بھی گھر لے آئیں، ہم اس عمل پر کچھ پریشان ہوئے لیکن ہمیں چچی کی مذہبی طبیعت کا معلوم تھا، ان کا شوہر پڑھا لکھا پنڈت تھا اور ویسے بھی یہ موت اور زندگی کا مسئلہ تھا چنانچہ مشاہدے کے علاوہ ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ لوبان، کافور اور گھی کو کرشنا اور شیو کے ساتھ کنواری مریم اور مسیح کی تصاویر کے آگے بھی اب جلایا جاتا تھا۔ جس طرح ان کے شوہر کی بھوک بڑھی اسی طرح ان میں عبادت کی تڑپ بھی بڑھ گئی ہمیں دونوں پر تعجب تھا کیوں کہ نہ ہی عبادت اور نہ ہی بڑھتی بھوک رام پرساد کی صحت پر کچھ اثر ڈال رہی تھی۔
ایک شام جب گھنٹیوں کی آواز نے چچی کی عبادت کے اختتام کا اعلان کیا اچانک چیخ و پکار کی آوازیں گھر میں گونجنے لگیں اور مجھے عبادت کیلئے مختص کمرے میں بلایا گیا، ’’جلدی آؤ، تمہاری چچی کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے‘‘۔ لوبان کے دھوئیں سے بھرا پڑا عبادت کا کمرہ غیر معمولی منظر پیش کررہا تھا، میری چچی ہندو مندر کے سامنے جھکی پڑی تھیں جیسے کوئی بوری زمین پر پڑی ہو، ایک بے ڈھنگا بڑا سا تودہ۔ میں نے اپنی چچی کو صرف کھڑے اور بیٹھے ہوئے دیکھا تھا اور اب ان کو سجدے میں بدہیئت طریقے سے پڑا دیکھنا پریشان کن تھا۔
میری دادی اپنی محتاط طبیعت کے ساتھ نیچے جھکی اور اپنے کان کو جسم کے اوپری حصے کے ساتھ لگادیا،’’مجھے دل کی دھڑکن سنائی نہیں دے رہی‘‘ انہوں نے کہا۔
ہم سب بہت ڈر گئے، ہم نے چچی کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ سیسے کی طرح بھاری تھیں، پھر آہستہ سے جسم میں حرکت پیدا ہوئی۔ کپڑوں کے نیچے جسم ہلنے لگا، کمرے میں موجود بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ جبلی طور پر ہم ان کے جسم کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور انتظار کرنے لگے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ چچی نے زمین پر پنجے مارنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ وہ غرغرانے لگیں۔ میری دادی کو معاملہ سمجھ آگیا، ’’اس کو بدروح نے پکڑ لیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’بدروح‘‘ کے لفظ کے ساتھ ہی بچے چیخنے لگے اور میری دادی نے انہیں تھپڑوں سے چپ کرایا۔ غرغرانے کی آواز لفظوں میں ڈھلنے لگی اور چچی خوف سے تھرتھرا کر کہنے لگیں’’سلام مریم، ہائے رام، سانپ میرے پیچھے ہیں، ہرجگہ سانپ ہیں، سات سانپ، رام! رام! تگڑے سانپ۔ سات بدروحیں چار بجے کی ٹرین سے کونوپیا سے پورٹ آف اسپین کیلئے نکل گئے ہیں‘‘۔
میری دادی اور ماں نے دلچسپی سے یہ سب سنا اور ان کے چہرے فخر سے روشن ہوگئے، مجھے اس منظر سے قدرے شرمندگی محسوس ہوئی اور مجھے چچی پر غصہ آیا کہ انہوں نے مجھے بھی ڈرا دیا، میں دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
’’کون جارہا ہے، وہ چھوٹا بیوقوف، کافر؟‘‘ایک آواز اچانک پوچھنے لگی۔
’’لڑکے، جلدی واپس آؤ‘‘، میری دادی نے آہستہ سے کہا، ’’واپس آؤ اور ان سے معافی مانگو‘‘۔ میں نے وہی کیا جو کہا گیا۔
’’ٹھیک ہے بچے‘‘، طلائی دانت کہنے لگی، ’’تم کو نہیں پتہ، تم ابھی چھوٹے ہو‘‘۔
