اس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
آج ممتاز شاعر ، محقق، مترجم ، استاد صوفی تبسم کی چالیسویں برسی ہے۔
صوفی غلام مصطفٰی تبسم 4 اگست 1899 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام صوفی غلام رسول اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ وہ چار بہن بھائی تھے جن میں صوفی تبسم سب سے بڑے تھے ۔
شاعری شروع کی تو صوفی غلام مصطفیٰ نے ابتدا میں اصغر صہبائی تخلص اختیار کیا۔ پھر ان کے استاد حکیم فیروزالدین طغرائی نےان کی شخصیت کی مناسبت سے تبسم تخلص تجویز کیا۔
صوفی تبسم 1924 میں ایم اے فارسی کرنے کے بعد امرتسر میں سکول ٹیچراور انسپکٹر آف سکولز رہے۔ اس کے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرر اورپروفیسر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانۂ فرہنگِ ایران ، ہفت روزہ لیل و نہار، ریڈیو پاکستان ، پاکستان آرٹس کونسل ، اقبال اکادمی، مجلہ مخزن اور مجلس زبانِ دفتری سے بھی وابستہ رہے۔
انہوں نے اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں میں شاعری کی۔ انجمن ، دامنِ گل اور دوگونہ صوفی صاحب کے شاعری اور تراجم کے مجموعے ہیں۔ بچوں کے لئے صوفی صاحب کی نظموں کے مجموعوں جھولنے ، ٹوٹ بٹوٹ ، کہاوتیں اور پہلیاں، سنو گپ شب کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ شیکسپئیر کےڈرامے ’’مڈسمر نائٹ ڈریم‘‘ کا ’’ساون رین کا سپنا‘‘ کے نام سے ترجمے اور اقبال اور امیر خسرو کی شاعری کے اردو، پنجابی تراجم پر اہل علم سے داد پائی۔۔ مدتوں ٹی وی، ریڈیو سے پروگرام "اقبال کا ایک شعر" کرتے رہے ۔
1965ءکی جنگ میں ان کے ترانوں نے بڑی شہرت حاصل کی۔ حکومتِ پاکستان نے آپ کو ستارۂ امتیاز کا اعزاز پیش کیا۔
7 فروری 1978 کو اسلام آباد سےواپس آرہے تھے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن پر آخری سانس لئے۔
صوفی صاحب کو کرکٹ سے بہت دلچسپی تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور ٹیم کے نگران ہی نہیں رہے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔
مجھے پہلی بار 1968 میں بہاولپور میں صوفی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔
اس کے بعد 1975 میں پنجاب یونیورسٹی ، شعبہ صحافت کے طلبہ کی تنظیم پروگریسو جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا سیکریٹری تھا۔ ہم نے نامور صحافی عبدالمجید سالک کی یاد میں تقریب کا پروگرم بنایا تو استادِ محترم ڈاکٹر عبدالسلام خوشید نے صدارت کیلئے صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کا نام تجویز کیا۔ سحر صدیقی ، یٰسین چودھری اور میں سمن آباد میں ڈونگی گرائونڈ کے کونے پر ان کےگھر گئے، شفقت فرمائی اور بخوشی ہماری درخواست قبول کی۔ خوب خاطر تواضع بھی کی۔
تقریب نیو کیمپس کے وحید شہید ہال میں ہوئی۔ خلافِ توقع ہال بھر گیا۔ حیرت ہوئی کہ حاضرین میں خاصی تعداد بچوں کی تھی ، پتہ چلا کہ شعبہ تعلیم وتحقیق کے لیبارٹری سکول کے بچے یہ سن کر آگئے تھے کہ ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں لکھنے والا آیا ہے۔ چند پر اعتماد بچے آگے بڑھ کر ملے بھی، صوفی صاحب نے ان سے پیار کیا۔
