یہ لندن کا ایک ہسپتال تھا جس کے لیے ڈاکٹروں کے انٹرویو لیے جا رہے تھے۔ پاکستانی امیدوار نے پاکستان میں اپنے باپ کو ٹیلی فون کیا۔ ’’تیس اسامیاں ہیں اور سات سو امیدوار۔ کوئی امکان ہی نہیں کہ میں کامیاب ہو جائوں۔ یہ سات سو امیدوار دنیا بھر سے آئے ہوئے ہیں‘ انہوں نے شہرۂ آفاق اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ سینکڑوں سفید فام ہیں۔ انٹرویو دینا ایک لاحاصل عمل لگ رہا ہے‘‘۔
ادھیڑ عمر باپ‘ جسے برطانیہ کے نظامِ صحت‘ ہسپتالوں کے معاملات‘ ڈاکٹروں کی باہمی مسابقت‘ کسی شے کے بارے میں درست اندازہ تو نہ تھا‘ پھر بھی مسکرایا اور دلجمعی سے اس نے بیٹے کو فون پر جواب دیا… ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ایک امر بہرطور یقینی ہے۔ انٹرویو لینے والوں اور فیصلہ کرنے والوں کی میزوں کی درازوں میں ایسی فہرستیں ہرگز نہیں پڑی ہوئیں جو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری‘ وزیروں‘ گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ‘ سپیکر اور قائد حزب اختلاف نے بھیجی ہوں۔ وزیراعظم کیا‘ ملکہ میں بھی اتنی جرأت نہیں کہ فیصلہ کرنے والے ڈاکٹروں کو کسی امیدوار کے لیے سفارش کر سکے۔ آرام اور سکون سے انٹرویو دو‘‘…
ایک دن اور ایک رات اس ٹیلی فونک گفتگو کو گزر گیا۔ پھر بیٹے کا باپ کو ایک اور فون آیا… ’’مجھے منتخب کر لیا گیا ہے۔ حیرت ہے میں گورا نہیں اور ڈ اکٹری کی بنیادی تعلیم پاکستان سے حاصل کی ہے۔ انٹرویو لینے والے اور فیصلہ کرنے والے سارے سفید فام تھے۔ چھ سو سے زیادہ امیدواروں میں‘ جو ناکام ہوئے‘ تقریباً نصف سے زیادہ سفید فام ہیں‘‘۔
یہ صرف ایک سچا واقعہ ہے۔ ان فہرستوں کی وجہ سے جو ہر ادارے میں انٹرویو لینے والوں اور فیصلہ کرنے والوں کو ’’اوپر‘‘ سے آتی ہیں‘ پاکستانی ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آئی ٹی ماہرین‘ پروفیسر‘ سائنس دان‘ ٹیکنوکریٹ یہاں تک کہ ٹیکنیشن بھی بیرون ملک بھاگ رہے ہیں۔ واپس کوئی نہیں آتا۔ کوئی آ جائے تو منہ کی کھاتا ہے اور دوبارہ بھاگ جاتا ہے۔ نجی شعبہ روز بروز سکڑ رہا ہے۔ سرمایہ کار بھی بھاگ رہے ہیں۔ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش‘ ویت نام‘ سری لنکا‘ کوریا… جہاں بھی سینگ سما جائیں… کارخانہ کون بدبخت لگائے گا۔ بجلی گیس ہر چیز کے لیے رشوت… اور رشوت کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق وفاقی سیکرٹری نے جو تقریباً ہر وقت باوضو رہتے ہیں‘ اپنی آنکھوں سے ایک رپورٹ پڑھی کہ پھانسی پانے والے مجرم کے لواحقین سے اس بات کی رشوت لی جاتی ہے کہ اسے تختے سے کتنی اونچائی پر لٹکایا جائے‘ اس میں کچھ ایسی ٹیکنیک ہوتی ہے کہ جان‘ جسم سے جلد بھی نکل سکتی ہے اور دیر سے بھی… دیر سے نکلے تو مجرم زیادہ دیر تڑپتا ہے اور زیادہ دیر نزع کے عذاب سے گزرتا ہے۔
’’خونی انقلاب‘‘ لانے والے حاکم کبھی بھیس بدل کر پانچ کنال زرعی زمین یا دس مرلے کے مکان کا اپنے نام انتقال کرانے کچہری جائیں۔ پٹواری سے فرد لینے کے لیے رشوت‘ انتقال کرانے والوں سے وقت لینے کے لیے رشوت‘ رجسٹر پر اندراج کرنے کے لیے رشوت‘ بیان لیتے وقت رشوت‘ پھر ’’صاحب‘‘ سے رجسٹر پر دستخط کرانے کے لیے رشوت! ملک کی ساری کچہریوں‘ سارے پٹواریوں‘ سارے تحصیل داروں‘ نائب تحصیل داروں کو جمع کریں اور حساب لگائیں‘ کتنے کروڑ روزانہ اور کتنے ارب ہفتہ وار رشوت کی مد میں آ جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک شعبے کی حالت ہے۔
آپ کے جاننے والے ڈاکٹروں‘ انجینئروں‘ سائنس دانوں میں سے کتنے لوگ بیرونِ ملک سے واپس آئے ہیں؟ غالباً ایک آدھا یا ایک بھی نہیں! دوسرے ملکوں میں کیا صورتِ حال ہے؟ سنگاپور یا ملائیشیا کو چھوڑیے‘ قارئین اعتراض کرتے ہیں کہ اُن ملکوں کا موازنہ جو آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں‘ پاکستان سے کیوں کر رہے ہیں؟ بھارت تو ہمارے جیسا ہے۔ وہی رنگ‘ وہی کرپشن کا کلچر… وہی عادتیں‘ وہی لڑائی جھگڑے‘ وہی غیبت‘ وہی ٹانگیں کھینچنے‘ قینچی مارنے‘ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی لت… ’’کیلی سروسز‘‘ بھارت کی ایک نجی کمپنی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت اور اس کی کھپت پر تحقیق کر رہی ہے۔ اس نے 2011ء میں رپورٹ پیش کی کہ 2015ء تک تین لاکھ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھارت میں واپس آ رہے ہیں۔ ایک اور ادارہ ’’کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری‘‘ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ حالیہ عرصے میں واپس آ چکے ہیں اور تمام کے تمام کو تسلی بخش ملازمتیں اہلیت کے مطابق مل جاتی ہیں۔ ’’زمانہ بدل گیا ہے۔ اب یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ میں امریکہ سے یا یورپ سے واپس آ کر بھارتی فرم میں ملازمت کر رہا ہوں‘‘۔ تنخواہیں اتنی ہیں اور سرکار کی نجی شعبے میں عدم مداخلت اتنی مکمل ہے کہ جس طرح بیرونِ ملک کام کرنے کی اور فیصلے کرنے کی آزادی تھی‘ یہاں بھی اسی طرح ہے!