پھر ایسا لگا کہ بدروح ان کے جسم سے نکل گئی، وہ سکڑ کر زمین پر بیٹھ گئیں اور حیران ہوئیں کہ ہم سب وہاں کیوں ہیں۔ بقیہ شام وہ اس طرح رویہ اپنا رہی تھیں جیسے کچھ بھی نہیں ہوا اور لوگوں کے غیر معمولی احترام اور نظروں کو نظرانداز کرنے لگیں۔
’’میں نے پہلے بھی کہا تھا اور دوبارہ کہتی ہوں‘‘ میری دادی نے کہا، ’’یہ مسیحی بہت زیادہ مذہبی لوگ ہیں اور اسی لئے میں نے بہو کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مسیحی عبادت کرے‘‘۔
رام پرساد کا اگلی صبح پوپھٹتے ہی انتقال ہوگیا اور ہم نے مقامی ریڈیو کی دن ایک بجے والی نیوز میں ان کا اعلان کرادیا۔ اگرچہ اعلان کمرشلز کے درمیان صرف ایک مرتبہ کیا گیا لیکن اس نے اثر ڈالا۔ ہم نے انہیں دوپہر کو میوکیوروپو قبرستان میں دفن کردیا۔
جیسے ہی ہم گھر لوٹے تو تو دادی کہنے لگیں، ’’میں نے پہلے بھی ہمیشہ کہا اور اب دوبارہ کہتی ہوں، مجھے یہ مسیحی چیزیں پسند نہیں ہیں۔ رام پرساد ٹھیک ہوجاتا اور اگر طلائی دانت میری بات مان لیتی اور ان مسیحی طریقوں کے پیچھے نہ بھاگتی‘‘۔
چچی تائیدی انداز میں سسکیاں بھرنے لگیں اور پھر کانپتے جسم کے ساتھ انہوں نے مسیحیت کی طرف جانے کی تمام کہانی بیان کی، ہم نے حیرت اور شرمندگی سے سب کچھ سنا، ہم سمجھ نہیں آیا کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد اور اچھا ہندو اس قدر راہ سے ہٹ سکتا ہے، چچی اپنے سینے کو پیٹنے لگیں اور اپنے بالوں کو کھینچتے ہوئے معافی کی بھیک مانگنے لگیں، ’’یہ ساری میری غلطی ہے‘‘ وہ روتے ہوئے کہنے لگیں، ’’ماں! یہ میری غلطی ہے، میں کمزور پر گئی تھی اور پھر میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی‘‘۔
میری دادی کی شرمندگی افسوس میں تبدیل ہوگئی، ’’کوئی مسئلہ نہیں، شاید اس شے کی ضرورت تھی تاکہ تم دوبارہ ہوش میں آجاؤ‘‘۔
اس شام طلائی دانت نے گھر میں موجود مسیحیت سے متعلق ہر شے کو تباہ کردیا۔
’’تم کو صرف خود کو الزام دینا چاہئے‘‘، میری دادی نے کہا، ’’ کیوں کہ آج تمہارا کوئی بچہ بھی نہیں جو تمہارا خیال رکھ سکے‘‘۔
Original Title: My Aunt Gold Teeth
Written by:
V. S. Naipaul (17 August 1932 – 11 August 2018), commonly known as , and familiarly, Vidia Naipaul, was a Trinidad and Tobago-born British writer of works of fiction and nonfiction in English. He is known for his comic early novels set in Trinidad, his bleaker novels of alienation in the wider world, and his vigilant chronicles of life and travels. He wrote in prose that was widely admired, but his views sometimes aroused controversy. He published more than thirty books over fifty years.
Naipaul won the Booker Prize in 1971 for his novel In a Free State. In 1989, he was awarded the Trinity Cross, Trinidad and Tobago’s highest national honour. He received a knighthood in Britain in 1990, and the Nobel Prize in Literature in 2001. (Wikipedia)