صوفی تبسم بتاتے تھے ’’میرے بچے اپنی ماں اور دادی جان سے کہانیاں سنتے، ایک دن ان کی والدہ نے انھیں میری طرف بھیجا کہ جاؤ آج والد سے کہانی سنو۔ میں نے دو چار دن تو کہانی سنائی مگر پھر میں نے بچوں سے کہا کہ میں آپ کو نظم سناسکتا ہوں اور یوں انھوں نے اپنی بیٹی ثریا کے لیے ایک نظم کہی ’’ثریا کی گڑیا نہانے لگی، نہانے لگی ڈوب جانے لگی، بڑی مشکلوں سے بچایا اسے، کنارے پہ میں کھینچ لایا اسے۔ صوفی تبسم کے دوست عبدالخالق کا بیٹا جاوید دلچسپ حرکتیں کرتا رہتا تھا، صوفی صاحب اسے ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ کہتے ۔ انہوں نےاس پر نظمیں لکھیں۔ اور وہ مشہور و معروف اور بچوں کا پسندیدہ کردار کردار بنا۔
صوفی تبسم نے 1960 میں فلم’’شام ڈھلے‘‘ کیلئے چار نغمات لکھے
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
محبت ایک دولت تھی لٹادی رائیگاں میں نے
میری مست جوانی لہرائی احسان ہے مجھہ پہ ساقی کا
پربت پہ جب شام ڈھل جائےگی
صوفی صاحب نے پھر 1966 میں ’’ انسان‘‘ کیلئےچار گیت لکھے
اے خدا بے سہاروں کے خدا
ملی ہے نظر سے نظر
پیار کا کوئی سہارا نہ رہا غم کے سوا
اب نہ آنا میری گلیوں میں دغا باز کبھی
1966 کی فلم ’’پروہنا‘‘ میں صوفی تبسم کے جنگ ستمبر کے دوران لکھے گئے دو ترانے’’ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ اور ’’ میرا ماہی چھیل چھبیلا،ہائے نی کرنیل نی، جرنیل نی‘‘ بھی شامل کئے گئے۔
1969 میں صوفی تبسم نےفلم ’’ پتھر تے لیک‘‘ کیلئے ’’ کسے نال نہ اکھیاں ملا وے‘‘ لکھا۔
1973 میں بننے والی فلم ’’ ایک تھی لڑکی‘‘ میں صوفی صاحب کا کیا ہوا غالب کی غزل کا پنجابی ترجمہ ’’ میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں‘‘ بھی شامل کیا گیا۔
صوفی تبسم کے کچھہ شعر
ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
ایک شعلہ سا اٹھا تھا دل میں
جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں
حسن کا دامن پھر بھی خالی
عشق نے لاکھوں اشک بکھیرے
اک فقط یاد ہے جانا ان کا
اور کچھہ اس کے سوا یاد نہیں
جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں
ہم ہوئے کیسے جدا یاد نہیں
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
کون کس کا غم کھائے کون کس کو بہلائے
تیری بے کسی تنہا میری بے بسی تنہا
کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں
ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے
کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے
ملتے گئے ہیں موڑ نئے ہر مقام پر
بڑھتی گئی ہے دوریاں منزل جگہ جگہ
روز دہراتے تھے افسانۂ دل
کس طرح بھول گیا یاد نہیں
بس آہ کشیدم و بیاری نرسید
بس نالہ زدم بہ غمگساری نرسید
صد اشک فروچکید از دو چشمم
یک قطرہ بدامن نگاری نرسید
صوفی صاحب کی پوتی ڈاکٹر فوزیہ تبسم Drfouzia Tabassum نے اپنے شوہر آغا شاہد کے تعاون سے صوفی تبسم اکیڈمی قائم کی ہے۔ جو صوفی صاحب کی یاد میں مشاعروں، مذاکروں کے علاوہ بچوں کیلئے ٹوٹ بٹوٹ فیسٹیول بھی کراتی رہتی ہے۔ جس میں نظم خوانی ، ڈرامے اور دوسری تفریحات شامل ہوتی ہیں۔
الحمد پبلیکیشنز انارکلی لاہور کے صفدر حسین نے کلیات صوفی تبسم شائع کی ہے۔
ان کا فون نمبر03334645700
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“