اُسے کہو کہ مجھے اور مختصر نہ کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر انسان کے سامنے کائنات کے تمام راز کھل گئے اور وہ کائنات کے ہر پست وبلند سے واقف ہوگیا تو کیا کائنات ویسی ہوگی جیسا انسان نے اُسے سمجھ لیا؟
بالکل بھی نہیں۔
وہ کائنات کی فقط ایک تشریح ہوگی، یعنی انسان کی نگاہ سے دیکھی گئی کائنات۔ کسی اور طرح کے ناظر یا شاہد کی دیکھی ہوئی کائنات بالکل کسی اور شکل کی ہوگی بایں ہمہ یہ کہنا کہ انسان کبھی کائنات کا تمام علم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ حقیقی کائنات کو بھی جان جائیگا درست نہیں۔
فرض کریں کسی اور جاندار کو اس کے اپنے حواس کے ساتھ انسانی دماغ جتنا منطقی دماغ عطا کردیاجائے تو کیا اُس کی دیکھی ہوئی کائنات ویسی ہوگی جیسی انسان کی دیکھی ہوئی کائنات ہوسکتی ہے؟ بالکل نہیں! کیونکہ اس جاندار کے حواس انسانی حواس سے مختلف ہیں۔
غرض کائنات کے پست و بلند کا حقیقی علم حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ہم جو کچھ بھی جانتےہیں وہ فقط ہماری رائے ہے۔ حقیقی کائنات کیسی ہے، ہم اِن حواس کے ساتھ تو کبھی بھی نہیں جان سکتے۔
حقیقی کائنات کیسی ہے؟ اور حقیقی کائنات کو جاننے کے لیے ہمیں کس قسم کے حواس درکار ہیں یہ بتانا بھی ممکن نہیں۔ لیکن ایک بات نہایت حیران کن ہے۔ ہم اپنے حواس کو وقت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ طاقتور اور حسّاس بنا چکے ہیں۔ مختلف آلات کی مدد سے ہم نے اپنی پانچوں حسّوں کو انتہا درجے کا طاقتور بنالیا ہے۔ ہم جب فقط اپنی تشریح والی کائنات کے بارے میں سب کچھ جان جائینگے تو ہم اُسی تشریح کے اندر رہتے ہوئے اپنے حواس کو مزید سنوارسکیں گے۔ شاید کبھی اتنا بھی سنوارلیں کہ یہ سوال ہی باقی نہ رہے۔ یہ سوال کہ حقیقی کائنات کیسی ہے؟
حواس سنوار لینے سے مُراد فقط مائیکروسکوپس یا ٹیلی سکوپس کا زیادہ کمپوٹرائزڈ ہوجانا ہی نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے ہم اپنے اعضأ میں تبدیلی کو قبول کرلیں۔ کون اپنے آپ پر حدودوقیود برداشت کرسکتاہے؟ چنانچہ حواس کو سنوار لینے سے مُراد یہ بھی ہے کہ عین ممکن ہے ہم اپنا جسم چھوڑ دیں۔ جسم کی وجہ سے ہم آکسیجن کے لیے زمین پر رہتے ہیں اور جسم کی وجہ سے ہی ہم گریوٹی کے پابند ہیں۔
سٹرنگ تھیوری مکان کے جن ابعاد (سپیس کی ڈائمنشنز) کے امکانات کا ذکر کرتی ہے، اُن ابعاد تک رسائی ویسے بھی اِس جسم کے ساتھ ناممکن ہے۔ ہم بڑی بڑی چیزوں کے عادی ہیں۔ باریک چیزوں کا جہان بالکل مختلف ہے۔ مثلاً ایک ایٹم اتنا زیادہ خالی ہوتاہے کہ اگر کسی ایٹم کے نیوکلیس کو چنے کے دانے جتنا تصور کرلیا جائے تو الیکٹران ایک بڑے فٹبال سٹیڈیم کے زینوں پر بیٹھے نظر آئینگے۔ یعنی دیکھا جائے توپورا ایٹم فقط خلا ہی خلا ہے۔ ہمارا جسم بھی تو انہی ایٹموں سے مل کر بناہے چنانچہ ہمارا جسم بھی ، اگر دیکھاجائے تو نِرا خلا ہی خلا ہے۔ تو پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ایک خلا دوسرے خلا میں سے آرپار ہوجائے۔ ہم دیوار میں سے نہیں گزر سکتے تو اس لیے کہ ہمارے ایٹموں نے ایک خاص قسم کی فورس فیلڈ پیدا کررکھی ہے، اسی طرح دیوار نے بھی ایک خاص قسم کی فورس فیلڈ پیدا کررکھی ہے ۔ ہم کیا ہیں؟ کیا ہم فقط ایک فورس فیلڈ ہیں؟ ایک لحاظ سےدیکھا جائے تو یہ بات بالکل درست ہے۔
زیادہ گہری سچائی تک پہنچنے کے لیے شاید انسان اپنے آپ کو بہت باریک کرلیگا۔ یہ کاربن، آکسیجن اور دیگر کیمیائی عناصر کا اتنا بڑا تھیلا شاید انسان دیر تک نہ اُٹھاسکے۔
گھٹا گھٹا کے سمندر سے کردیا قطرہ
اُسے کہو کہ مجھے اور مختصر نہ کرے (امتیاز احمد شہزاد)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