علامہ اقبال کا یہ شعر بارہا پڑھا اور سنا جاتا ہے لیکن اس کی حقیقت پر غور نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت و افادیت کو صحیح طور پر سمجھا جاتا ہے اگر آج کل مسلمان اس کو حرز جاں بنالیں اور اس کی حقیقت کو اختیار کرلیں تو یقینا حالات میں تبدیلی آسکتی ہے اور پھر وہی ماضی کا نظارہ اور مسلمانوں کا دور دورہ ہوگا،
ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ شعر ایک انقلابی شعر ہے،یہ شعر مردہ دلوں کو تازگی بخشتا ہے، سوئ انسانیت کو بیدار کرتا ہے، تنگ نظری کے شکار انسان کو فکر وسیع عطا کرتا ہے، محدود دائرہ سے نکل کر سیر افق کی دعوت دیتا ہے، جمود کے شکار افراد کو متحرک اور نشاط کی کیفیت پیدا کرنے کی طرف آمادہ کرتا ہے، اور خاص طور سے نوجوان نسلوں کو ان کے مقام و مرتبہ دنیا میں ان کی مقصد آمد اور جوانی کے اہم فرائض کی طرف توجہ مرکوز کراتا ہے، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے اور اس کی سوئ جوانی کو متحرک بناتا ہے، اس کے قلب و جگر کو جھنجھوڑ تا ہے اس کو کچوکے لگاتا ہے اور جوانی کو کارآمد بنانے کی طرف مائل کرتا ہے، ان کو ان کی جوانی کا مقصد یاد دلاتا ہے اور ہمیشہ چاک و چوبند رہنے کیلئے پرعزم بناتا ہے، کیوں کہ ان کے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑے اہم کام رکھے ہیں اور ان کو سر انجام دینے کا مطالبہ کیا ہے، اگر ان کی جوانی سو گئ اور ان کے حوصلے پست ہو گۓ ان میں جمود چھاگیا تو ان کی جوانی رائیگاں چلی جائے گی اور ان کی ساری ذمہ داریاں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور ان کی اس کاہلی کا نتیجہ پورے معاشرہ پر پڑیگا جس سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا، نوجوان معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اگر وہ ہڈی مضبوط نہ ہو اور اس میں کچھ خرابی پیدا ہو جاۓ تو پورا جسم متاثر ہو جاتا ہے اسی طرح اگر نوجوان ہی معاشرہ کی ذمہ داریوں سے منہ پھیر لے تو معاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جائے گا معاشرہ کا وجود و بقا اسکی ترقی و ارتقاء انہیں پر منحصر ہے، اقبال کے اس شعر نے اس کی بھرپور عکاسی کی ہے، اگر شریعت کے رو سے دیکھا جائے تو نوجوانوں کے سلسلہ میں بہت سی بشارتیں وارد ہوئی ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جوانی کا استعمال صحیح طور پر کیا جائے لیکن اگر جوانی کا استعمال غلط طور سے کیا جائے اس کو لہو و لعب میں گزار دیا جائے تو پھر وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، ایک حدیث میں آیا ہے کہ سات چیزوں کو سات چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جوانی کو بوڑھاپا آنے سے پہلے غنیمت جانو، کیوں کہ جب بوڑھاپا آجاتا ہے تو انسان چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا لہذا جوانی کو غنیمت سمجھنا چاہیے قبل اس کے کہ وہ بوڑھاپے میں تبدیل ہو جاے، اور پھر یہ ہے اللہ تعالیٰ جوانی میں کی جانے والی عبادت