نجی شعبے میں اتنی آزادی‘ اتنی ترقی کیوں ہوتی ہے؟ اس لیے کہ سرکار میں بیٹھے ہوئے اہم افراد بزنس نہیں کر سکتے۔ واجپائی سے لے کر من موہن سنگھ تک‘ مرارجی ڈیسائی سے لے کر سونیا گاندھی تک…آئی کے گجرال سے لے کر مودی تک… کسی کا ملک سے باہر کوئی کارخانہ ہے‘ نہ جائداد‘ نہ بینک اکائونٹ۔ کسی کا بیٹا بزنس میں ہے‘ نہ کسی کا داماد بادشاہی کرتا ہے۔ چین کی ساری ترقی اُن چینیوں کی مرہونِ منت ہے جو ساری دنیا سے واپس چین میں آئے۔ انہوں نے چین کو زمین کے نیچے کی پستی سے اٹھایا اور ساتویں آسمان پر لے گئے۔ اس لیے کہ ان کے مقابلے میں وزیروں‘ وزراء اعظم‘ صدور اور کابینہ کے ارکان کے مفادات نہیں تھے۔ رشوت کی سزا وہاں موت ہے۔
اللہ کے بندو! کچھ سوچو‘ تمہارے جگر کے ٹکڑے‘ تمہاری آنکھوں کے ستارے چودہ چودہ‘ سولہ سولہ جماعتیں پڑھ کر ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے وزیروں‘ عوامی نمائندوں کے دروازوں پر کھڑے ہیں۔ ذہنی صلاحیت انہیں پروردگار نے دی ہے۔ تعلیم کا خرچ ان کے حلال خور ماں باپ نے اٹھایا ہے۔ ملک ان کا ہے۔ اس پاک سرزمین کی ہوا‘ چاندنی‘ دھوپ‘ کھیتیاں‘ پھول‘ درخت ان کے ہیں تو ملازمتیں ایک مخصوص طبقے کی جیب میں کیوں ہیں؟ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ‘ اے این پی‘ قاف لیگ‘ جے یو آئی کے سیاست دانوں کا بھرتیوں‘ ملازمتوں‘ تعیناتیوں‘ تبادلوں اور ترقیوں پر قبضہ کیوں ہے؟ یہ نجی شعبے میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔ کیوں؟ تمہارے جگر کے ٹکڑوں کا حق کب تک اسّی اسّی سال کے ریٹائرڈ خاندانی وفاداروں کے تنور ہائے شکم میں جاتا رہے گا؟ تمہارے موتی‘ تمہارے لعل کب تک سفارت خانوں کے سامنے دھوپ اور بارش میں قطاروں میں کھڑے رُلتے رہیں گے۔ کب تک ایوانوں میں بیٹھے ہوئوں کے بیٹوں‘ بھتیجوں‘ بھانجوں‘ دامادوں کو ایک ایک ٹیلی فون کال پر قیمتی ملازمتیں ملتی رہیں گی۔ پورا ٹیکس دے کر کب تک اُن کی حکمرانی کے سائے میں سسکتے رہو گے جو چند ہزار روپوں کا ٹیکس بھی نہیں دیتے اور تمہارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کو مزارع سمجھتے ہیں؟ کب تک تمہارے بیٹے تمہاری تدفین کے بعد پہنچ کر تمہاری قبروں سے لپٹ لپٹ کر روتے رہیں گے اور چند دن بعد آہیں بھرتے‘ دل میں کسک‘ آنکھوں میں آنسو لیے واپس ایئرپورٹوں کی طرف روانہ ہوتے رہیں گے؟ یہ ملک تمہارا نہیں ہو سکا… خدا کے لیے‘ اُس کے رسولؐ کے لیے یہ ملک اپنے بچوں کو تو لوٹائو۔ تمہارا ملک ان کی کالونی بن چکا ہے جن کے بچے لندن اور دبئی میں رہتے ہیں اور تم پر حکمرانی کے لیے کئی نسلوں کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ اسے کالونی نہ بننے دو۔ سنو! یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے ع
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“