بلوچی موسیقی کی دنیا زرخیزیت کا امین ہے۔ اس شعبہ میں کئی نام پائے جاتے ہیں جو اپنی سحر انگیز اور سریلی آواز سے اپنے مداحوں کا دل لبھاتے ہیں۔ ان میں ایک اہم نام استاد سبزل سامگی کا ہے۔
سبزل سامگی 1949 میں ضلع کیچ کے دور افتادہ گاؤں سامی میں پیدا ہوئے۔ اس لیے علاقے کی نسبت سے ان کا نام سبزل سامگی مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ سبزل سامگی پر جوانی کے ایام ہی میں گائیکی کا جنون طاری ہوا تھا۔ وہ بکریوں کو چراتے وقت بلوچی راگ "زھیروک” گنگنایا کرتے تھے اور ان کی آواز میں وہ درد تھا کہ جس نے اسے بعد میں بلوچی گائیکی کی دنیا کا مایہ ناز گلوکار بنا دیا۔
سبزل سامگی کی آواز سامی کے بیابانوں سے نکل کر کیچ کے نخلستانوں، دشت کی بے آب و گیاہ میدانوں، مکران کے چمکتے ہوئے ساحلوں اور کوئٹہ کی وادیوں تک گونجنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی سبزل سامگی نے اس پورے خطہ میں اپنی آواز کا سحر طاری کردیا۔ کیا پیر ہو کیا جوان ہو سب سبزل سامگی کی جادوئی آواز کا مرید بن گئے۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا مخصوص محافل، سبزل سامگی کی جادوئی آواز کا ہر ایک دلدادہ بن گیا۔
بلوچی موسیقی کے فروغ کے لئے قائم ادارہ بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کے روح رواں گلزار کچگی سبزل سامگی کے فن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ "سبزل سامگی کا فن غیر معمولی اسلوب کا حامل رہا ہے۔ سبزل سامگی نے گائیکی کا چلن جوانی کے ابتدائی ایام سے ہی اپنایا۔ وہ نخلستانوں اور کھیتوں میں بکریاں چرا کر بلوچی زھریگ کا الہان کرتے تھے۔ سبزل سامگی کی آواز میں سحر موجود تھا اور اس اسلوب نے آگے چل کر سبزل سامگی کو بلوچی زبان کا لیجنڈری گلوکار کا درجہ دلایا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ سبزل سامگی کی گائیکی کا اسلوب جن ساز پر مشتمل تھا اس کو کیچی یعنی کیچ کا ساز "ساربانی” اور "جنتری” کہتے ہیں۔ بلوچی زھریگ پر سبزل سامگی کو مکمل عبور حاصل تھا جس کی وجہ یہ تھی کے جب وہ بیانوں میں بکریاں چراتے تھے تو زھریگ کے بول بھی اپنے میٹھی آواز میں گنگناتے۔سبزل سامگی نے کسی اکیڈمی سے گائیکی کا فن نہیں سیکھا بلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے بلوچی موسیقی میں اپنا اہم مقام بنایا۔”
سبزل سامگی کی گائیکی کا فن کثیر ال صلاحیتوں کا مظہر رہا ہے۔ وہ اپنے منفرد اسٹائل سے گیت گاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان کی آواز میں ایک سوز اور کشش محسوس ہوتی تھی بالخصوص جب وہ محفل میں زھیروک کا الہان کرتے تو وہ محفل پر انہماک اور پُر سوز سحر طاری کرتے تھے۔
سبزل سامگی 1970 میں گلوکاری کی میدان میں قدم رنجاں ہوئے۔ ان کا اس شعبہ سے وابستگی 50 سال پر محیط تھا۔ وہ اپنے فن سے بلوچی زبان اور ادب کی خدمت کرتے رہے۔ بلوچی موسیقی میں جدت آنے کے باوجود سبزل سامگی کی آواز کا سحر کم نہ ہوسکا۔ جدید دور میں رہنے والے بلوچی موسیقی کے مداح سبزل سامگی کی آواز سننے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ریے۔
سبزل سامگی بلوچی زبان کے واحد گلوکار ہیں جن کی سب سے زیادہ گانوں کے البم منظر عام پر آئے ہیں۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں گیت گا چکے ہیں۔ سبزل سامگی نے قومی سطح پر اپنی صلاحتیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کو بیرون ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ سال 2018 میں بلوچی میوزک پروموٹر سوسائٹی کی جانب سے تربت میں ان کو ان کے خدمات کے صلہ میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
سبزل سامگی بلوچی میوزک سے اپنی چار دہائیوں سے زائد قائم وابستگی کو توڑتے ہوئے 9 نومبر 2020 کو اپنے ہزاروں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے ابدی مقام کی طرف کوچ کرگئے ہیں۔
لیکن جب تک استاد سبزل سامگی زندہ تھے وہ اپنے جادوئی آواز سے اپنے مداحوں کو سرور بخشتے رہے اور ان کے چلے جانے کے بعد بھی ان کے سوت اور زھیروک بلوچی موسیقی کے دیوانوں کے کانوں میں رس گھولتے رہیں گے.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...